نواز شریف کی فعالیت؟
پاکستان سے بظاہر مفرور مسلم لیگ (ن) کے رہبر میاں نواز شریف جو گزشتہ نومبر سے "بغرض علاج" لندن میں مقیم ہیں، مختلف مقامات پر ان کے کافی پینے اور چہل قدمی کی خبریں اور تصویریں منظر عام پر آنے سے حکومت یکدم فکر مند ہو گئی ہے کہ وہ غچہ دے کر باہر گئے ہیں۔ حکومت نے فوری طور پر انہیں واپس لانے کے لیے اقدامات کا اعلان کر دیا ہے۔ باسی کڑی میں یہ ابال اس وقت آیا جب میاں نواز شریف اپنے مخصوص طریقہ کار کو ایک بار پھر اپناتے ہوئے اچانک سیاسی طور پر فعال ہو گئے ہیں۔ ان کے مولانا فضل الرحمٰن، بلاول بھٹو اور دیگر اپوزیشن سیاستدانوں سے رابطوں کے بعد حکومتی حلقوں میں سراسیمگی پھیل گئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان جنہوں نے میاں نوازشریف کے علاج کے بہانے بیرون ملک چلے جانے پر قریباً خاموشی اختیار کر رکھی تھی حکم دے دیا ہے کہ نوازشریف کو واپس لایا جائے اور قانونی ٹیم اس حوالے سے گو سلو کی پالیسی ختم کرے۔ وزیر اطلاعات شبلی فراز بھی کہہ رہے ہیں کہ میاں صاحب بیماری کا بہانہ بنا کر فرار ہوئے ہیں۔ حکومت نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ جن لوگوں نے بقول اس کے جعلی میڈیکل رپورٹس بنا کر ان کے فرار میں مدد کی ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ واضح رہے کہ حال ہی میں بنائے گئے مشیر صحت شوکت خانم ہسپتال کے سابق سربراہ ڈاکٹر فیصل سلطان نے بھی اس وقت کہا تھا کہ نوازشریف شدید علیل ہیں لہٰذا انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے دیا جائے۔ اس قسم کی رپورٹس پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے بھی دی تھیں۔ سروسز ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر محمود ایاز کی رپورٹ بھی یہی کہتی تھی۔ نوازشریف کے جانے کے بعد نیب اور دیگر ادارے مبینہ طور پر ان کے پیچھے پڑ گئے، ان کے اکاؤنٹس اور اثاثے بھی چیک کیے گئے لیکن تحقیقاتی اداروں کو کچھ نہ ملا۔ اب وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری دوبارہ یہی راگ الاپ رہے ہیں "تحریک انصاف کے بیانئے اور احتساب کے عمل کو نوازشریف کی لندن روانگی نے شدید دھچکا دیا، جعلی رپورٹس کی تیاری میں جن لوگوں کا کردار ہے ان کو نشان عبرت بنانا چاہئے، نواز شریف کی واپسی کیلئے برطانوی حکومت سے رابطہ اور میڈیکلرپورٹس کی انکوائری درست فیصلے ہیں "گویا کہ سانپ نکل گیا اور اب حکومت لکیر پیٹ رہی ہے۔ اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
میاں نوازشریف کی دوبارہ فعالیت حکومت کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے حلقے بالخصوص ان کے بھونپو اکثر طعنے دیتے تھے کہ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز سیاست کو خیر باد کہہ کر گئے ہیں اور میاں صاحب خود لندن کے ریسٹورنٹس میں کھانے کھا اور کافی پی رہے ہیں لیکن جب اچانک سابق وزیراعظم نے طبل جنگ ہلکا سا ہی بجایا تو یہ آوازیں آنا شروع ہوگئی ہیں کہ انہیں واپس لایا جائے۔ حکومت کے ہاتھ پیر اتنے پھول گئے ہیں کہ فوراً نیب کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا کہ جناب میاں صاحب کو واپس لائیں جس پر نیب نے غالباً ٹکا سا جواب دیا ہوگا کہ اس معاملے میں ہم جتنی خدمت کر سکتے تھے کر رہے ہیں۔ تاہم نواز شریف کو ہم نے نہیں، وفاقی حکومت نے باہر بھیجا ہے۔
