وہی ہوا؟
وہی ہوا جس کا ڈر تھا، بین الاقوامی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس FATFنے اپنے پیرس کے حالیہ اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا ہے۔ آخری وقت پر اس سزا سے بچنے کے لیے ہماری حال ہی میں حلف اٹھانے والی نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر پیرس پہنچیں لیکن ان کی دال نہیں گلی۔ وزیر خزانہ کے لیے تو یہ افتاد سر منڈاتے ہی اولے پڑنے کے مترادف ہے کیونکہ ایف اے ٹی ایف نے فروری میں ہی پاکستان کو وارننگ دے دی تھی کہ اگر اس کی پیشگی شرائط پر عمل نہ کیا گیا تو اسے گرے لسٹ پر اور پھر بلیک لسٹ پر بھی ڈالا جا سکتا ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس 35ملکوں پر مشتمل ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو 1989ء میں قائم کیا گیا تھا جن میں خلیج تعاون کونسل کے رکن عرب ممالک اور یورپی یونین کے ممالک شامل ہیں۔ اس ادارے کا مقصد ان ملکوں میں مبینہ طور پر دہشت گردی کے لیے بھیجے جانے والی رقوم، فنڈز ٹرانسفر اور منی لانڈرنگ جیسے معاملات کی سرکوبی کرنا ہے۔ اس وقت جو ملک گرے لسٹ میں ہیں ان میں ایران، عراق، سری لنکا، شام اور یمن بھی شامل ہیں۔ اس سے پہلے 2015ء تک چند برسوں کیلئے پاکستان ایف اے ٹی ایف کی لسٹ میں شامل رہا ہے لیکن اس معاملے میں تعاون کرنے کی بنا پر نام نکال دیا گیا تھا۔ تب پاکستان نے وعدہ کیا تھا وہ ٹاسک فورس کی شرائط پر عمل کرے گا لیکن اب پھر مبینہ طور پر عدم تعاون کی بنا پر اسے لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف پاکستان سمیت حکومتوں سے تعاون چاہتا ہے کہ وہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ کو روکنے کے لیے قانون سازی کریں، ایسے لیگل فریم ورک بنائیں جن کے ذریعے غیر قانونی فنڈز اور اثاثوں کو منجمد کیا جا سکے۔ بینکوں کے درمیان مشکوک لین دین کی رپورٹنگ کا طریقہ کار اور اسی حوالے سے ایسا نظام بھی نافذ کیا جائے جس کے ذریعے غیر قانونی طریقے سے قائم کمپنیوں، ان کی ملکیت اور اثاثوں کی نشاندہی ہو سکے۔ سب سے بڑھ کر ایسا پراسکیوشن سسٹم بنایا جائے جس کے تحت جو لوگ ان جرائم میں ملوث ہوں انھیں سزا دی جا سکے۔ پاکستان میں مضبوط بینکنگ اور مالیاتی نظام موجود ہے، سٹیٹ بینک، ایف آئی اے، اینٹی نارکوٹکس فورس اور نیب کو تیز رفتاری سے ایسے قوانین بنانے چاہئیں تھے جن سے وطن عزیز FATFکے ان اقدامات سے بچ جاتا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کو قبل ازیں فروری میں ہونے والے FATFاجلاس کی گرے لسٹ سے بچنے کے لیے کم از کم تین مستقل ارکان کی حمایت کی ضرورت تھی۔ شروع میں اسے سعودی عرب، چین اورترکی کی حمایت حاصل تھی لیکن امریکہ کے دباؤ اور مستقل رکنیت کا جھانسہ ملنے کی بنا پر سعودی عرب نے پاکستان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ اس طرح فروری میں ہی فورس کے دوسرے اجلاس میں پاکستان ایف اے ٹی ایف کی دسترس میں آ گیا اب چین نے تو برملا طور پرکہہ دیا ہے کہ وہ کسی ایسی تحریک کی حمایت نہیں کرنا چاہتا جس میں اسے شکست ہو۔ اگرچہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا فروری میں کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں آنے سے ہمیں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ پاکستان کی اقتصادیات کو کوئی گزند نہیں پہنچے گی لیکن یہ کہنا خود کو طفل تسلی دینے کے مترادف تھا۔ موجودہ پابندی کی ٹائمنگ ناسازگار ہے یہ ایسے وقت میں لگی ہے جب عام انتخابات ہونے والے ہیں اور اس وقت ایسی نگران حکومت ہے جس کے پاس زیادہ اختیارات نہیں ہیں۔ لیکن اسے کیا کہئے کہ ہماری حکومتیں اور سکیورٹی پالیسی کے کارپردازان روایتی طور پر اپنی روش بدلنے کو تیار ہی نہیں۔ سابق حکومت کی اس بارے میں سہل پسندی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی چند روز قبل 20جون کو بالآخر سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (SECP)نے اینٹی منی لانڈرنگ اور کاؤنٹرنگ فنانسنگ آ ف ٹیررازم ریگولیشن کا نوٹیفکیشن جاری کیا جس کے تحت اینٹی منی لانڈرنگ کی پہلے سے موجودہ رجیم کے مقابلہ میں نئے نظام کو مزید مستحکم اور بہتر بنانے کے لیے ان ریگولیشننر میں ترامیم اور نئی شرائط متعارف کروائی گئی ہیں۔ ان ریگولیشننر میں ہائی رسک والے عوامل پر خصوصی توجہ دی گئی ہے اور تطہیرزر اور دہشت گردی کی فنانسنگ کی روک تھام کے لیے رسک بیس نظام وضع کیا گیا ہے۔ مالیاتی اداروں کو سخت ہدایت کی گئی ہے کہ مالیاتی خدمات کی فراہمی سے پہلے ایسے تمام قانونی انتظامی ڈھانچوں کی حقیقی ملکیت کی نشاندہی کریں لیکن بہت دیر کی مہرباں آتے آتے اور قانونی طور پرعملدرآمد کروانے کیلئے بھی عزم مصمم درکار ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے اب تک اس کی بدرجہ اتم کمی ہی رہی ہے۔ امریکہ کی تحریک پر اس تازہ اقدام سے یہ تو واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان اس معاملے میں یک وتنہا کھڑا ہے۔ چین اور سعودی عرب نے جن کی دوستی کا دم ہم ہر وقت بھرتے رہتے ہیں ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پاکستان اگر ایک بگڑے ہوئے بچے جیسا رویہ رکھے گا تو وہ دوست جن کے اپنے بین الاقوامی مفادات ہیں، ہمارا ساتھ نہیں دیں گے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ ہم نوشتہ دیوار پڑھنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس قسم کی پالیسیاں ماضی میں بعض اوقات سویلین حکومتوں اور سکیورٹی اداروں کے درمیان وجہ تنازع بنتی رہی ہیں۔ ہمیں صورتحال کی نزاکت کا ادراک کرنا چاہیے اور اگر اب بھی پاکستان کے کسی کونے کھدرے میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ اس قسم کے گروپ ہمارے لئے سٹرٹیجک طاقت ہیں تو یہ بہت بڑی کج فہمی ہے۔ ادھر ایک طرف پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا جا رہا ہے دوسری طرف یہ خبر بھی آئی ہے کہ بدھ کو حکومت نے اہلسنت والجماعت کے اثاثے غیر منجمدکر دیئے ہیں اور اس کے سربراہ جو دفاع پاکستان کونسل کے جوائنٹ سیکرٹری ہیں مولانا احمد لدھیانوی کی نقل وحرکت پر پابند ی اٹھا لی ہے۔ ان کا قومی شناختی کارڈ بحال کر دیا گیا ہے اور انھیں بیرون ملک سفر کی اجازت بھی مل گئی ہے۔ ایک عام تاثر یہ بھی ابھر اہے کہ الیکشن 2018ء میں مذہبی گروپوں جن میں ایم ایم اے، تحریک اللہ اکبر اور تحریک لبیک کو صرف اس لیے کھلم کھلا کھیلنے اور امیدوار کھڑے کرنے کی اجازت دی جارہی ہے کہ وہ دائیں بازو کا ووٹ کاٹیں گے جس کا نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہو گا۔ کالعدم لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ سعید کے صاحبزادے اور داماد بھی میدان میں اتر آئے ہیں اور الیکشن لڑ رہے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل اور اللہ اکبر تحریک کے بینر تلے قومی اسمبلی کی 80 اور صوبائی سطح پر 150 نشستوں سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ پاکستان کے سارے ادارے صرف اس کام پر جت گئے ہیں کہ ہر قیمت پر ایک معلق پا رلیمنٹ بنانی ہے جس میں عمران خان وزیراعظم ہوں اور شریف برادران کی ہمیشہ کے لیے چھٹی ہو جائے۔ اگر وسیع تر قومی مفاد میں دیکھا جائے تو وقت آ گیا ہے کہ ہم عملی طور پر فیصلہ کر لیں کہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیں، اس قسم کے گروپوں کے بارے میں زیروٹالرنس کی پالیسی اپنائیں یا دنیا میں یک وتنہا ہو جائیں۔