ترقیاتی فنڈز کی سیاست؟
وزیراعظم عمران خان کو غالبا ً یہ احساس ہو گیا تھا کہ ان کی جماعت کا اندرونی خلفشار بڑھتا جا رہا ہے اور خطرات اپوزیشن اور اتحادیوں کی طرف سے نہیں بلکہ اپنوں سے ہی پیدا ہو رہے تھے نیز ان کے محرکات اتنے خطرناک ہو سکتے ہیں کہ پنجاب اور بلوچستان کی حکومتیں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا جہاں تحریک انصاف کو دوتہائی اکثریت حاصل ہے بھی انتشار سے نہ بچ سکا۔ اسی بنا پر اتوار میجر سرجری کا دن ثابت ہواسب سے پہلے تو خیبر پختونخوا کے تین وزراء شہرام ترکئی، عاطف خان اور شکیل احمد کو جو وزیراعلیٰ محمود خان کے خلاف کئی روز سے علم بغاوت بلند کئے ہوئے تھے بیک جنبش قلم کابینہ سے فارغ کر دیا گیا۔ اصولی طور پر تواس صوبے میں کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن وزیر اعلیٰ محمود خان کی من مانیوں بالخصوص ان کے بھائی کے سیاسی معاملات میں کلیدی رول ادا کرنے کی بنا پر وہاں پارٹی کے اندر خاصی بے چینی پائی جاتی تھی۔ لیکن محمود خان کا کلہ مضبوط نکلا، انہیں وزیر دفاع پرویز خٹک کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ خٹک صاحب 2018ء کے انتخابات کے بعد دوبارہ وزیر اعلیٰ بننا چاہتے تھے مگر خان صاحب نے ان کی خواہش پر صاد نہیں کیا لیکن موجودہ وزیر اعلیٰ کی سفارش انہوں نے کی تھی۔
دیکھنا یہ ہے کہ اس سرجری کے بعد صوبے کے معاملات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔ صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے درست کہا ہے اگر اب بھی خاموش رہا جاتا تو گروپ بندی کی بناپر مزید مسائل پیداہو تے۔ خان صاحب کے لیے اصل مسئلہ پنجاب ہے جس کے بارے میں اب تک وہ قدرے بے نیازی سے کام لیتے رہے۔ یہ کہنا کافی نہیں کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ان کے "وسیم اکرم پلس" ہیں کیونکہ ایسے صوبے میں جہاں تحریک انصاف کی اکثریت اتحادیوں کی مرہون منت ہو اسے چلانے کے لیے وسیع تجربے، انتھک محنت اور مہارت چاہیے۔ اس حوالے سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو موخر الذکر دونوں صفات میں کمی کو دور کرنا ہو گا۔
دراصل عثمان بزدار کی تقرری محض اس لیے نہیں کی گئی تھی کہ ان کاکلّہ مضبوط ہے بلکہ ان سے زیادہ تجربہ کار اور گھاگ سیاستدان بطور وزیراعلیٰ چودھری برادران کے لیے قابل قبول نہیں تھے کیونکہ چودھری برادران اپنے علاوہ کسی اور مضبوط پنجابی لابی کو پنپنے نہیں دیتے۔ واضح رہے کہ یہ مسلم لیگ (ق) کی وہی پالیسی ہے جس کے تحت انھوں نے مشرف دور میں چاہا تھاکہ اگر پنجاب سے وزیراعظم ہوں تو وہ خود ہوں، بصورت دیگر ایسا وزیراعظم ہو جس کی اپنی کوئی مضبوط لابی نہ ہو یا کسی دوسرے صوبے سے ہو۔ اسی بنا پر انھوں نے میر ظفر اللہ جمالی کو طوہا ً وکرہا ًوزیراعظم قبول کر لیا تھا۔ جب جمالی ڈلیور نہ کر پائے تو ان کی جگہ ہمایوں اخترخان کو وزیراعظم بنانے کی تجویز کو پذیرائی ملی لیکن چودھری برادران نے اس کوشش کو انتہائی مہارت کے ساتھ سبوتاژ کر دیا اور وزارت عظمیٰ کا تاج ایک سیاسی طور پر نابلد امپورٹڈ وزیراعظم شوکت عزیز کے سر پر سج گیا۔ اب پنجاب میں بھی وہی صورتحال ہے، فرق صرف یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان ریموٹ کنٹرول کے ذریعے پنجاب کو چلانا چاہ رہے تھے جو چل نہیں پارہا۔ خان صاحب کا کہنا ہے کہ انھیں اچھی طر ح معلوم ہے سازشیں کون کررہا ہے نہ جانے ان کا اشارہ کس طرف ہے لیکن بیچارہ عثمان بزدار کیا کرے جب کئی لابیاں وزیراعلیٰ کی جگہ لینے اور اسے بلیک میل کررہی ہوں۔
