مسئلہ کشمیر پر سیاسی دکانداری؟
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو سعودی عرب کے بارے میں بیان کے حوالے سے آڑے ہاتھوں لیا۔ سب سے پہلے تو متحدہ اپوزیشن (جو کسی طرح متحد نہیں ) کو مبارک ہو کہ میاں صاحب چلاّ کاٹ کر بالآخر میدان میں آ گئے ہیں۔ انھیں بعدازخرابی بسیار ہی سہی غالباً یہ احساس ہو گیا ہے کہ اپوزیشن اور خود ان کی جماعت کی طرف سے ان کی طویل کنارہ کشی پر کڑی تنقید ہو رہی ہے لہٰذا انھوں نے اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کی میٹنگ کی صدارت کرنے کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی شرکت کی۔ شاہ محمود قریشی پر شہبازشریف کی تنقید برحق ہے بالخصوص وزیر خارجہ کو اس قسم کا بیان اور وہ بھی ایک ٹاک شو میں نہیں دینا چاہیے تھا۔ قریشی صاحب کی بات اگرچہ اصولی طورپر ٹھیک ہے لیکن حساس موضوعات اور تاریخی طور پر برادر ا سلامی ملک جس نے ما ضی میں ہم پر بہت احسانات کئے ہیں، اس کے بارے میں دھمکی آمیز زبان ہما رے وزیر خارجہ کو زیب نہیں دیتا۔ عذر گناہ بدتراز گناہ، اگلے ہی روز قریشی صا حب نے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ انھوں نے پوری سنجیدگی اور ذمہ داری سے یہ بیان دیا ہے۔
اب وہ کس منہ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی نہیں ہے۔ انھوں نے مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کے ٹویٹ جس میں انھوں نے کہا تھاکہ پی ٹی آ ئی کی حکومت نے پاکستان کو خارجہ میدان میں تنہا کر دیا ہے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے پاکستان کے برادر ملک سعودی عرب کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ بیان کی شدید مذمت کرتے ہیں، پر اظہار افسوس کیا۔ ا ن کا الزام ہے کہ کشمیر کاز کو اپوزیشن سیاست کی نذر کررہی ہے لیکن میاں شہباز شریف کا آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں خطاب کے دوران یہ کہنا کہ شاہ محمود قریشی کا بیان سفارتی حماقت ہے مبنی برحقائق ہے۔ شہبازشریف نے درست طور پر کہا ہے کہ کشمیر جا دو، ٹونے یا لفاظی سے نہیں بلکہ موثر سفارتکاری سے آزاد ہو گا۔ نہ جانے وزیر خارجہ بیرون ملک سفر سے کیوں کتراتے ہیں حالانکہ وہ کوویڈ 19سے صحت یاب ہو چکے ہیں۔ انھیں تو چاہیے تھا کہ وہ خواہ وزیراعظم عمران خان کا طیارہ لے کر ریاض جاتے اور سعودی حکمرانوں سے پوچھتے کہ انھوں نے کیونکر پاکستان کو دیا گیا ایک ارب ڈالر واپس منگو ا لیا ہے۔ اگر یہ نا راضگی کلبھوشن یادیو کے حوالے سے ہے یا بھارت کوئی خفیہ سازشیں کر رہا ہے تو اس کی سفارتی سطح پر وضاحت کی جانی چاہیے۔
شہزادہ محمد بن سلمان جو نہ صرف ولی عہد ہیں بلکہ عملی طور پر سعودی عرب کے حکمران ہیں لا ابالی سی طبیعت کے مالک ہیں۔ سعودی عرب سٹیٹ بینک میں رکھے اپنے باقی ماندہ 2 ارب ڈالر بھی واپس مانگ سکتا ہے۔ ایک اور حقیقت جس کا غالباً ہمارے حکمرانوں کو ادراک نہیں، وہ یہ ہے کہ جی 20جس میں 19ممالک اور یورپی یونین کے سینٹرل بینکوں کے گورنرز شامل ہیں، شاید یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ جاپان کے شہر اوسا کا میں یکم دسمبر 2019کو جی20سمٹ میں سعودی عرب اس بین الاقوامی فورم کا صدر بن گیا۔ اس انتہائی معتبر اور موثر فورم کا بھارت بھی رکن ہے۔ جی 20کا کو ویڈ 19کے حوالے سے ورکنگ سمٹ مارچ میں ہوا جس کی صدارت سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے کی تھی، اس میں دیگر فیصلوں کے علاوہ یہ فیصلہ بھی کیا گیا تھا کہ ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے ان ممالک کو جو کورونا سے اقتصادی طور پر متا ثر ہو رہے ہیں اور جہاں لوگوں کو روزگار سے محروم ہونا پڑا ہے ان کی اقتصادی طور پر مدد کی جائے۔ ظاہر ہے کہ پاکستان بھی متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے، اس بنا پر ضروری ہے کہ نومبر میں ریاض میں ہونے والے سربراہی اجلاس سے پہلے ہم سعودی عرب کے سا تھ اپنے معاملات درست کریں کیونکہ اس میں مودی یقینا اپنا لچ تلے گا۔ تاہم یہ بات قابل فہم نہیں ہے کہ سعودی عرب کوویڈ 19سے متاثر ہونے والے ممالک میں جس میں تاریخی دوست پاکستان بھی سرفہرست ہے کی دامے درمے سخنے مدد کرنے کے بجائے سٹیٹ بینک میں پڑے ایک ارب ڈالر واپس لے لے۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ کشمیر سمیت خارجہ پالیسی کو بڑھک بازی کااکھاڑہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ طرز عمل پاکستان کے قومی مفادات اور اقتصادیا ت کو منفی طور پر متاثر کر سکتا ہے۔
مقام شکر ہے کہ اپوزیشن سے شدید محاذ آرائی اور لفظی گولہ باری کے باوجود قائد حزب اختلاف نے کہا ہے کہ ہم قومی مفادات کے حوالے سے حکومت سے تعاون کریں گے جس کی ایک جھلک ایف اے ٹی ایف پر متفقہ قانون سازی کے موقع پر دیکھنے میں آئی۔ کشمیر پربھی محض لیپاپوتی کے بجائے حکومت کو وزیراعظم کی سطح پر اپوزیشن کو پوری طرح آن بورڈ لینا چاہیے۔ اگر ہم پاکستان کی شہ رگ کے مسئلے پر قومی یکجہتی کا مظاہرہ کریں تو دنیا ہماری بات توجہ سے سنے گی۔ حکومتی ترجمانوں کی طرف سے اس قسم کی بلاناغہ محل نظر بیان بازی کہآل پاکستان لوٹ ما ر ایسوسی ایشن بلاوجہ شور مچا رہی ہے، سے کو ئی بہتری نہیں آئے گی اور ناقدین یہ الزام عائد کرنے میں حق بجانب ہونگے کہ حکومت مسئلہ کشمیر کے حل میں سنجیدہ نہیں بلکہ اس مسئلے کی بنیاد پر اپنی سیاسی دکان چمکار ہی ہے۔