نظام کا ہی کر یا کرم؟
جہاں پلوامہ خودکش حملہ جس میں بھارتی فورسز کے 45 اہلکار مارے گئے کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال کرمودی سرکار اوربھارتی میڈیا خطے میں جنگی جنون کو ہوا دے رہا ہے وہاں پاکستان میں ایک ازلی دشمن کی ممکنہ جارحیت کے خطرے سے نبٹنے کے لیے اتحاد کے بجائے نفاق کی کوششیں جا ری وساری ہیں۔ یہ کہنا تو درست ہے کہ پاکستان تر نوالہ نہیں، ایک ایٹمی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ عسکری لحاظ سے ایک مضبوط ریاست ہے لیکن ریاست اتنی ہی مضبوط ہوتی ہے جتنی اندرونی طور پر متحد ہو۔ ایسے لگتا ہے کہ حکومت اور بعض ریاستی اداروں کو اس بات کی چنداں پروا نہیں ہے کہ حالات کس نہج پر جا رہے ہیں اور قوم کو بنیان مرصوص بننے کی کس قدر ضرورت ہے۔ خارجہ اور سکیورٹی پالیسیوں کی کامیابیوں کی ضامن قومی یکجہتی ہے جس کا یکسر فقدان نظرآتا ہے۔ حال ہی میں اسلام آباد کے ریڈزون میں واقع ہوٹل سے نیب کے ہاتھوں سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی گرفتاری خاصی حیران کن ہے ان پر بھی یہ الزام ہے کہ وہ آمدن سے زیادہ اثاثوں کے مالک ہیں۔ اگر سندھ اسمبلی کے سپیکر پرواقعی کوئی الزام تھا اور گرفتار ہی کرنا تھا توانھیں کراچی سے بھی گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ وہ اسی شام فلائیٹ سے کراچی ہی جا رہے تھے۔ وہ پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے کی اسمبلی کے کسٹوڈین ہیں انھیں ہتھکڑیاں لگا کر لے جانا جیسے وہ فلائیٹ رسک یا عادی مجرم ہوں کی ملک بھر میں مذمت کی گئی۔ اگلے روز انھیں بکتر بند گاڑی میں لے جا کر عدالت میں پیش کر کے ریمانڈ لیا گیا۔ نہ جانے یہ نیب پاکستان کا ہی ادارہ ہے یا کسی اور ملک کا۔ اس کے ذمہ داران کو پتہ ہی نہیں کہ ان کے اردگرد کیا ہورہا ہے، وہ کیا کر رہے ہیں اور اس سے عمومی طور پر کیا تاثر ابھرتا ہے۔ دوسری طرف وزیراعظم عمران خان اپنی ہٹ پر قائم ہیں، انھیں بھی اس کی کوئی پروا نہیں کہ اس وقت حکومت کو اپوزیشن کے تعاون کی جتنی ضرورت ہے اتنی شاید گزشتہ چھ ماہ کے دورحکومت میں نہ ہو۔ ان کا گرفتاری پر بالواسطہ تبصرہ کہ چوری کرنے والے نیلسن منڈیلا بن جاتے ہیں اور انھیں جمہوریت یاد آجاتی ہے، خاصا دلچسپ ہونے کے باوجود بے وقت کی راگنی ہے۔ انھوں نے اپنا یہ موقف بھی دہرایا ہے کہ احتساب پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا، بات بھی ٹھیک ہے، تحریک انصاف کا یہ وعدہ تھا کہ وہ کرپشن کا خاتمہ کرے گی، اسے ضرور پو رابھی کرنا چاہیے لیکن جمہوریت اور جمہوری اداروں کا تمسخر اڑانا کہ چوروں کوجمہوریت یا دآجاتی ہے، مثبت رویہ نہیں ہے۔ کسی بھی موقر سیاستدان کو گرفتار کرنے کے ساتھ ہی چور قرار دے دینا موجودہ حکومت کا وتیرہ ہی بنتا جا رہا ہے۔ آغا سراج درانی کوئی اخلاقی مجرم نہیں ہیں، ان کے ساتھ یہ سلوک اور پھر کراچی میں ان کی اقامت گاہ میں خواتین کی موجودگی میں چھاپہ چادر اورچار دیواری کی روایات کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ آئندہ دنوں میں نیب کے ہاتھوں ممکنہ گرفتاری کے حوالے سے اب کچھ اور پردہ نشینوں کے نام بھی لیے جا رہے ہیں، جن میں بعض کا تعلق حکمران پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں سے بھی ہے۔ حکمران جما عت کا کہنا ہے کہ ’ہورچوپو، ، مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی نے اپنے اپنے ادوار میں چارٹرآف ڈیمو کریسی میں اتفاق رائے ہونے کے باوجود نیب قوانین کو منصفانہ اور شفاف بنانے کے لیے کام نہیں کیا۔ بات بھی درست ہے کہ کرپشن کا خاتمہ پیپلزپارٹی کی حکومت کا مسئلہ ہی نہیں تھا جبکہ میاں نواز شریف نے نیب قوانین کو اس لیے نہیں چھیڑا غالباً ان کی سوچ یہی تھی کہ بوقت ضرورت یہ اپوزیشن پر کاٹھی ڈالنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ ’لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا، کے مصداق میاں صاحب احتساب کے یکطرفہ عمل کو خود بھگت رہے ہیں۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے احتساب کے نام پر انتقام کی روش کی بھرپور مذمت کی ہے۔ شہبازشریف جو اپنی نومولود پوتی کی عیادت کے لیے لندن جانا چاہتے ہیں کو نو فلائی لسٹ میں ڈال دیاگیا ہے۔ اس صورتحال میں ملک میں پکڑ دھکڑ، مت چھوڑو جانے نہ پائے، کی فضا بدستور قائم ہے۔ سعودی ولی عہد شہز ادہ محمد بن سلمان کے کامیاب دورے پر مبارکبادیں وصول کرنے کے باوجود ملکی اقتصادیات اور گورننس کے معاملات جوں کے توں بلکہ ابتر ہیں۔ سٹاک مارکیٹ نیچے جا رہی ہے، بجٹ کا خسارہ آسمان سے باتیں کر رہا ہے، ملکی سرحدوں پر خطرات منڈلا رہے ہیں اور ہم سب اچھا ہے کی گردان کیے جا رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ نیب کا قانون اپوزیشن جماعتوں کے ادوار حکومت کا ہی کیا دھرا ہے، تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ موجودہ حکومت اسے بندر کے ہاتھ میں استرے کے مترادف استعمال کرے۔ نیب کے چیئرمین سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس جاوید اقبال ہیں جو تجربہ کار اور انتہائی کہنہ مشق سمجھے جاتے اور قانونی موشگافیوں سے بخوبی آگاہ ہیں، کیاباقی عملہ قانون اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کر کے آگے چلتا ہے؟ ۔ نیب کے صوبائی ہیڈکوارٹر زمیں تو ملزموں کے ساتھ مجرموں کی طرح سلوک کیا جاتاہے۔ گھنٹوں بٹھائے رکھنا، ہتھکڑیاں لگانا اور لمبے لمبے ریمانڈ لینا ان کا وتیرہ بن چکا ہے۔ نتیجتاًوہ لوگ جو وائٹ کالر کرائم کی چھان بین میں مہارت نہیں رکھتے پراسکیوشن کے مرحلے پر ایسا کیس بناتے ہیں جس کی بنا پر ہائیکورٹ اکثر ملزموں کی ضمانت لے لیتی ہے۔ مثال کے طور پرلاہور ہائیکورٹ میں میاں شہباز شریف کی آشیانہ ہاؤسنگ سکیم اور رمضان شوگر ملز کیس میں ضمانت کی درخواست پر سماعت کے دوران دو رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس ملک شہزاد احمد نے ریمارکس دئیے کہ نیب کا موقف مان لیا جائے تو کوئی بھی رکن اسمبلی ترقیاتی کام نہیں کرائے گا، شہباز شریف رمضان شوگر ملز کے کبھی چیف ایگزیکٹو نہیں رہے، آپ نے حمزہ کی ضمانت کی درخواست میں کہا کہ اس کی گرفتاری کی ضرورت نہیں، جو مرکزی فائدہ حاصل کرنے والا تھا اسے کہتے ہیں کہ اس کی گرفتاری کی ضرورت نہیں، ہم نے دیکھنا ہے یہ تمام تحقیقات کن پیرامیٹرز پر ہو رہی ہے، وجہ تو اس کے پیچھے کوئی اور ہے، اس کو گرفتار نہیں کرنا تو کیا اس کے باپ کو گرفتار کر لیں؟ ۔ اس کے بعد بھی آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کیس میں شہبازشریف کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا ہے یہ کس قسم کا بھونڈا احتساب ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما سعید غنی کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ وزیر اعظم عمران خان کے ایما پر ہو رہا ہے لیکن جس انداز سے سیاستدانوں کی بحیثیت مجمو عی تضحیک کی جا رہی ہے ا س سے خود اس کی دسترس میں بالآخر عمران خان کی پارٹی اور وہ خود بھی آسکتے ہیں۔ کیا یہ پاگل پن ہے، یا ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جمہوریت اور جمہوری اداروں کو بے توقیر کیا جا رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومتی پالیسیوں کی بنا پر اپوزیشن جتنی اب متحد ہے اتنی شاید پہلے کبھی نہ تھی لیکن خود حکمران جماعت میں خلفشار اس حد تک بڑھتا جا رہا ہے کہ بعض اوقات لگتا ہے کہ جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اپنے ہی وزیراعظم کے خصوصی مشیر نعیم الحق کے بارے میں غالب کا یہ شعر ٹویٹ کر دیا ہے کہہوا ہے شا ہ کا مصاحب پھرتا ہے اتراتاوگر نہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہےبادل نخواستہ یہ نتیجہ نہ نکل آئے کہ شاہ اور شاہ کے مصاحبین اور نورتن موجودہ نظام کا ہی کریا کرم کر دیں۔