آئیے دیکھیے ہم شکر پڑیاں برباد کر رہے ہیں
گزرے وقتوں کی بات ہے، ٹوئٹر نہیں ہوتے تھے اس لیے ہر واردات جائے واردات پر ڈالی جاتی تھی۔ سکولوں کو حکم دیا گیا کہ باہر ایک بورڈ نصب کیا جائے اور اس پر لکھا جائے" آئیے دیکھیے ہم فروغ تعلیم کے لیے کس قدر کوشاں ہیں "۔ کل شام شکر پڑیاں گائوں میں راجہ اللہ داد خان کی حویلی کی چھت پر کھڑا میں سوچتا رہا کہ میرے بس میں ہو تو لوک ورثہ کے سامنے ایک بڑا سا بورڈ نصب کر کے اس پر لکھ دوں " آئیے دیکھیے ہم شکر پڑیاں کو کیسے برباد کر رہے ہیں "۔
بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ شکر پڑیاں مارگلہ ہلز نیشنل پارک کا حصہ ہے۔ شاید اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ بھی اس حقیقت سے بے خبر ہے کیونکہ اس کی توجہ کا مرکز صرف مارگلہ کی پہاڑیوں کے چند قدیم درے ہیں جنہیں ٹریل کہا جاتا ہے۔ وائلڈ لائف کا دفتر بھی مارگلہ کی پہاڑیوں کی دہلیز پر ڈائنو پارک میں ہے۔ شکر پڑیاں میں نہ کہیں اس کا کوئی کیمپ آفس ہے نہ ہی کبھی یہاں اس کے عملے کا کوئی رکن نظر آیا۔ یعنی پارلیمان نے نیشنل پارک کے تحفظ کے لیے جو ادارہ بنایا اس ادارے کو یا تو معلوم ہی نہیں کہ صرف مارگلہ کی پہاڑیاں ہی نہیں شکر پڑیاں بھی نیشنل پارک کا حصہ ہیں یا پھر اس نے زبان حال سے اعلان کر رکھا ہے کہ ہم تو صرف مارگلہ کی پہاڑیوں تک محدود ہیں شکر پڑیاں کا ستیا ناس ہو یا سوا ستیا ناس ہماری بلا سے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے 2008 میں کرکٹ سٹیڈیم کے لیے 48 ایکڑ جگہ مانگی اور سی ڈی اے نے کمال بے نیازی سے شکر پڑیاں میں یہ جگہ الاٹ کر دی۔ بھلا ہو جناب روئیداد خان صاحب کا جو سپریم کورٹ چلے گئے اور چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے حکم دے دیا کہ نیشنل پارک میں سٹیڈیم نہیں بن سکتا۔ نیشنل پارک کا یہ جنگل اس بے ہودگی سے تو بچ گیا لیکن اس کا جو حشر کیا جا چکا ہے اسے دیکھ کر رونا آتا ہے۔ یہ اس وقت قدرتی جنگل کم اور کنکریٹ کا جنگل زیادہ بن چکا ہے۔
راجہ اللہ داد خان کی حویلی کے مینارے اور جھروکوں میں کباڑ ڈمپ کیا جا چکا ہے اور باہر صحن میں بابو لوگوں کے لیے دفاتر تعمیر کیے جا چکے ہیں۔ جہاں کسی زمانے میں کنول جھیل ہوتی تھی، وہ سارا جنگل کاٹ دیا گیا ہے۔ جو درخت بچ گئے تھے وہ کنول جھیل بحالی کے نام پر کاٹ دیے گئے۔ شروع میں مجھے بھی بہت خوشی ہوئی کہ کنول جھیل بحال کی جا رہی ہے لیکن اب وہ بد ذوقی اور جہالت کا شاہکار ہے، جھیل نہیں۔ معلوم نہیں بابو لوگوں نے اس پراجیکٹ پر کتنا لگایا اور کتنا کھایا ہو گا لیکن اب یہ ایک جوہڑ ہے جس کی دیواریں کنویں کی طرح سیمنٹ اور پتھر سے دیوار کی طرح بنا دی گئی ہیں۔ جھیل کنارے کیا ایسے ہوتے ہیں؟ واٹر ٹینک کی طرح پانی سٹور کرنے کا اایک جوہڑ سا بنا کر اسے جھیل کہنے والوں کو اول نیب اور پھر کسی نفسیاتی معالج کے پاس بھیجنا چاہیے۔
