لیڈر شپ کا کڑا امتحان۔۔۔(4)
اگرچہ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے لیکن زمینی حقائق قدرے مختلف ہیں۔ یہ درست ہے کہ سکیورٹی اداروں کی کاوشوں کی بنا پر دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ 2007ء میں گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں پاکستان چوتھے نمبر پر تھا جو اب پانچویں نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس دہشت گردی سے ہونے والی اموات میں بارہ فیصد کمی ہوئی ہے اور 956افراد اس کی بھینٹ چڑھ گئے جو گزشتہ دہائی میں سب سے کم تعداد تھی۔ لیکن اعداد وشمار کے گورکھ دھندے میں پڑے بغیر دیکھا جائے تو دہشت گردی کے واقعات بالخصوص بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں جاری رہے۔ چند روز قبل ہونے والے عام انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے لیے دہشت گردی کی سنگین وارداتیں ہوئیں جن میں سینکڑوں افراد شہید ہوئے۔ سب سے سنگین واقعہ بلوچستان کے علاقے مستونگ میں ہوا جس میں امیدوار بلوچستان اسمبلی سراج رئیسانی سمیت تقریباً150افراد شہید ہوئے، خیبر پختونخوا میں ہارون بلورکو ایک الیکشن ریلی کے دوران بم سے اڑا دیا گیا۔ ایم ایم اے کے رہنما اکرم درانی پر دوبار حملہ ہوا۔ حال ہی میں گلگت بلتستان کے ضلع دیامیرا میں انتہا پسندوں نے لڑکیوں کے بارہ سکولوں کو نذر آتش کر دیا۔ یہ لوگ واضح طور پر خواتین کو تعلیم نہ دینے کے حامی ہیں۔ پہلے تو کہا گیا کہ یہ انتہا پسند مقامی ہیں اور اب بتایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ افغانستان سے آئے تھے۔ بعداز خرابی بسیار سکیورٹی فورسز نے تعلیمی ادارے جلانے والے دہشتگردوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیا ہے لیکن اسے انتظامی اور انٹیلی جنس ناکامی کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے؟ اس افسوسناک واقعہ سے یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی ہے کہ انتہا پسند دندناتے پھر رہے ہیں۔ لاہور میں ایک عیسائی نوجوان کا قتل بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ یقیناً خان صاحب کو اس محاذ پر بھی کچھ کرنا ہو گا۔ ان واقعات سے پوری طرح واضح ہے کہ دہشت گردی کا اژدھا پھنکار رہا ہے اور وطن عزیز کے لیے مسلسل خطرہ ہے۔ یقینا دہشت گردی کے واقعات میں کمی ایک اچھا شگون ہے لیکن جو لوگ اس عفریت کا شکار ہوئے ہیں ان کے لیے یہ اعدادو شمارکوئی معنی نہیں رکھتے۔ اسی دہشت گردی کی بنا پر بڑے بڑے بین الاقوامی کاروباری ادارے پاکستان میں بزنس کرنا تو کجا آنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ اسی بنا پر ملک میں حقیقی غیر ملکی سرمایہ کار ی نہ ہونے کے برابر ہے۔ کھیل کے میدان میں بھی کوئی صف اول کی کرکٹ ٹیم پاکستان کا دورہ کرنے سے گریزاں ہے۔ حال ہی میں نیوزی لینڈ کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ بطور متوقع وزیراعظم عمران خان کے لیے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا بڑا چیلنج ہے۔ نوازشریف کے دور حکومت میں اس ضمن میں کلیدی پیش رفت ہوئی۔ کراچی کی روشنیاں بحال کرنے میں سکیورٹی اداروں کے علاوہ مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو کریڈٹ جاتا ہے اور باہمی تعاون کے ذریعے وہاں دہشت گردی کے علاوہ بھتہ مافیا، ڈاکہ زنی، قبضہ مافیا اور چائنہ کٹنگ جیسے ناسور پر قابو پایا گیا۔ وہ ایم کیو ایم جس کی طنابیں لندن میں بیٹھے الطاف حسین کے ہاتھ میں تھیں، بھی اپنے انجام کو پہنچی۔ حالیہ عام انتخابات گواہی دیتے ہیں کہ کراچی، حیدر آباد اور سکھر جیسے شہروں پر اب ایم کیو ایم کی اجارہ داری نہیں رہی۔ دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک سکول پشاور پر تحریک طالبان پاکستان کا حملہ جس میں بچوں سمیت 156 افراد شہید ہوئے تھے نے ریاست کو خواب خرگوش سے بیدار کیا۔ عمران خان نے قریبا ً چار ماہ سے جاری اسلام آباد ڈی چوک پر اپنا دھرنا ختم کر دیا اور بیس نکات پر مشتمل نیشنل الیکشن پلان تشکیل دیا گیا جس پر عمل درآمد کے لیے صوبوں میں بھی اپیکس کمیٹیاں بنائی گئی تھیں۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے نیکٹا کا کلیدی رول ہونا چاہیے لیکن یہ ادارہ ابھی تک عضو معطل بنا ہواہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے بہت سے نکات کا تعلق دہشت گردی ختم کرنے کے حوالے سے اداروں اور عوام کے تال میل سے تھا، کئی نکات وطن عزیز میں بیانیہ بدلنے کے حوالے سے تھے، اسی پلان کا ایک نکتہ نیکٹا کو فعال بنانا بھی تھا لیکن ہنوز ایسا نہیں ہو سکا۔ انہی نکات میں مذہبی انتہاپسندی کو روکنا، اقلیتوں کا تحفظ اور دینی مدارس کو ریگولیٹ کرنا بھی شامل تھا۔ یہ بات بھی نیشنل پلان کا حصہ تھی کہ کالعدم تنظیموں کو دوسرے ناموں سے کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی نیز دہشت گردوں اور ان کی تنظیموں کی فنڈنگ کی روک تھام کی جائے گی، ان کے ذرائع مواصلات کو کنٹرول کیا جائے گا۔ وہ عناصر جو فرقہ واریت پھیلاتے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ بلوچستان میں سیاسی مفاہمت کے لیے صوبے کے سٹیک ہولڈرز کو مکمل آزادی ہو گی۔ پنجاب میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کا قلع قمع کرنے کا بالخصوص ذکر ہے۔ دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کے لیے جنرل راحیل شریف نے آپریشن ’ضرب عضب، لانچ کیا تھا اور بعدازاں آپریشن’ ردالفساد، کا آغازجنرل قمر جاوید باجوہ نے کیا۔ دیکھا جائے تو افواج پاکستان نے آپریشنل حد تک اپنا کام کیا ہے لیکن سیاسی حکومتیں اس ضمن میں مصلحت پسندیوں اور لیت ولعل سے ہی کام لیتی رہی ہیں۔ علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے افکار کے مطابق پاکستان کا بیانیہ ڈھالنے کا کام شروع نہیں کیا گیا۔ سیاسی جماعتوں کو تو اپنے روز مرہ قضیوں اور سیاسی مصلحتوں سے ہی فرصت نہیں۔ اسی بنا پر انتہا پسندی، فرقہ واریت اور عدم برداشت کے رویوں کو گزشتہ چند برسوں میں تقویت حا صل ہوئی ہے۔ عمران خان تو مدرسہ حقانیہ کو گرانٹ بھی دے چکے ہیں کیونکہ ان کے مطابق یہ مدارس تعلیم کے حوالے سے مثبت رول ادا کر رہے ہیں حالانکہ اصل مسئلہ مدارس کا وجود نہیں بلکہ جیساکہ نیشنل ایکشن پلان میں بھی لکھا ہے ان کو ریگولیٹ کرنا ہے اور دیکھنا ہے کہ مدارس میں تدریس کے نام پر دہشت گرد تو نہیں پیدا کیے جا رہے اور ان کی فنڈنگ کہاں کہاں سے ہو رہی ہے۔ ایک مرحلے میں عمران خان تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے بھی حامی تھے۔ اس وقت شاید مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا بھی یہی رویہ تھا۔ اسی بنا پر طالبان سے باقاعدہ مذاکرات کرنے کے لیے وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی کی قیادت میں کمیٹی بھی قائم کی گئی تھی لیکن جلد ہی یہ واضح ہو گیا کہ یہ دہشت گرد تنظیمیں قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے پاکستان پر یقین پر نہیں رکھتیں، اسی دوران حکیم اللہ محسود ڈرون حملے میں مارا گیا تو وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے آنسو بہاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ڈرون حملہ پرامن مذاکرات پر تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دہشت گرد اب ملک کے کونے کھدروں میں اپنی پناہ گاہوں میں گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ بعض تنظیمیں جنہیں اقوام متحدہ کی طرف سے غیر قانونی قرار دیا جا چکا ہے ابھی تک مختلف ناموں سے دندناتی پھر رہی ہیں۔ ان میں سے بعض عناصر نے تو مختلف ناموں کے تحت عام انتخابات میں اپنے امید وار بھی کھڑے کیے تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اس بارے میں کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں؟ کیونکہ اپوزیشن میں تو وہ ایسے عناصر کی صفائیاں پیش کرتے رہے ہیں۔ کیا زبانی جمع خرچ کے علاوہ بیانیہ بدلنے کی کوئی سنجیدہ کوشش بھی کی جائے گی۔ پاکستان میں اقلیتوں کا قانون اور آئین کے مطابق تحفظ ہونا چاہیے لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہے، اس ضمن میں نیشنل سکیورٹی کونسل کے علاوہ بھی حکومت اور فوجی قیادت کا ایک ہی صفحے پر ہونا ضروری ہے۔ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت کے آخری دنوں میں سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان ان کلیدی معاملات پر عدم اتفاق نے ہی ’ڈان لیکس، کو جنم دیا تھا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عمران خان کی سیاست میں تاریخ خودکو نہ دہرائے۔