اب یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ 11 اگست کو مریم نواز کو جو اپنے والد صاحب کی طرح سیاست سے کنارہ کشی کی زندگی گزار رہی تھیں، نیب نے رائے ونڈ کی پراپرٹی کے ایک نئے مقدمے میں بلا کر خوامخواہ انہیں چھیڑا۔ مریم نواز نے جس انداز میں پیشی کے معاملے کو سیاسی طور پر استعمال کیا اور نیب دفتر کے باہر جو اینٹ کھڑکا ہوا اس سے نیب کو لینے کے دینے تو پڑ ہی گئے لیکن یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ محض اتفاق نہیں تھا بلکہ انہوں نے اس کو اپنی دوبارہ سیاسی رونمائی کا پیغام دینے کے لیے استعمال کیا۔ اگرچہ اب بھی اس امکان کو یکسر رد نہیں کیا جا سکتا کہ نواز شریف اور مریم نواز دوبارہ جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں لیکن اس کا امکان کم ہے۔ لگتا ہے کہ نواز شریف کو حکومت واپس نہیں لا سکے گی۔ اس معاملے میں وزیر ریلوے شیخ رشید نے سچ بول دیا ہے کہ "دونوں بڑی جماعتیں این آر او کی تلاش میں ہیں لیکن عمران خان کسی کو این آر او نہیں دے گا، وہ پہلے ہی پچھتا رہا ہے کہ نوازشریف چلا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اسحاق ڈار اور سلمان شہباز کو نہیں لا سکے تو نوازشریف کو لانا آسان کام تو نہیں ہے لیکن خواہش ہے کہ نوازشریف واپس آئیں اور کیس کا ٹرائل پورا کریں "۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نوازشریف نے سیاست میں سافٹ انٹری کیوں لی؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انہوں نے حکومت کے بارے میں شہبازشریف کی سافٹ لائن سے تنگ آ کر ایسا کیا ہے لیکن یہ بات مبنی بر حقیقت نہیں لگتی غالباً نوازشریف کا خیال ہے کہ معروضی حالات بدل رہے ہیں۔ اپوزیشن کی دانست میں پی ٹی آئی کی حکومت نے دو سال میں کسی بھی شعبے میں کارکردگی نہیں دکھائی بلکہ بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ان کا خیال ہے کہ وہ حلقے جو بظاہر خان صاحب کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں وہ بھی آہستہ آہستہ ہاتھ کھینچ رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی کے محاذ پر بھی بعض حالیہ تبدیلیوں سے بھی اپوزیشن کے مطابق حکومت کی پوزیشن خراب ہوئی ہے۔ پاکستان کی ماضی کی حکومتوں سے چلتے آرہے 'سی پیک' منصوبے پر سب جماعتیں متفق ہیں، خود تحریک انصاف کے بعض عمائدین کے شروع شروع میں نادانستہ طور پر بیانات سے کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوئی تھیں۔ سی پیک اتھارٹی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر)عاصم سلیم باجوہ نے معاملات کو درست سمت میں لانے کی کوشش کی ہے۔ اس پس منظر میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا حالیہ دورہ چین انتہائی کامیاب رہا، حتیٰ کہ چین نے پاکستان کو سٹیٹ بینک میں رکھے ایک ارب ڈالر استعمال کرنے کی بھی اجازت دے دی ہے۔ واضح رہے کہ حال ہی میں سعودی عرب نے سٹیٹ بینک میں رکھے ایک ارب ڈالر اپنی مجبوریوں کی بنا پر واپس لے لیے تھے جس پر چین نے یہ رقم پاکستان کو دی تھی۔ سی پیک کے غیر متنازعہ ہونے کی سب سے بین دلیل یہ ہے کہ حال ہی میں اپوزیشن کی چیدہ چیدہ جماعتوں کے ساتھ سی پیک کا مشاورتی اجلاس ہوا یعنی سیاسی عمل میں حکومت کے عمومی روئیے کے برعکس اپوزیشن کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس پس منظر میں نوازشریف کی دوبارہ فعالیت کی وجہ قابل فہم ہے۔ ان کی دانست میں حکومت کمزور پڑ رہی ہے۔ فی الحال اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