جھیل کے پہلو میں کوارٹرز ہیں۔ جانے یہاں کون رہ رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ نیشنل پارک میں یہ عمارات تعمیر کرنے کی اجازت کس نے دی اور کیوں دی؟ جھیل کے پہلو میں صدیوں پرانی ایک مسجد برآمد ہوئی ہے۔ جانے کب سے یہ ملبے کے نیچے دبی ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور مسجد بھی ہے جسے قدیمی مسجد کہا جاتا ہے۔ یہ مسجد گویا قدیمی مسجد سے بھی پرانی ہے۔ اب کہنے کو تو اس صدیوں پرانی مسجد کو قومی ورثہ قرار دیا جا چکا ہے لیکن اس کی دیکھ بھال کا کوئی انتظام نہیں۔ مسجد کا قبلہ رخ درست نہیں ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بہت قدیم مسجد ہے جب سائنسی آلات سے قبلہ کی سمت کا تعین نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اسی لیے کچھ فرق رہ گیا۔
یہ مسجد ایک ٹیلے کے نیچے دبی ہوئی تھی۔ یہ ٹیلا دیکھنے میں بھی مصنوعی سا دکھائی دیتا ہے۔ یعنی یہ قدرتی پہاڑی نہیں ہے بلکہ ملبہ مٹی ڈالنے سے ایک ٹیلہ سا بن گیا ہے۔ مسجد اس کے ایک کونے پر ہے۔ اگر اس کی کسی ترتیب سے کھدائی کی جائے تو اس مسجد کے کچھ کمرے شاید اب بھی ٹیلے کے نیچے دبے ہوئے ہوں کیونکہ دیکھنے سے ایسے ہی آثار ملتے ہیں کہ شاید یہاں ساتھ کوئی سرائے یا مدرسہ بھی ہوتا ہو گا۔ لیکن سی ڈی اے نے درخت کاٹ پھینکے اور ٹیلے کی کھدائی کی بجائے اس پر پارکنگ بنائی جا رہی ہے یا کوئی اور منصوبہ ہے کہ مٹی کے ٹرالر بھر بھر کر اس پر ڈالے اور ہموار کیے جا رہے ہیں۔ بے حسی اور نا اہلی کی یہ انتہاء ہے۔
پاکستان مانومنٹ ایک اچھی اور قابل قدر کوشش ہے لیکن کیا اسے یہاں نیشنل پارک میں جنگل کاٹ کر بنانا ضروری تھا؟ کیا یہ یادگار کسی نئے سیکٹر میں نہیں بنائی جا سکتی تھی؟ میوزیم کی تو پھر کوئی افادیت اور معنویت ہو گی لیکن اس کے سامنے کنکریٹ کا جو محل کھڑا کر دیا گیا ہے اس کا کیا مقصد اور کیا اہمیت ہے۔ کیا ایک جنگل میں جسے باقاعدہ نیشنل پارک قرار دیا جا چکا ہو کنکریٹ کی اتنی بڑی عمارت اور پراجیکٹ بنا کر سینکڑوں درختوں کے قتل عام کا کوئی جواز ہے؟
رہی سہی کسر وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے پوری کر دی ہے۔ وہ شکرپڑیاں میں ایک رصد گاہ بنانا چاہ رہی ہے اور اس کام کے لیے اس جگہ کا انتخاب کیا گیا ہے جہاں بیٹھ کر ایوب خان نے کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اسلام آباد کے ماسٹر پلان کی منظوری دی تھی۔ سوال یہ کہ کابینہ اجلاس کا سائنس یا ٹیکنالوجی سے کیا تعلق تھاکہ یہاں سپیس میوزیم اور رصد گاہ بنائی جا رہی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ یہ نیشنل پارک ہے، وزارتیں ایسے منصوبے تجویز کیوں کرتی ہیں اور انہیں منظور کیسے کر لیا جاتا ہے؟
نیشنل پارک برباد ہو رہا ہے اور سب مزے میں ہیں۔ آدمی کس دیوار گریہ پر سر رکھے؟