نوشتہ دیوار پڑھنے سے انکار؟
رمضان ویسے توسکون کا مہینہ ہوتا ہے لیکن اس بار سیاسی ارتعاش بڑھتا ہی جارہا ہے۔ چندروز قبل جب میاں نوازشریف نے اپنی پارٹی کے عمائدین کو ہدایت کی کہ فعال ہو جائیں توبلاول بھٹو نے بھی اتوار کو افطارپارٹی کا علان کر دیا جس میں لیگی قیادت کو بھی مدعو کر لیا۔ افطار میں صاحبزادی مریم نواز کی شرکت کے فیصلے سے تحریک انصاف کی صفوں میں ہاہا کارمچ گئی۔ وزیراعظم عمران خان سے لے کر معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عا شق اعوان تک پوری پارٹی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) پر طعن کے تیر چلا نے لگی کہ زر بابا اور چالیس چوروں کوسڑکوں پر گھسیٹنے کی دھمکیا ں دینے والے بلاول کے دسترخوان پر جاپہنچے ہیں۔ واضح رہے کہ مرکز میں جب پیپلزپارٹی کی حکومت تھی تو شہباز شریف بطور وزیراعلیٰ پنجاب حبیب جا لب کے اشعار گنگناتے ہوئے آصف زرداری کوکوستے رہتے تھے لیکن ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔ اب کی بار دونوں جماعتو ں کے خلاف حصار تنگ ہو رہا ہے تو وہ مل بیٹھی ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پی ٹی آ ئی کے کھلاڑیوں نے سوشل میڈیا پر یلغارکر دی ہے۔ مریم نواز کے خاتون ہونے کے حوالے سے اور بلاول بھٹو کے سا تھ بیٹھنے پر رکیک حملے کیے جارہے ہیں۔ نجا نے پی ٹی آ ئی کو کیا گھبراہٹ ہے کہ اس کے کا رکنوں نے شائستگی کا دامن بھی ہاتھ سے چھوڑ دیا ہے۔ افطار پارٹی سے اگلے روز ہی مسلم لیگ(ن) کے اسلا م آباد میں اجلاس میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ فی الحال دونوں جماعتوں نے تحریک چلانے کے آپشن کو کھلا رکھا ہواہے بلکہ پارٹی کے سینئر نائب صدر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے تو حکومت کی طرف سے اقتصادیات کے حوالے سے کیے گئے بعض حالیہ اقداما ت کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے جس میں آ ئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد، پٹرول، بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو واپس لینے کا کہا گیا ہے۔ یقینا حکومت ایسا نہیں کر ے گی کیونکہ اس کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں۔ 6ارب ڈالر کے پیکیج کا اصولی فیصلہ تو ہو گیا ہے لیکن آ ئی ایم ایف جا ئزہ لے رہا ہے اس کی فرنٹ لوڈ پیشگی شرائط پر کتنا عمل ہو رہا ہے۔ وہ یہ بھی دیکھے گا کہ اگلے ماہ آنے والا بجٹ جسے آ ئی ایم ایف کی فرمائش پوری کرنے کے لیے قریبا ً تین ہفتے کے لیے مو خر کیا گیا میں وہ اقداما ت کیے جا تے ہیں یا نہیں جو پاکستان کی اقتصادی ٹیم آئی ایم ایف سے طے کر چکی ہے۔ اس صورتحال میں آئندہ چند ہفتے نہ صرف حکومت کے لیے بلکہ پاکستان کے لیے انتہائی نازک ہیں۔ اب خبر آئی ہے کہ سعودی عرب سے 9.6 ارب ڈالر کا ادھار تیل جولائی سے ملنا شروع ہو جائے گا نیز یہ کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کچھ بہتری اور سٹاک مارکیٹ میں بھی تیزی آئی ہے۔ امید ہے کہ یہ مثبت رجحانات دیرپاثابت ہوں گے اور ملک اقتصادی ترقی کی جانب گامزن ہو جائیگا۔ گزشتہ دنوں سٹیٹ بینک نے جس کی سربراہی اب آ ئی ایم ایف سے براہ راست درآمد شدہ ڈاکٹررضا باقر کر رہے ہیں پالیسی ریٹ میں ڈیڑھ فیصد اضافہ کردیا ہے اور اب شرح سود بڑھ کر12.25فیصد ہو گئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس سے اقتصادی استحکام پیدا ہو گا لیکن عملی طور پر چھوٹے اور درمیانے صنعت کاروں کا مزیدبھرکس نکل جائیگا کیو نکہ یہ ریٹ بینکوں کے دیگر چارجز ملا کر قریبا ً سو لہ فیصد بنتا ہے۔ بزنس ماڈل ایسا ہونا چاہیے جس میں بینکوں کے پہلے قرضے واپس کرکے بھی کاروبار چلایا جاسکے یقیناًوہ بڑے صنعت کار جن کے پا س اضافی کیش سرمایہ ہے یا جنہوں نے ایمنسٹی کا فائد ہ اٹھا کر دولت پاکستان منگوائی ہے وہ سرمایہ کاری کرلیں گے تاکہ منا فع کماسکیں۔ اس وقت معیشت کا یہ حال ہے کہ سٹیٹ بینک کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ میں غیرملکی براہ راست سرمایہ میں 51 فیصد سے زائد کمی واقع ہوئی ہے۔ رواں مالی سال جولائی تا اپریل کے دوران براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری ایک ارب 37 کروڑ 61 لاکھ ڈالر رہی جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی دورانیے میں 2 ارب 84 کروڑ 91 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کے با وجو دبرآمدات بڑھنے کے بجائے 2فیصد کم ہوئی ہیں۔ اگر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات میں اضافہ نہ ہوتا تو حالت مز ید پتلی ہوتی۔ سٹیٹ بینک کے مطابق اس امر کے باوجود کہ چین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے مالی انجکشن لیے گئے ہمارے ذخائر صرف تین ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہیں۔ آ ئی ایم ایف کی شرائط میں یہ بات بھی شامل ہے کہ چین کے واجب الادا قرضے رول اوور کر دیئے جائیں۔ عام آدمی کو ان پرپیچ اعدا دو شمار سے کم ہی دلچسپی ہوتی ہے۔ اس کو تو یہ فکر ہے کہ موجودہ اقتصادی کسادبازاری اور مشکل صورتحال میں اس کا چولہا ٹھنڈا ہورہا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ صورتحال ایسی ہے کہ سٹرک پر پٹرول بکھراہو اہے اور بس اسے تیلی دکھا نے کی کسر ہے۔ اپو زیشن کو اس نازک صورتحال کا کسی حد تک ادراک ہے لیکن حکمرانوں کو نہیں ہے۔ اسی بنا پر مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی اور راناثناء اللہ سمیت پارٹی کے اندر سے یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ اس نازک صورتحال میں عوام کو سڑکوں پر تولایا جا سکتا ہے لیکن ایسی انارکی پھیل سکتی جس کی کوئی سمت ہوگی نہ کوئی لیڈرشپ۔ مو لا نا فضل الرحمن نے اعلان کردیا ہے کہ عید کے بعداسلام آباد پر لانگ ما رچ کی صورت میں یلغار ہو گی۔ مولانا تو کشتیاں جلا چکے ہیں کیونکہ وہ عام انتخابات میں شکست کھانے کے بعد موجودہ جمہوری نظام میں سٹیک ہولڈر نہیں ہیں۔ شاید وہ یہ سوچتے ہوں کہ ایسی تحریک میں قیادت مذہبی جماعتوں کے ہا تھ آ جا ئے اور وہ اپنا ویٹوپاور والااختیار سنبھال لیں۔ اس تمام صورتحال میں نیب کے چیئرمین جسٹس(ر)جاویداقبال کے متنازعہ انٹرویو اور پریس کانفرنس کو نرم سے نرم الفاظ میں اپوزیشن کو انگیخت کر نے کے مترادف قرار دیا جا سکتا ہے۔ نیب چیئرمین غالباًآصف زرداری کے اس بیان پر برہم تھے کہ نیب اور معیشت اکٹھے نہیں چل سکتے۔ لیکن بطور سابق چیف جسٹس جاوید اقبال کو جوڈیشل تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا لیکن گزشتہ روز میرے پروگرام ’ہو کیا رہا ہے، میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات افتخار درانی نے عجیب نکتہ اٹھایا، ان کا کہنا تھا کہ نیب چیئرمین کو ئی جوڈیشل نہیں بلکہ انتظامی منصب ہے حالانکہ نیب چیئرمین تمام اہم کیسز کے حوالے سے ریفرنس دائر کرنے کا خود فیصلہ کرتے ہیں اوراپوزیشن اور حکومت کے اتفاق رائے سے ان کی تقرری کی جاتی ہے لیکن جس انداز سے انھوں نے متذکرہ انٹرویو اور پریس کانفرنس میں نہ صرف نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو بلکہ پرویز خٹک سمیت اکثر کانا م لیے بغیر ہی فیصلہ صادر کر دیا ہے کہ یہ سب جیل میں ہونگے، اس سے نیب کی غیر جانبداری کے بارے میں کوئی اچھا تاثر نہیں ابھرا۔ پرویز مشرف کے دور میں بنے ہوئے نیب جس کا مقصد اس دور میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کو توڑنا تھا لگتا ہے کہ سیاستدانوں کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گیا ہے۔ پہلے تو اپوزیشن اور حکمران جماعت کے درمیان نیب قانون میں موجود سقم کو دور کرنے کیلئے مذاکرات ہو رہے تھے لیکن لگتا ہے کہ حکومت اس سلسلے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ مسلم لیگ(ن) کے بعض حلقے کہہ چکے ہیں کہ ہم تو نیب کی صعوبتیں بھگت چکے ہیں بالآخر دوسروں کی باری آئے گی اس لیے اسے نہیں چھیڑیں گے۔ اس صورتحال میں حکمران جما عت بالخصوص اپوزیشن کو بعض بنیادی معاملات میں اتفاق رائے پیداکرنے کی کوشش کرنا پڑے گی کیونکہ سیا ستدانوں کانوشتہ دیوار پڑھنے سے مسلسل انکار ملک کو مہنگا پڑ ے گا۔