سیاسی درجہ حرارت
13 مئی کو قومی اسمبلی میں "معجزہ " ہو گیا، شور شرابے، ہلے گلے اور نعرے بازی کے بغیر ہی قبائلی علاقوں کو قومی اسمبلی اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں بہتر نمائندگی دینے کابل متفقہ طور پر منظور ہو گیا اور 282 ارکان نے اسے منظور کیا، اس بل کے منظور ہونے کے بعد قبائلی اضلاع میں قومی اسمبلی کی 12 اور صوبائی کی 24 نشستیں ہوگئی ہیں۔ الیکشن کمیشن 6 مئی کو قبائلی علاقوں کی 16 صوبائی نشستوں کے لئے انتخابات کا شیڈول جاری کر چکا ہے، جس کے مطابق انتخابات 2 جولائی کو ہوں گے۔ بل کی منظوری کے موقع پر عمران خان نے قومی اسمبلی میں قدم رنجا فرمائے اور اس سے بڑی خبر یہ تھی کی اپوزیشن ارکان نے بغیر کسی مداخلت کے انھیں صبر سے سنا، اب یہ بل سینیٹ کو بھیج دیا گیا ہے۔ خان صاحب کے ساتھ ساتھ ان کی کابینہ کے ارکان بھی اسمبلی میں حاضر تھے۔ کاش دیگر معاملات میں بھی اس قسم کے اتفاق رائے اور ہم آہنگی سے کام کیا جائے تو وطن عزیز میں جمہوریت مضبوط ہو گی۔ اب تک تو خان صاحب یہی کہتے رہے ہیں کہ چور اور اچکے’ جمہوریت خطرے میں ہے، کی گردان کر کے اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کا سب سے قابل غور پہلو یہ ہے کہ اسے محسن داوڑ نے پیش کیا جن کا تعلق سابق فاٹا اور آ ج کل غدار سمجھی جانی والی پختون تحفظ موومنٹ سے ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ ایک پرائیویٹ ممبرکے بل کوآئینی ترمیم کے طور پر قبول کر لیا گیا۔ اس بل کی منظوری کے کئی علامتی پہلو ہیں۔ اس میں حکومت، اپوزیشن اور دیگر اداروں کے لیے بھی بنیادی سبق مضمر ہے۔ مثال کے طور پر چھوٹے صوبوں اور سابق قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے اور اپنے حقوق کی آواز اٹھانے والے بلوچوں، پٹھانوں اور سندھیوں کو غدار اور دشمن کا ایجنٹ قرار دینے کے بجائے انھیں قومی دھارے میں لانے کا طریقہ مذاکرات اور پارلیمنٹ ہی ہے۔ حال ہی میں پی ٹی ایم کے رہنماؤں پر یہ دو ٹوک الزام عائد کیا گیا تھا کہ ان کے تانے بانے بھارت سے ملتے ہیں لیکن کیا اب محسن داوڑ کا یہ بل پیش کرنے کا اقدام بھارتی ایجنٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ ہمیں غداری کی فیکٹریاں بند کر کے مذاکرات، رواداری اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے رویئے اپنانے چاہئیں۔ اس ضمن میں حکمران جماعت اور بالخصوص اس کے سربراہ عمران خان کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے درست سمت کی طرف قدم اٹھایا۔ وہ ریکارڈ پر ہیں کہ انہوں نے وزیرستان میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا پی ٹی ایم کی بات ٹھیک ہے لیکن ان کا طریقہ کار غلط ہے، شاید ان کا اشارہ یہی تھا کہ پارلیمنٹ ہی بہتر فورم ہے۔ ماضی کے فوجی طالع آزماؤں اور غلام اسحق خان جیسے ان کے ایجنٹوں نے پارلیمنٹ کو جوتے کی نوک پر رکھا۔ کئی پارلیمینٹس ان کے ہاتھوں فروعی اور بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر گھر بھیج دیں گئیں۔ ایک منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوکا تو جوڈیشل مرڈرکر کے قبر میں بھیج دیا گیا۔ حتیٰ کہ ضیاء الحق نے اپنی ہی اختراع کے غیر جماعتی انتخابات سے منتخب ہونے والے وزیراعظم محمد خان جونیجو کوگھر بھیج دیا۔ آئین کے آرٹیکل 58ٹو۔ بی کے تحت صدر ہی سب کچھ تھا اور وہ وزیراعظم کوگھر بھیج سکتا تھا۔ اس آرٹیکل کے ختم ہونے کے بعد بھی جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں میاں نوازشریف کا تختہ الٹ دیا تھا۔ مقام شکر ہے کہ اب پارلیمنٹ بظاہر آزاد ہے، کوئی صدر اسے برطرف نہیں کر رہا اور فوج بھی باقاعدہ ٹیک اوور کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ اس کے باوجود کہ 2014ء میں تحریک انصاف کے دھرنے کے موقع پر آصف زرداری نے بطور اپوزیشن میاں نوازشریف کا ساتھ دے کر ان کی حکومت بچائی اور تیسرے امپائر نے بھی بقول خان صاحب انگلی کھڑی نہیں کی اور اس طرح جمہوریت بچ گئی لیکن آج کے تناظر میں سیاستدان پارلیمنٹ کو اس طرح مضبوط نہیں کر رہے جیسا انھیں کرنا چاہیے۔ میاں نوازشریف تو پارلیمنٹ کا چکر لگانا ہی گوارا نہیں کرتے تھے، خان صاحب کا رویہ بھی قریبا یہی ہے۔ موجودہ دور میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ پارلیمنٹ مچھلی منڈی کا منظر پیش کرتی ہے، جہاں ایک دوسرے کی آواز کو ہلڑ بازی کے ذریعے دبایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے بڑی سٹیک ہولڈر حکمران جماعت ہے۔ مضبوط پارلیمنٹ اور اس کے نتیجے میں مستحکم جمہوریت ہی ان کی انشورنس پالیسی ہے۔ اسی بنا پر ضروری ہے کہ قوم کو درپیش بنیادی مسا ئل پر پارلیمنٹ میں ہی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ نیب کے بیسیوں کیسوں میں الجھے ہوئے سابق صدر آصف زرداری نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مترادف اعلان کر دیا ہے کہ پیپلزپارٹی عیدکے بعد حکومت کے خلاف سڑکوں پر تحریک چلائے گی۔ کوٹ لکھپت جیل میں دوبارہ پابند سلاسل میاں نوازشریف نے بھی مہر سکوت توڑتے ہوئے اپنی لیڈر شپ کو ہدایت کر دی ہے کہ عید کے بعد سڑکوں پر آنے کی تیاریاں کریں لیکن پی ٹی آئی کی ترجمانی کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی اور مراد سعید چیلنج قبول کرنے کا اعلان کر رہے ہیں حالانکہ حکومت کو نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے اپوزیشن کو انگیج کرنے کی سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئیں۔ اس وقت آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج پر اتفاق رائے کے تناظر میں گھمبیر اقتصادی صورتحال ایک بنیادی مسئلہ ہے جس سے ہر پاکستانی متاثر ہو رہا ہے۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے 92 نیوز پر میرے پروگرام ’ہو کیا رہا ہے، میں بات چیت کے دوران تجویز دی تھی کہ چارٹر آف اکانومی ہونا چاہیے تاکہ بنیادی معاملات پر اتفاق رائے ہو سکے۔ اس ضمن میں اپوزیشن لیڈرشہبازشریف پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اکانومی کے معاملات پر حکومت سے تعاون کرنے کو تیار ہیں لیکن اس میں پیش رفت کی ذمہ داری حکمران جماعت پر ہی عائد ہوتی ہے لیکن اب تو یہ کام مشکل نظر آتا ہے۔ دہشت گردی کا زخمی سانپ پھر پھنکارنے لگا ہے۔ حال ہی میں قریباً دو برس بعد داتا دربار کے باہر دہشت گردی کی بزدلانہ واردات میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 14 افراد شہید ہو گئے۔ اس کے چار روز بعد گوادر میں فائیو سٹار ہوٹل پر دہشت گردوں کا انتہائی خوفناک وار تھا جس کا نشانہ چینی شہری تھے۔ سکیورٹی ایجنسیوں کی مستعدی سے نسبتاً کم نقصان ہوا لیکن اس کے تیسرے روز کوئٹہ میں ایک اور دھماکہ ہو گیا جس کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کر لی۔ اس حوالے سے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر ہوں اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرانے کے لیے اپوزیشن اپنا رول ادا کرے۔ اپوزیشن، بیوروکریسی اور کاروباری طبقے کے لیے نیب کی کارروائیاں بہت بڑا مسئلہ ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نیب کے قانون کو صاف شفاف، بے لاگ اور بلا امتیاز احتساب کے لیے مذاکرات بھی ہوئے ہیں انھیں جلد پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے۔ لیکن یہ سب کچھ اس وقت ہو سکتا ہے جب اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تال میل بڑھے اورسیاسی ٹمپریچر کم کیا جائے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی سطح تاریخی طور پر گر چکی ہے۔ اقتصادیات کا حال پتلا ہے لیکن حکمران نوشتہ دیوار پڑھنے سے بالکل عاری یا انکاری ہیں۔