سیاست میں آنے کے مقاصد یاد رکھیں
حسب توقع عمران خان نے الیکشن 2018ء کا میدان مار لیا ہے، اب نئے پاکستان کی صدا ملک کے طول و عرض میں گونج رہی ہے لیکن تحریک انصا ف کے سوا قریباًتمام جماعتیں انتخابات کی شفافیت پر اعتراض کر رہی ہیں۔ اس ضمن میں وفاق اور پنجاب میں پانچ سال برسر اقتدار رہنے والی جماعت مسلم لیگ(ن) آگے آگے ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے سید مشاہد حسین، مریم اورنگزیب اور مصدق ملک کے ہمراہ رات گئے ہنگامی پریس کانفرنس میں انتخابات کے نتائج کو مسترد کر دیا تھا۔ اسی طرح ایم ایم اے کے سربراہ مولانافضل الرحمن، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان، پی ایس پی نے بھی یہی بات دہرائی۔ شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ وہ اس حوالے سے قانونی رابطے بھی کریں گے۔ ویسے تو ہم ان کالمز میں یہ کہتے رہے ہیں کہ’ پری الیکشن پولیٹیکل انجینئرنگ، کی جا رہی ہے لیکن مابعد انتخابات نتائج کومتنازعہ بنانا کوئی اچھی حکمت عملی نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے دور کی پیپلز پارٹی کے بعد پہلی بارتحریک انصاف ملک گیر جماعت کے طور پر ابھری ہے، ان انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ(ن) پنجاب تک محدود نظر آتی ہے جبکہ پیپلزپارٹی نے پہلے سے بہتر نتائج حاصل کیے لیکن اس کے باوجود سند ھ تک محدود ہے۔ اس کے برعکس عمران خان کی جماعت تحریک انصاف وفاق، خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ اور کسی حد تک بلوچستان میں فعال سیاسی جما عت کے طور پر ابھری ہے۔ خیبر پختونخوا میں ماضی میں شاید ہی کسی پارٹی کو مسلسل دوسری ٹرم کیلئے منتخب کیا گیا لیکن تحریک انصاف کو پہلے سے بھی زیادہ کامیابی ملی۔ یہ کہنا کہ عمران خان محض اسٹیبلشمنٹ کے ٹیسٹ ٹیوب بے بی ہیں، ان کے مینڈیٹ اور خود ان کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ پاکستان کے عوام نے آزادانہ طور پران پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا اور واضح کردیا کہ وہ ’سٹیٹس کو، کے حق میں نہیں بلکہ تبدیلی چاہتے ہیں۔ یہ امر باعث طمانیت ہے کہ خواتین اور نوجوانوں نے جس انداز میں انتخابی مہم میں حصہ لیا اور ووٹ ڈالے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ملک کے بعض حلقوں میں جہاں خواتین گھرسے باہر نہیں نکلتی تھیں انہوں نے بھی اس مرتبہ انتخابات میں بھرپور حصہ لیا۔ عام انتخابات میں ’مین سٹریم، کو جواز بنا کر بعض ان مذہبی جماعتوں نے بھی حصہ لیا جن پر اقوام متحدہ نے پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ اب یہ واضح نہیں کہ قومی اسمبلی کی ایک نشست بھی حاصل نہ کرنے کے بعد بھی نتائج کو تسلیم کر لیں گی؟ ۔ خان صاحب اپنی ہٹ کے پکے نکلے۔ 30اکتوبر 2011ء کو جب انھوں نے لاہور میں بہت بڑا جلسہ عام کر کے تحریک انصاف کا احیا کیا تب سے لے کر آج تک شریف برادران اور ان کی سیاسی آؤٹ فٹ کے خلاف لٹھ لے کرعزم مصمم کے ساتھ جدوجہد کرتے رہے اوربالآ خر کامیابی سے ہمکنار ہو گئے۔ کرپشن کے خلاف جہاد ہی ان کا منترارہا اور2016ء میں ’پاناما لیکس، میں نواز شریف کی خفیہ دولت کا منظر عام پر آنا خان صاحب کے بیانیے کے لیے باعث تقویت ثابت ہوا۔ امکان غالب ہے کہ عمران خان وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوامیں حکومت بنالیں گے لیکن پاکستان جیسے ملک میں حکومت کرنا پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ وطن عزیز گونا گوں مسائل کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ اقتصادی طور پر ہم دیوالیہ ہو چکے ہیں، قومی خزانہ خالی ہے، درآمدات اوربر آمدات میں فرق ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکا ہے۔ چند ماہ میں روپیہ 90 سے گرتے گرتے 130رو پے فی ڈالر تک جا پہنچا۔ غیر ملکی قرضوں کا بوجھ کمر توڑ رہا ہے۔ سر کلر ڈیٹ بھی آسمان سے باتیں کر رہا ہے، پاکستان کی اپنے قرضے ادا کرنے کی صلاحیت کھونے کی بنا پر مبینہ طور پر ’سی پیک، کے منصوبوں میں چین کی دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے۔ دوسر ی طرف جیسا کہ اس انتخابی مہم کے دوران اور پولنگ کے روز بھی ثابت ہو اکہ دہشت گردی کا اژدھااب بھی پھن پھیلائے کھڑا ہے، یہ دعوے کہ ہم نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے نقش برآب ثابت ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے عمران خان کے پاس اچھی ٹیم توموجود ہے لیکن اس سے نبردآزما ہو نے کے لیے انھیں خاصی عرق ریزی کرنی پڑے گی۔ خان صاحب نے بطور متوقع وزیر اعظم اپنے پہلے خطاب میں اقتصادی بحران کا تفصیل سے ذکر کیا ہے، یقیناً انہیں یہ احساس ہے کہ ملک شدید قسم کے اقتصادی بحران کا شکار ہے۔ انتخابی مہم کے دوران وہ کرپشن کے خلاف جہاد کا نعرہ لگاتے رہے نیز یہ کہ ہمیں ’جہادیوں، سے مذاکرات کرنے چاہئیں، بین الاقوامی میڈیا میں ’سیاسی انجینئرنگ، کے حوالے سے منفی تجزیوں کی روشنی میں انھوں نے حال ہی میں نیا نعرہ بلند کیا کہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ ان کے خلاف اور نواز شریف کے ساتھ ہے، شایدان کی بات میں تھوڑا وزن بھی ہو لیکن عملی طور پرپاکستان نام نہاد انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ اور باقی دنیا سے کٹ کر نہیں رہ سکتا۔ آئی ایم ایف کے پاس جائے بغیرکوئی اور چارہ کار نظر نہیں آتا۔ اکثر اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ آئی ایم ایف کڑی شرائط عائد کرے گا۔ اس حوالے سے نئی حکومت کو انتہائی پیچیدہ مذاکرات کرناپڑیں گے۔ اگر نئی حکومت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے تو اس کے بھی دوررس محرکات ہونگے جس سے نبٹنا آسان نہیں ہو گا۔ عمران خان اور ان کے حواری خیبر پختونخوا میں گڈ گورننس کی اکثر بات کرتے رہتے ہیں۔ اب اصل امتحان وفاقی سطح پر گڈگورننس کاہو گا جس کا ماضی قریب میں فقدان رہا ہے۔ میاں نواز شریف کاطرہ امتیاز ایک مخصوص ٹولے کے ذریعے حکومت چلانا تھا۔ اپوزیشن تو کجا کا بینہ اور پارٹی کے اندر بھی جوابدہی کو توہین سمجھا جاتا تھا۔ وہ قومی اسمبلی میں بھی شاذہی آتے تھے۔ اسمبلی میں نہ آنا خان صاحب کی بھی روایت رہی ہے۔ اس ضمن میں یہ جواز پیش کرتے تھے کہ یہ اسمبلی دھاندلی کی پیداوار ہے لہٰذا اس میں نہیں آتے تھے۔ یقینااب وہ یہ جواز پیش نہیں کر سکتے، انھیں ایک ایسا طرز حکومت اپنانا پڑے گا جس کی بنیاد محض چند سیاسی پیارے اور سپر بیورو کریٹ نہ ہوں بلکہ نمبر داری کے ساتھ ذمہ داری کے ساتھ کام کرنا ہو گا، اسی صورت میں یہ کہا جا سکے گا کہ واقعی کوئی تبدیلی آئی ہے۔ خان صاحب نے اپنے خطاب میں قائد کے پاکستان میں غریب آدمی بندہ مزدور کے تلخ اوقات کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس صورتحال کو بدلنا ہو گا۔ اس معاملے میں نواز لیگ تو یکسر ناکام رہی۔ جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے، اسے ختم کر نا توخان صاحب کا نعرہ مستانہ ہے۔ لیکن احتساب سب کے لیے برابر ہونا چاہیے جس میں خود تحریک انصا ف کے ارکان بھی شامل ہوں اور اس سے انتقامی کا رروائی کی بو نہ آئے۔ بہتر تو یہ ہو گا کہ وہ احتساب کانظام جس پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشر یف کے درمیان چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط ہونے کے وقت بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا جو آج تک نہیں بن سکا، اب اپوزیشن کی مدد سے ایسا ادارہ تشکیل دے دینا چاہیے۔ مسلم لیگ(ن) کی ایک بہت بڑی کمزوری سوشل سیکٹر، تعلیم، صحت اور صاف پانی کی فراہمی کو یکسر نظر انداز کرنا تھا۔ سارا قرضہ اور سرمایہ پلوں، سڑکوں، موٹرویزاور ٹرینوں پر صرف کیا گیا۔ پنجاب میں شہبازشریف نے اچھے کام بھی کیے جس کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ ماس ٹرانزٹ، بڑے بڑے شہروں کی کلیدی ضرورت ہے اگر نہ ہوتی تو خیبرپختونخوا میں عمران خان بھی میٹروبس طرز کے منصوبے کا آغاز نہ کرتے۔ لیکن ان عام انتخابات سے دوچیزیں واضح طور پر ثابت ہوئی ہیں کہ اول تو یہ مسلم لیگ(ن) کے ترقیاتی منصوبوں کی کامیابی سے تکمیل جن میں بڑے بڑے بجلی گھر بھی شامل ہیں کے باوجود عوام کی کثیر تعداد نے ان کو مسترد کردیا ہے۔ دوسرا یہ کہ میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کی جیل یاترا کے باوجود ہمدردی کا ووٹ نہیں مل سکا۔ ایسے لگتا ہے کہ عوام نے مسلم لیگ(ن) کواس کے غرور، تمکنت اور ان سے کٹے رہنے کی سزا دی ہے۔ خان صاحب کو مسلم لیگ(ن) کے اس حشر سے خود بھی سبق سیکھنا چاہیے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما کا کہنا ہے کہ "22 سال میں تمام تر مشکلات، پریشانیوں اور قربانیوں کے بعد میرے بیٹوں کے والد پاکستان کے آئندہ وزیراعظم ہوں گے، مبارک ہو! عمران خان"۔ انتخابات سے قبل یہ بے پرکی اڑائی جا رہی تھی کہ "جیپ" کے نشان والے کنگ میکر ہونگے اور یہ الزام بھی لگایا جا رہا تھا کہ اس کے پیچھے فوج ہے جس کی ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے وضاحت کی تھی کہ فوج کا اس "جیپ" سے کوئی تعلق نہیں، انتخابات میں اس نشان پر جیتنے والے افراد کی تعداد دیکھ کر اب ان لوگوں کو اپنی سوچ اور نظریے پر نظرثانی کرنی چاہئے کیونکہ "جیپ" کے نشان کے حوالے سے جو چودھری نثار سے بھی امیدیں وابستہ کی جا رہی تھیں کہ انہیں حکومت میں اہم کردار ملے گاعبث نکلیں۔ عمومی طور پر پاکستان کے عوام نے جس بھرپور اورپختہ انداز سے اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہے، وہ قابل داد ہے۔ پاک سرزمین پارٹی اور جیپ کی چھٹی اس طرز عمل کی غمازی کرتی ہے۔ الیکشن سے پہلے جو بھی انجینئرنگ کی گئی ہو، الیکشن کمیشن کی شدید نااہلی کے باوجود پولنگ عملی طور پر صاف و شفاف رہی۔ خان صاحب نے یہ آفر کر کے کہ شکایت کنندگان جو بھی حلقہ کھولنا چاہیں خوش دلی سے ان کے مطالبے پر صاد کیا جائے گا۔ شاید اسی بنا پر اب برادرخورد شہباز شریف کے پاس ایجی ٹیشن کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ گیا۔