سیاسی ترجیحات!
اس الزام کے باوجود کہ ملک میں کنٹرولڈ جمہوریت ہے سیاسی ہلہ گلہ زوروں پر ہے۔ میاں نواز شریف کو علاج کی خاطر عدالت عظمیٰ نے چھ ہفتوں کے لیے ضمانت پر رہا کردیا ہے۔ دوسری طرف بلاول بھٹو کا کراچی سے لاڑکانہ تک ٹرین مارچ حاضری اور جوش وخروش کے لحاظ سے کامیاب رہا ہے۔ میاں نوازشریف کی ضمانت کے ساتھ ساتھ لاہور ہائیکورٹ نے میاں شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کا حکم دے دیا اور عدالت عالیہ نے بڑ ے پتے کے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا محض الزام کی بنیاد پر کسی کی آزادی سلب کی جا سکتی ہے؟ ۔ وزیراعظم عمران خان نواز شریف کی صحت کے لیے دعاگو ہیں جبکہ حکومت شہبازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رہی ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ نواز شریف اب شریف میڈیکل سٹی میں اپنا علاج کرا رہے ہیں اور وہ عملی سیاست سے قر یبا ً باہر ہیں۔ صاحبزادی مریم نوازاور ایک زمانے میں والد کی متوقع جانشین اپنی والدہ کے انتقال کے بعد مہر بلب ہیں۔ شہباز شریف کا معاملہ مختلف ہے، لاہور ہائیکورٹ نے انہیں نیب کے آشیانہ اور رمضان شوگر ملز مقدمات میں اس بنیاد پر ضمانت پر رہا کیا تھا کہ ان میں کوئی جان نہیں ہے۔ شہباز شریف قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی ہیں۔ شاید تحریک انصاف والوں کا یہ تاثر ہے کہ شہبازشریف ان کے لیے بدستور سیاسی چیلنج ہیں اور ان کا اسٹیبلشمنٹ سے بھی اچھا تال میل ہے۔ جب گزشتہ برس جولائی میں میاں نواز شریف سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل قرار دیئے جانے کے بعد جی ٹی روڈ کے ذریعے اسلام آباد سے لاہور آ رہے تھے وہ انتہائی جارحانہ اور اسٹیبلشمنٹ مخالف موڈ میں تھے جبکہ شہبازشریف اور چودھری نثار (جو اب مسلم لیگ (ن) سے عملی طور پر باہر ہیں ) کا استدلال یہی تھا کہ میاں صاحب ٹھنڈی کرکے کھائیں اور موٹروے کے ذریعے لاہور پہنچیں اور جاتی امرا میں آرام کریں۔ لیکن میاں صاحب اور ان کے عقابی مشیروں جن میں بعض صحافی بھی شامل تھے یہ نعرہ مستانہ لگا رہے تھے کہ ’چڑھ جا بیٹا سو لی رام بھلی کرے گا، نے انھیں کافی نقصان پہنچایا۔ بعداز خرابی بسیار میاں نواز شریف اور ان کی شعلہ نوا صاحبزادی کو احساس ہوگیا کہ ان کی لائن پٹ گئی ہے۔ عمران خان جب عام انتخابات میں معمولی اکثر یت حاصل ہونے اور موافق حلقوں کی حمایت ہونے کے با عث وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے تو اس کے بعد اکا دکا بیانات کے سوا میاں نوازشریف نے سیاسی بیانات دینے سے گریز ہی کیا۔ میں جب ان کی اہلیہ کلثوم نواز کے انتقال کے قر یبا ًڈیڑھ ماہ بعد ان سے ملنے گیا تو انھوں نے کہا فی الحال تو اہلیہ کے انتقال کی بنا پر میری ذہنی کیفیت ایسی نہیں کہ میں سیاست پر گفتگو کروں، یہی استدلال ان کی صاحبزادی کا تھا اور اب تک یہی صورتحال چلی آ رہی ہے۔ شہبازشریف نپے تلے الفا ظ میں اپوزیشن کر رہے ہیں، انھوں نے منی بجٹ پر بحث کے آغاز میں عمران خان کی موجودگی میں انہیں سلیکٹڈ پرائم منسٹر کہہ کر ناراض کردیا لیکن وہ فوجی قیادت کے بارے میں اشارے کنایوں میں بھی کوئی ذکر نہیں کرتے۔ بلاول بھٹو کے ٹرین مارچ سے بھی خاصی سیاسی ہلچل پیدا ہوئی۔ ’کاروان بھٹو، کا بھرپور استقبال ہوا اور بلاول بھٹو اپنے والد کے برعکس حکومت اور بلاواسطہ طور پر فوجی قیادت کو لتاڑتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاستدانوں کے لیے احتسا ب، انتقام اور جیلیں جبکہ کالعدم تنظیموں کے لیے این آ ر او کا قانون قابل قبول نہیں ہے۔ انھوں نے راولپنڈی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ شہر بھٹوز کے لیے ہمیشہ کربلا بنا دیا گیا، ڈرنے والا نہیں، ہر قربانی دینے کو تیار ہوں، 6 ووٹ کی حکومت زیادہ دیر نہیں چلے گی، بھٹو کے نام سے وزرا جل جاتے اور وزیراعظم کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ مختلف ریلوے سٹیشنز پر ان کے خطاب سے یہ بات واضح ہوئی کہ وہ واقعی ایک بھٹو کی طرح brinkmanship کر رہے ہیں اور یقینا اپنی والدہ کی طرح ان میں بھی ایک بھٹو کا خون دوڑ رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ ان کے والد آصف زرداری خود کو جعلی اکاؤنٹس اور مختلف کیسز میں اپنے آپ کو جیل سے بچانے کے لیے کر وا رہے ہیں۔ شاید یہ بات جزوی طور پر درست بھی ہو لیکن بلاول بھٹو فطری طور پر فرنٹ فٹ پر کھیل رہے ہیں۔ یہ پیپلزپارٹی کی تاریخ میں پہلا موقع نہیں ہے کہ سیاست کرنے کے لیے ٹرین کا سہارا لیا گیا ہو۔ جب بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان تاشقند پر احتجاج کے طور پر اپنے مربی فیلڈ مارشل ایوب خان کی کابینہ سے استعفیٰ دے کر خیرباد کہا تو وہ انتہائی جارحانہ موڈ میں غا لباً جون 1966ء میں تیزگام کے ذریعے راولپنڈی سے کراچی روانہ ہوئے تو راستے میں ہر سٹیشن پر بھٹو کا والہانہ استقبال ہوا۔ میں اس وقت طالب علم اور لاہور سٹیشن پر موجود تھا۔ جب ان کی ٹر ین رکی تو وہاں تل دھر نے کی جگہ نہیں تھی اور ایوب خان کی آمریت سے اکتائے ہوئے عوام بھرپور نعرے بازی کر رہے تھے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے شعلہ نوا خطاب نے انھیں اور بھی گرما دیا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے 30نومبر 1967ء کو ڈاکٹر مبشر حسن کی گلبرگ میں واقع اقامت گاہ پر ایک نسبتاً چھوٹے اجتماع میں رکھی تھی لیکن ڈیڑھ برس قبل ہی جب ذوالفقار علی بھٹو کی ٹرین کراچی پہنچی تو وہ ایوب خان کی آمریت کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکے تھے۔ ایوب خان کی آمریت کی سیاسی طاقت اسی ہزار بی ڈی ممبرز تھے، وہ ایک دھاندلی زدہ عام انتخابات جن میں محترمہ فاطمہ جناح کو جھرلو کے ذریعے ہرا کر صدر بنے تھے۔ ملک میں اپوزیشن نہ ہونے کے برابر تھی اور اس لحاظ سے ذوالفقار علی بھٹو ہوا کا تازہ جھونکا تھے۔ آج صورتحال یکسر مختلف ہے، تمام تر شکایات کے باوجود آزادانہ سیاسی سرگرمیاں کرنے اور بیانات دینے پر کوئی پابندی نہیں۔ اس الزام کے باوجود کہ سیاسی انجینئرنگ کی جا رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتیں فعال اور سرگرم ہیں اور ملک میں کوئی سیاسی خلا نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پیپلزپارٹی جس نے پورے ملک میں عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان دینے اور اسلامی سوشلزم کے نام پر مقبولیت حاصل کی اور اس وقت مغربی پاکستان میں واحد اکثریتی جماعت بن کر ابھری اب سندھ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ برخوردار بلاول کے لیے پا رٹی کا احیا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ٹرین مارچ کے بعد لانگ مارچ ہوگا۔ اسمبلیوں سے باہر جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ایسا کرنے کے لیے بے تاب ہیں لیکن امکان غالب ہے کہ اسمبلی اور سینیٹ میں اچھا تال میل ہونے کے باوجود اس معاملے میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا فی الحال سڑکوں پر آنے کے حوالے سے ایک صفحے پر آنا مشکل نظر آتا ہے۔ سیاست میں حرف آخر نہیں ہوتا لیکن تاحا ل یہی نظر آرہا ہے کہ شریف برادران کی سیاسی ترجیحات پیپلزپارٹی سے مختلف ہیں، وہ ابھی ٹھنڈی کرکے ہی کھائیں گے۔