سیاسی دباؤ اور بیوروکریسی!
آئی جی پنجاب پولیس محمد طاہر خان جو موجودہ حکومت کے ہی مقرر کردہ تھے اچانک صرف ایک ماہ دو دن کی تعیناتی کے بعد فارغ کر دیئے گئے۔ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ کس جرم کی پاداش میں انھیں گھر بھیجا گیا ہے۔ اس سے پہلے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے کا معاملہ سپریم کورٹ تک گیا اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو غیر مشروط معافی مانگ کر اپنی جان خلاصی کرانا پڑی اور مانیکا فیملی کے ذاتی دوست احسن گجر جو اس معاملے کے سرکردہ کردار تھے ان کی بھی جان بخشی ہو گئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس ڈرامے کے محور سابق ڈی پی او رضوان گوندل ہنوز او ایس ڈی ہیں انھیں کیونکر بحال نہیں کیا گیا؟ ۔ آئی جی پنجاب کی اچانک تبدیلی کے حوالے سے طرح طرح کی چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔ وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری کا فرمانا ہے کہ انھیں اس لئے تبدیل کرنا پڑا کہ وہ حکومتی احکامات کی بجا آوری نہیں کر رہے تھے اور کچھ محکمانہ معاملات میں بھی حکومت کا ان سے اختلافات تھا۔ ایک بات تو یہ کہی جا رہی ہے کہ آئی جی کو اس لیے تبدیل کیا گیا کہ پنجاب سے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کو یہ گلہ تھا کہ ان کے اضلاع میں ان کی مرضی کے ڈی پی اوز نہیں لگائے جا رہے۔ مزید برآں ماڈل ٹاؤن کیس میں جے آئی ٹی نے جن پولیس افسروں کو کلین چٹ دے دی تھی صوبائی حکومت کا اصرار تھا کہ انھیں معطل کر دیا جائے لیکن آئی جی پولیس نے صاف انکار کردیا تھا۔ اس بات کی تصدیق کہ سیاسی وجہ تسمیہ بھی بنی خود خان صاحب کے معاون خصوصی افتخار درانی نے میرے پروگرام میں کر دی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے محمد طاہر خان نے تحریک انصاف کے رہنما محمودالرشید کے صاحبزادے کے معاملے میں بھی حکومتی رکن اسمبلی کی مدد نہیں کی۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ شہباز شریف کی نیب عدالتی میں پیشی کے روز ہونے والی ہنگامہ آرائی کے بعد صوبائی حکومت کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس نے آئی جی کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ الیکشن کمیشن نے بجا طور پر ضمنی انتخابات کے انعقاد تک آئی جی پنجاب کا تبادلہ روک دیا ہے لیکن حکومتی زعما کا دعویٰ ہے کہ الیکشن کمیشن کو ایسا کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا۔ اس طرح ایک بحرانی صورتحال پیداہو چکی ہے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم او ر وزیراعلیٰ پنجاب کو عوامی نمائندوں کی طرف سے سیاسی دباؤ ڈالنے کے خلاف خطوط لکھنے والے ڈپٹی کمشنرز کو شوکاز نوٹس جاری کئے گئے۔ حکومت پنجاب کے ترجمان کے مطابق ڈپٹی کمشنر راجن پور اور ڈپٹی کمشنر چکوال کو چین آف کمانڈ کی خلاف ورزی پر نوٹس جاری کئے گئے۔ جبکہ وہ ارکان اسمبلی جنہوں نے مذکورہ افسروں پر سیاسی دباؤڈالا تھا ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ واضح رہے کہ ڈی سی چکوال نے وزیراعظم کے نام خط لکھا تھا جس میں انہوں نے تحریک انصاف کے ایم این اے سردار ذوالفقار علی خان دلہ پر سیاسی دباؤ کا الزام عائد کیا تھا۔ ڈی سی راجن پور نے وزیراعلیٰ پنجاب کے نام خط میں تحریک انصاف کے رکن اسمبلی سردار نصراللہ دریشک پر سیاسی دباؤ ڈالنے کا الزام لگایا تھا۔ ان واقعات سے یہ بات پوری طرح واضح ہوتی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے یہ دعوے کہ بیوروکر یسی بلاخوف وخطر اپنے فرائض منصبی سیاسی مداخلت کے بغیرسرانجام دے، زمینی حقائق سے لگا نہیں کھا تے۔ وزیراعظم اقتدار میں آنے کے بعد یہی کہتے رہے کہ پنجاب میں پولیس اور بیوروکریسی کو کے پی کے کی طرح سیاسی دباؤ سے آزاد کراؤں گا لیکن اب الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ فواد چودھری کی بیوروکریسی اور پولیس کیلئے دوٹوک وارننگ ہے کہ اگر کام کرنا ہے تو حکمران جماعت کے ایم این ایز اور ایم پی اے ایزکے رہو ورنہ چھٹی کرو۔ اعلیٰ افسر اگر حکومتی اقدامات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں تو ایسے سرکاری قواعدوضوابط موجود ہیں جن کے تحت ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے لیکن پی ٹی آئی کی حکومت خود کوقانون قاعدے اور آئین سے بالاترتصور کر رہی ہے۔ جہاں تک پولیس اور بیوروکر یسی کو سیاسی اثر ونفوذ سے پاک رکھنے کا تعلق ہے، ویسے بھی یہ کوئی آسان کام نہیں ہے، پنجاب پولیس کا تاریخی طور پر بیڑا غرق ہی اسی بنا پر ہوا ہے کہ ہرایم این اے اور ایم پی اے اپنے علاقے میں اپنی مرضی کے افسرلگوانا چاہتا ہے۔ ان اقدامات سے واضح طور پر بیوروکریسی اور پولیس کوپیغام جاتا ہے کہ اگر آپ نے نوکری کرنی یا ترقی پانی ہے تو ہرحکم کے سامنے کو رنش بجالائیں۔ اس معاملے کا عدالت عظمیٰ کو بھی نوٹس لینا چاہیے کیونکہ انیتا تراب کیس جس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کسی سرکاری ملازم کو بغیر کسی معقول وجہ کے عہدے سے ہٹایا نہیں جاسکتا کی بنیاد پرہائیکورٹ نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کا تبادلہ روک دیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کو نوٹس لینا چاہیے بصورت دیگر بیوروکریسی اور سیاستدانوں کے مابین تاریخی گٹھ جوڑ جو ہمارے جسد سیاست کا حصہ ہے قائم رہے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے سندھ پولیس کے پچھلے آئی جی اے ڈی خواجہ کا تبادلہ کیا تو خان صاحب سراپا احتجاج بن گئے تھے لیکن اب انہوں نے اپنا موقف یکسر بدل لیا ہے۔ اب مصیبت یہ ہے کہ موجودہ قومی وصوبائی اسمبلیاں معلق ہیں۔ وفاق اور پنجاب میں حکومتیں ادھر ادھر سے جوڑ کر بنائی گئی ہیں۔ اگر عمران خان اپنے عوامی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈز بھی نہ دیں اور ان کی مرضی کے پولیس افسر، پٹواری نہ لگائیں تو ان کے لیے حکومت چلانا مشکل ہو جائے گا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو نیا پاکستان پرانے پاکستان سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ یقیناً تحریک انصاف کے چیئرمین اور وزیراعظم عمران خان کے ارادے نیک ہیں اور انھوں نے مرض کی تشخیص بھی صحیح کی تھی، شاید وہ واقعی چاہتے ہوں کہ اس کلچر کو تبدیل کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے لیکن زمینی حقائق بری طرح ان کے راستے میں آڑے آ رہے ہیں۔ چیئرمین پولیس ریفارمز کمیشن ناصر درانی جو موجودہ حکومت کے تعینات کردہ ہیں کا اس صورتحال پر احتجاجاً استعفیٰ کو ئی نیک شگون نہیں ہے۔ عمران خان پانچ سال تک کے پی کے پولیس کو سیاسی اثرونفوذ سے بقول ان کے پاک ہونے اور اس کی اہلیت کی مالا جپتے رہے لیکن غالباً ان کو یہ احساس ہوتا جا رہا ہے کہ وفاق میں حکومت کرنا اور پنجاب میں حکمرانی مختلف عمل ہے۔ عمران خان خود آئیڈیلسٹ شخصیت ہیں جو ایک طرف تو سیاسی اداروں کو مضبوط کرنے اور ان کوفروغ دینے کے زبردست حامی ہیں لیکن دوسری طرف وہ زمینی حقائق کے مطابق حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اپنے سیاسی فیصلے بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے۔ 2013ء کے انتخابات سے قبل جب تحریک انصاف سٹریٹ اپوزیشن میں تھی بہت شہرہ ہواکہ پی ٹی آئی موروثی سیاست کی قائل نہیں ہے اور جمہوریت کی دعویدار ہونے کے ناتے اپنی پارٹی میں بھی بڑے طمطراق سے انتخابات کروانے کے لیے پہلے سینئر رہنما جسٹس (ر) وجیہ الدین کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا۔ لیکن انھوں نے اپنے عہدے کو کچھ زیادہ ہی سنجیدگی سے لے لیا اور پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کومصیبت پڑ گئی کہ اپنی مرضی کے عہدیدار کس طرح بنائیں لہٰذا اس پر اسس میں مداخلت کے نتیجے میں جسٹس وجیہ الدین احتجاجاً مستعفی ہو گئے اوران کے بعد آنے والے الیکشن کمیشن سابق سینئربیوروکریٹ تسنیم درانی کا بھی یہی حشر ہوا۔ اکثر سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کے بعد اپنے منشور کو پس پشت ڈال دیتی ہیں۔ خان صاحب اگر واقعی صدق دل سے نیا پاکستان بنانے کے خواہشمند ہیں اور یہ محض الیکشن سٹنٹ نہیں تھا تو انہیں استقامت سے اپنے سابق دعوؤں کے مطابق حکمرانی کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے خواہ وقتی طور پر اس کا کتنا بھی نقصان ہو۔ صرف اسی طرح ملک کی بیوروکریسی، پولیس اور دیگر تباہ شدہ اداروں کی ساکھ بحال ہو سکتی ہے۔