Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Arif Nizami
  3. Leadership Ka Kara Imtehan (3)

Leadership Ka Kara Imtehan (3)

لیڈر شپ کا کڑا امتحان 3

یہ بات تو مسلمہ ہے کہ تحریک انصاف کی متوقع حکومت کو اندرونی اور بیرونی گوناگوں اورگھمبیر مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ بھی کوئی نئی خبر نہیں ہے کہ خزانہ خالی ہے۔ گورننس نہ ہونے کے برابر ہے اور ملک شتربے مہارکی طرح چل رہا ہے۔ نگران حکومت کے عبوری انتظام کے طور پر اختیارات محدود ہوتے ہیں اور وہ ایک حد سے آگے جا کر بنیادی پالیسی فیصلے نہیں کر سکتی۔ خارجہ اور سکیورٹی پالیسی کو ہی لیجئے۔ نگران وزیر خارجہ عبداللہ حسین ہارون نے جب منصب سنبھالا اس کے بعد شاید پہلی بار گوہر افشانی کی ہے۔ حسین ہارون جو انتہائی وضع دار آدمی ہیں کا طرز زندگی اور بودوباش پاکستانیوں سے زیادہ انگریزوں سے ملتا جلتاہے۔ پیپلزپارٹی کے سابق دور حکومت میں جب آصف زرداری صدر مملکت تھے تو ایوان صدر میں ایک عشائیے میں وہ بھی تشریف لائے، یہ عشائیہ کسی اعلیٰ امریکی عہدیدار کے اعزاز میں تھا اور ان کے ساتھ امریکی صحافیوں کی ایک کھیپ بھی تھی۔ ایک امریکی صحافی نے سرگوشی کے انداز میں مجھ سے پوچھا۔" یہ انگریز کون صاحب ہیں "؟ حالانکہ وہ اس وقت آصف زرداری کی مہربانی سے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب تھے۔ بعدازاں 2013ء میں انھوں نے نگران وزیراعظم بننے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا اور اس مقصد کے حصول کی خاطر ہر فورم پرفوج کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے آصف زرداری پر خوب تنقید کی۔ اس بار بھی انھوں نے نگران وزیراعظم بننے کے لیے بھرپور لابنگ کی لیکن ان کی دال نہیں گلی، تو انھوں نے وزارت خارجہ پر ہی اکتفا کر لیا۔ انھوں نے حال ہی میں وفاق ایوانہائے صنعت وتجارت سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب نگران حکومت نے ذمہ داریاں سنبھالیں توخزانہ خالی تھا اور ن لیگی حکومت دو سو ارب روپے ساتھ لے گئی، کس کھاتے میں، کس طرح اور کہاں لے گئی، انھوں نے نہیں بتایا۔ جہاں تک وزارت خارجہ کا تعلق ہے، میاں نوازشریف نے بھی قریباً چار سال کے عرصے کے دوران کسی کو قلمدان نہیں سونپا اور بالآخر آخری چند ماہ میں خواجہ آصف کو یہ منصب سونپ دیا گیا۔ فوجی قیادت میاں نوازشریف پر زور دیتی رہی کہ کل وقتی وزیر خارجہ کا تقرر کریں لیکن وہ اس معاملے میں لیت ولعل سے کام لیتے رہے، سید مشاہد حسین کا نام بھی وزارت خارجہ کے امیدواروں میں آیا وہ فوجی قیادت کے لیے بھی قابل قبول تھے۔ چونکہ وہ عملی طور پر مسلم لیگ (ن) کے قریب ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر اور سیکرٹری جنرل بھی تھے لہٰذا قرعہ فال ان کے نام نہ نکل سکا۔ شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ امریکہ اور سعودی عرب کے نزدیک وہ ایران کے خاصے قریب گنے جاتے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے آخری ایام میں بہت سے وہ ملک جن کا شمار پاکستان کے دوستوں میں ہوتا تھا، نے سرد مہری اختیار کر لی نوازشریف رخصت ہوئے تو خطے میں قریبا ً سبھی ممالک سے ہمارے تعلقات خراب یا سرد مہری کا شکار تھے۔ برادر اسلامی ہمسایہ ملک ایران سے تال میل قطعاً اچھا نہیں تھا اور نہ ہی پاکستانی حکمرانوں نے ایران کو کبھی قریب لانے کی کوشش کی۔ ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست نے ہفتہ کو بنی گالہ میں عمران خان سے ملاقات کی اور ایرانی صدر حسن روحانی کا مبارکباد کا پیغام پہنچایا ملاقات میں عمران خان نے بجا طور پرکہا کہ ہم ایران اور سعودی عرب کے مابین کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے، وہ افغانستان کے اندر شورش اور طالبان کی سرگرمیوں کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتا ہے اور بھارت کے ساتھ تعلقات میاں صا حب کی مودی کے ساتھ جپھی ڈالنے کے باوجود مخاصمانہ ہی رہے۔ نوازشریف خارجہ حکمت عملی کے پیچیدہ مسا ئل کو ذاتی دوستیاں بنانے کے ذریعے حل کرنے کے قائل تھے۔ جب دسمبر 2015 میں ان کی نواسی کی شادی کی تقریب میں نریندر مودی اچانک جاتی امرا وارد ہوئے اور سٹیل ٹائیکون سجن جندال بھی اردگرد منڈ لاتا رہا تو طرح طرح کی چہ مگوئیاں ہوئیں۔ مخالفین نے برملا الزام عائد کیا کہ نوازشریف تو بھارتی ایجنٹ ہیں اور ذاتی کاروباری مفاد کی خاطر قومی مفاد کو داؤ پرلگا رہے ہیں۔ اگرچہ ان کا طریقہ کار محل نظرتھا لیکن درحقیقت نوازشریف بھارت کے ساتھ اچھے تجارتی اور اقتصادی تعلقات قائم کرنے کے خواہاں تھے لیکن ایسا مسئلہ کشمیرکے حل پر کسی بامقصد بات چیت کے بغیر کیسے ہوسکتا تھا۔ اسی چکر میں ان پر سکیورٹی رسک ہونے کا بھی الزام لگا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی پر عمران خان کو فون پر مبارکباد دیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ دوستی کی خواہش کا اظہار کیا۔ عمران خان نے درست جواب دیا کہ آپ ایک قدم آ گے بڑھیں گے تو ہم دو قدم آگے بڑھیں گے۔ فوجی قیادت بھی برابری کی بنیاد پر بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہاں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک بھارت کے ساتھ اچھے تجارتی اور سیاسی تعلقات استوار نہیں ہوتے۔ ہماری اقتصادی صورتحال دگرگوں رہے گی۔ عمران خان کے لیے بھارت سے کشیدگی کم کرنا بہت بڑا چیلنج ہو گا اور ایسا کرنے کے لیے انھیں پھونک پھونک کر قدم اٹھانے ہوں گے اورتمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کرچلنا ہو گا۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے پیچھے پنجے جھاڑ کر پڑی ہوئی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے متوقع پروگرام کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ایک انتہائی غیر دوستانہ قدم تھا۔ امریکہ نے پاکستان کے لیے دفاعی امداد کم کر کے صرف ڈیڑھ سو ملین ڈالر کر دی ہے، جو نہ ہونے کے برابر ہے، امریکہ بہرحال سپر پاور ہے، جس سے ہمارے اقتصادی اور جیو سٹرٹیجک مفادات جڑے ہوئے ہیں لیکن وہ سمجھتا ہے کہ ہم افغانستان میں افغان طالبان کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ یہ منتراکہ ہم تو خود دہشت گردی کا شکار ہیں لہٰذا دہشت گردوں کی کیونکرمدد کر سکتے ہیں، مغربی دنیا ماننے کو تیار نہیں۔ فنانشل ایکشنٹاسک فورسFATFکامعاملہ بھی جوں کا توں لٹک رہا ہے۔ اس معاملے میں بلیک لسٹنگ سے بچنے کے لیے نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) قطعاً ناکام رہی ہے۔ پاکستان کو بلیک لسٹ سے بچانا بھی عمران خان کے ایجنڈے پر یقینا ہونا چاہیے۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ سعودی عرب ہمارا برادر اسلامی ملک ہے جس نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کی مدد کی ہے اور ہم نے بھی کئی مرتبہ دامے درمے سخنے اس کا ساتھ دیا ہے۔ سعودی عرب کے کہنے پر ہی جنرل پرویز مشرف نے ڈیل کر کے نوازشریف کو 2000ء میں جیل سے نکال کر خاندان سمیت جدہ بھیجا تھا اور بعدازاں ریاض کے ایما پر ہی انھیں 2007ء میں واپس آنے کی اجازت دی تھی۔ یمن میں فوج کشی کے لیے بنائی گئی اسلامی فورس میں شمولیت کے بارے میں لیت ولعل نوازشریف کو مہنگا پڑا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان سے ناراض ہو گئے۔ بعدازخرابی بسیار جنرل راحیل شریف اس اسلامی فورس کے سربراہ بن کر سعودی عرب چلے گئے لیکن نوازشریف کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری ختم نہ ہو سکی۔ عمران خان کے بظاہر سعودی عرب سے تعلقات بہتر لگتے ہیں۔ انھیں اپنی پہلی فرصت میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو انگیج کرنا چاہئے کیونکہ اس وقت یہ ہماری ضرورت بھی ہیں۔ نہ جانے کیوں مسلم لیگ ( ن) اور اس سے پہلے پیپلزپارٹی کی حکومتیں یہ تاثر دیتی رہی رہیں کہ خارجہ حکمت عملی کے میدان میں فوج ہمیں کچھ کرنے نہیں دیتی، حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ اس قسم کے کلیدی فیصلے کرتے وقت فوج کو آن بورڈ لینا چا ہیے۔ اس سلسلے میں نیشنل سکیورٹی کونسل جیسے ادارے موجود ہیں اور وزیر اعظم آرمی چیف سے ون آن ون ملاقات میں بھی ہر معاملے پر مشاورت کر سکتے ہیں۔ فوج کا اثرونفوذ پاکستان کی ایک بدیہی حقیقت ہے یقینا پاکستان میں سیاسی حکومتوں کو ملکی سلامتی کے حوالے سے عسکری قیادت کو مشاورت کے عمل میں شریک رکھنا ملکی مفاد میں ہے۔

Check Also

Mard Ki Muhabbat, Shiddat Ki Inteha

By Amirjan Haqqani