پھر گھوڑوں کا کاروبار؟
تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے کے بعد بلکہ عام انتخابات سے قبل بھی یہ بازگشت سنائی دیتی رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے بہت سے ارکان پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے لیے بے تاب ہیں لیکن"ہم "دانستہ اس راستے پر نہیں چل رہے۔ انتخابات سے پہلے ہی اپوزیشن نے الزام لگانا شروع کردیا تھا کہ ’پولیٹیکل انجینئرنگ، ہو رہی ہے۔ یہ باتیں زبان زدعام تھیں کہ کس انداز سے الیکٹ ایبل امید واروں کو پی ٹی آ ئی کے پرچم تلے اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں ’خلائی مخلوق، کا فقر ہ بھی چست کیا جاتا رہا جس سے مراد تھی کہ مقتدر ادارے مبینہ طور پر اس معاملے میں انتہائی فعال ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے بہت سے ارکان اپنی جماعتوں کے سا تھ سالہا سال کی رفاقت چھوڑ کر پی ٹی آئی کی گود میں آ بیٹھے تھے۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے، پنجاب کی حد تک معاملہ آسان تھا کیونکہ خودپیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی نظر آرہا تھاکہ وہ برسراقتدار نہیں آسکتی بلکہ اس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑکر جیتنا بھی جوئے شیرلانے کے مترادف تھا۔ مسلم لیگ (ن) کامعاملہ مختلف تھا۔ پنجاب میں اس کے زیا دہ ترارکان الیکٹ ایبل تھے لیکن میاں نواز شریف کی ’پاناماگیٹ، کے باعث نااہلی کے بعد واضح ہو گیا تھا کہ یہ جماعت وفاق اور پنجاب میں دوبارہ برسراقتدار نہیں آپائے گی۔ گویا کواکب یہی بتا رہے تھے کہ آئند ہ انتخابات میں کنگز پارٹی تحریک انصاف ہے اور ایسا ہی ہوا۔ جن سرکردہ افراد نے اپنی جماعت کو خیرباد کہا کہ ان میں خسروبختیار، عمرایوب، اصغرعلی شاہ، طاہر اقبال چودھری، طاہر بشیر چیمہ، رانا قاسم نون، باسط بخاری نمایاں تھے۔ خسروبختیا ر اور ان کے ساتھی جنوبی صوبہ محاذ کی آڑ میں اقتدار کی دہلیز تک پہنچ گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب جنوبی صوبہ کا شاذ ہی ذکر ہوتا ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے ندیم افضل چن، صمصام بخاری، خرم جہانگیر وٹو اور دیگرچھلانگ لگا کر پی ٹی آئی میں پہنچ گئے لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود تحریک انصاف وفاق اور پنجاب میں برائے نام اکثریت حاصل کر پائی۔ اسی بنا پر مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم، بی این پی اور جی ڈی اے کوساتھ ملا کر حکومت بنائی گئی۔ خان صاحب یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ نو از شریف دور میں کابینہ کا حجم بہت زیادہ تھا، اب وہ خوداس سے بڑی کابینہ بنانے پر مجبور ہیں تاکہ حلیفوں کو رام رکھا جا سکے۔ اس وقت بھی کہا جا تا تھا اگر کوشش کی جاتی تو مزید لوٹوں کو پارٹی میں شامل کیا جاسکتا تھا لیکن بوجوہ ایسا نہیں کیا گیا۔ اس تناظر میں اب یکدم مسلم لیگ (ن) کو توڑ کر پنجاب سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کو ساتھ ملانے اور وزیر اعظم عمران خان سے ملاقا ت کرانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ مبینہ طور پر مسلم لیگ (ن) کے 15ناراض ارکان نے جن میں اظہرچانڈیہ، فیصل نیازی، غیا ث الدین، جلیل شرقپوری، چودھری ارشد، نشاط ڈاہا اور ذوالفقار بھنڈر کے نام بھی لیے جارہے ہیں، خان صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے۔ ان میں سے بعض نے خبر کی تصدیق اور کچھ نے تردید کی۔ ذوالفقار علی بھنڈر کا کہنا ہے کہ ہر حال میں پارٹی کے ساتھ رہیں گے، ہم تو حلقے کے مسائل کی بات کرنے گئے تھے۔ کچھ بھی ہو، حکمران جماعت کی لیڈر شپ بغلیں بجارہی ہے۔ گورنرپنجاب چودھری سرور کا کہنا ہے کہ اپوزیشن بکھر رہی ہے اور مسلم لیگ (ن) اپنی لیڈر شپ کی وجہ سے ٹوٹ رہی ہے، وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کیلئے کسی اپوزیشن رکن کو اسمبلی سے استعفیٰ دینے کی ضرورت نہیں، (ن) لیگ خود جانتی ہے کتنے اراکین اسمبلی انکی پالیسوں سے اختلاف رکھتے ہیں، اگر ن لیگ کے اراکین اسمبلی اپنی پارٹی کی قیادت کی پالیسیوں سے مطمئن نہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران کی پالیسیاں ملک کو بحرانوں سے نکال کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہیں تو انکی عمران خاں سے ملاقات میں کیا حرج ہے؟ ۔ ادھر پیپلز پا رٹی کے شریک چیئر پرسن آصف علی زرداری کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اور پارک لین سمیت مزید کیسزمیں پہلے سے گرفتار شد ہ سابق صدر کی گرفتاریاں ڈالی جا رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آنے والے دنوں میں نیب کے جال میں بلاول بھٹو کو بھی پھانس لیا جائے گا۔ غالبا ً یہ سب کچھ حالیہ آل پارٹیز کانفرنس میں ہونے والے فیصلوں بالخصوص سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کو ہٹانے کے فیصلے کا جواب ہے۔ گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ سینیٹ کے چیئرمین کو ہٹانے کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو عددی اکثریت تو حاصل ہے لیکن ایسا کرنا ایک سٹرٹیجک فیصلہ ہوگا کیونکہ سینیٹ چیئرمین کو لانے والے آصف زرداری تھے جنہوں نے بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت کی تبدیلی کا بھی کھل کر کریڈٹ لیا اور یہی اس وقت "پولیٹیکل انجینئرنگ "کا تقاضا تھا۔ لیکن انتظامی اقدامات کے ذریعے سیا سی وفاداریاں بدلنے سے زمینی حقائق نہیں بدل جاتے، فرض کیجئے اپوزیشن کے مزید ارکان بھی خان صاحب سے مل کر کوئی فارورڈ بلاک بنالیں تو اس سے اپوزیشن کے رویئے اور لہجے میں مزید سختی آنے کا امکان ہے۔ عموماً اس قسم کے فارورڈ بلاک حکومتیں گرانے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ اپوزیشن نے تو اپوزیشن ہی کرنی ہے اور وہ کرتی رہے گی۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہوں۔ نواز شریف کے ناقدین انہیں ہارس ٹریڈنگ کا بانی قرار دیتے ہیں۔ نواز شریف نے1989ء میں اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیربھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے کیلئے آئی جے آئی اور آزاد ارکان قومی اسمبلی کو مری پہنچا دیا تھاجبکہ پیپلز پارٹی نے تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کیلئے ارکان اسمبلی کو سوات کی سیر کرائی تھی۔ اسی طرح میاں نواز شریف ارکان اسمبلی کو چھانگا مانگا بھی لیکر گئے، ان میں اے این پی، ایم کیو ایم، پیر پگاڑا کی مسلم لیگ اور ایک یا دو بلوچ جماعتیں شامل تھیں۔ اے این پی نوازشریف کی حلیف جماعت تھی اور اس کے پارلیمانی ارکان ان لوگوں میں شامل تھے جن کی چھانگا مانگا میں خاطر تواضع بھی کی جاتی رہی۔ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے حوالے سے بدترین مثال جنر ل پرویز مشرف کا دور تھا۔ جنہوں نے نیب کی داغ بیل ڈالی اور آج بھی سرکردہ لوگ جو خان صاحب کی ٹیم میں شامل ہیں اس وقت ہارس ٹریڈنگ کے ناپسندیدہ عمل میں سرگرم تھے۔ لاہور میں ڈی جی رینجرز میجر جنرل حسین مہد ی مرحوم کی مال روڈ پر سرکا ری اقامت گاہ سیاسی انجینئرنگ کا گڑھ تھی۔ جنرل صاحب جو میرے اچھے دوست تھے کے گھر پر اکثر چودھری برادران، فیصل صالح حیات حاضر باش ہوتے تھے۔ اس وقت کی انتہائی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی کوششوں کے نتیجے میں پیپلز پارٹی سے فیصل حیات اور راؤ سکندراقبال کی قیا دت میں پیٹریاٹس بنائی گئی اور مسلم لیگ (ن) کو توڑنے اور مسلم لیگ (ق) بنانے میں چودھری برادران نے کلیدی رول اداکیا۔ پیٹریاٹس تو مشرف کے جانے کے بعدخس وخاشاک کی طرح اڑگئی۔ فیصل صالح حیات واپس پیپلز پارٹی میں پہنچ چکے ہیں لیکن مسلم لیگ (ق)، چودھری برادران کے اپنے چندارکان کیساتھ پاکستان کے معروضی حالات کے مطابق سیاسی فیصلے کرنے کی بناپر آ ج بھی زند ہ ہے اور کم تعداد ہونے کے باوجود خان صاحب کی مدد کرنے کے لیے کلید ی کردارادا کرتے ہیں۔ خیا ل تھا کہ اتنے ہچکولے کھاکے سیاسی نظام اب ان غلطیوں سے پاک ہو جائے گا۔ لیکن 2018ء کے انتخابات سے قبل ہونے والے گھوڑوں کے کاروبا ر، اب دوبارہ جمہوریت کے لیے زہر قاتل اور ناپسندید ہ عمل کا آغاز کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ خان صاحب جواپوزیشن میں بہت ٹھیک اصولی باتیں کرتے تھے۔ انھوں نے چھانگامانگا طرز کی سیاست پر چار حرف بھی بھیجے تھے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ لوٹوں کی اس سیاست کے احیا کی گیم میں فریق نہ بنتے اور سیاسی وفاداریاں بدلنے والے افراد کے ساتھ ملاقا ت سے انکار کر دیتے بالکل اسی طرح جب وہ"چوروں " کے ساتھ ڈیل کے حوالے سے نجی حلقوں میں کہتے ہیں کہ اقتدار چھوڑ دوں گا لیکن چوروں کو نہیں چھوڑوں گا۔