جنرل ضیاء الحق کے دورمیں جب غیر جماعتی نظام نافذ کیا گیا تو ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کوترقیاتی کاموں کے نام پر بھاری فنڈز فراہم کرنے کی غیر پسندیدہ روایت ڈالی گئی جوآج تک جاری ہے۔ اب عثمان بزدار کو اپنی پارٹی کے 20 سے زائد ناراض ارکان کو مجبوراً یقین دہائی کرانا پڑی کہ انھیں فنڈز دیئے جائیں گے اور اتوار کو پارٹی کے اجلاس میں بھی یہی اعلان کردیا۔ دراصل پنجاب حکومت کی کامیابی سے ہی پی ٹی آ ئی کی آئندہ انتخابات میں کامیابی مضمر ہے لیکن جب پورے ملک میں ہی مہنگائی اور بے روزگاری کا راج ہو اس پر مستزاد گورننس بھی خراب ہو تو صوبے کا وزیر اعلیٰ کیا کرسکتا ہے۔ پنجاب میں ڈیڑھ سال کے عرصے میں چارآئی جی پولیس اور تین چیف سیکرٹری تبدیل ہو چکے ہیں۔ خان صاحب کا یہ حکم سر آنکھوں پر کہ چیف سیکرٹری اورآئی جی ارکان اسمبلی سے رابطہ رکھیں لیکن اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ اس حکومت نے بھی اپنی پیشرو حکومتوں کی طرح ہی سہی بقول خود ارکان اسمبلی کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ ترقیاتی فنڈز میں ہاتھ رنگیں اور اپنی مرضی وخوشنودی کے لیے تبادلے کرائیں۔
عثمان بزدار کے لیے ایک بڑامسئلہ یہ ہے کہ ان کے پیشرو میاں شہباز شریف نے دھڑلے سے ایک دہائی تک پنجاب پر حکومت کی، انھیں اپنی دوسری ٹرم میں اپنے برادر اول وزیراعظم میاں نواز شریف کی پوری آشیرباد حاصل تھی، قبل ازیں وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی لیکن آپس میں تال میل اچھا تھا۔ اسی بنا پر انھوں نے پنجاب میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھا دیا، وہ بیوروکریسی سے بھی ٹھونک بجا کر کام لیتے تھے، ان کے برعکس عثمان بزدار ایک کم گو اور مرنجان مرنج طبیعت کے حامل ہیں۔ خان صاحب نے لاہور میں معنی خیز بات کہی ہے کہ اگر وہ کسی اور شخصیت کو وزیراعلیٰ مقرر کر بھی دیں تو وہ بیس روز بھی نہیں چل پائے گا کیونکہ اگر کوئی تبدیلی لائی بھی جاتی ہے تو اس کے لیے اتحادیوں کی حمایت حاصل کرنا ہو گی جو موجودہ تناظر میں جوئے شیر لانے کے مترادف ہو سکتی ہے۔ چودھری برادران توغالبا ً یہی چاہیں گے کہ وہ خود وزیراعلیٰ بنیں یا ان کا ہی طوطی بولتا رہے لیکن ایک اقلیتی جماعت کا وزیراعلیٰ بنانا برسر اقتدار جماعت کے دوررس مفادکے خلاف ہو گا۔ ایک اور امیدوار علیم خان نیب زدہ ہونے کے بعد کھڈے لائن لگ چکے ہیں اور چودھری سرور بن کھلے ہی مرجھا چکے ہیں۔
خان صاحب کے دورہ لاہور کے باوجود چودھری برادران کے تحفظات جوں کے توں ہیں، اس میں ترقیاتی فنڈز اپنے علاقوں میں تبادلوں کا اختیار اور آئندہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے تحفظات بھی شامل ہیں۔ جن کا مونس الٰہی نے بھی کھل کر اظہار کیا ہے، جن کے مطابق اگر پہلے مرحلے میں ویلیج کونسل کے انتخابات کرائے گئے تو وہ اس میں حصہ نہیں لیں گے، انہوں نے کہا ہم نے مقامی حکومت کے بل کو سپورٹ ضرور کیا تھا، ان کا لوکل گورنمنٹ حکومت پرعملدرآمد کا فیصلہ احمقانہ ہے۔ خیبر پختونخوا میں مقامی حکومت پرعملدرآمد میں ڈسٹرکٹ ختم نہیں کرسکے، نئے سسٹم پر پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو پی ٹی آئی کیساتھ الیکشن لڑنا مشکل ہوگا، پنجاب اور کے پی کے کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا، دونوں صوبوں کی آبادی اوررقبے میں واضح فرق ہے، نئے بلدیاتی نظام میں ماضی کی طرح کئی نقائص ہیں، چارہزاریونین کونسل کی جگہ 24 ہزارویلج اور پنچایت کونسلزبہت زیادہ ہیں۔
جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے وزیراعلیٰ جام کمال اور سپیکر عبدالقدوس بزنجو کے مابین معاملات بظاہر طے پا گئے ہیں۔ سندھ میں خان صاحب نے کنگری ہاؤس جا کر پیرپگاڑا اور جی ڈی اے سے معاملات طے کر لئے ہیں۔ لگتا ہے ایم کیو ایم کو باقاعدہ حکمت عملی کے تحت فی الحال لٹکا دیا گیا ہے۔ ناراض عناصر کسی بھی صوبے یا جماعت سے ہوں ان کا مسئلہ ترقیاتی فنڈز، وزارتیں اور اقتدار میں حصہ داری ہی ہے۔ اسی لیے اتحادیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر موجودہ حکومت ڈلیور نہ کر پائی تواپنے ووٹروں کوکیا شکل دکھائیں گے تاہم جب تک وہ عناصر جن کی بنائے اتحاد ہی اقتدار ہو اس وقت ایک حد سے آ گے نہیں جائیں گے جب تک انھیں یقین ہو گا کہ خان صا حب کا کلّہ مضبوط ہے اوروہ کہیں نہیں جا رہے۔