Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Arif Nizami
  3. Koi Batlaye Ke Hum Batlayen Kya?

Koi Batlaye Ke Hum Batlayen Kya?

کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا ؟

ورلڈ اکنامک فورم ایسا ادارہ ہے جو سوئٹرز لینڈ کی سکی ریزورٹ ڈیووس میں ہر سال دنیا کی چوٹی کی لیڈر شپ کو اکٹھا کرتا ہے۔ اس فورم کے بانیKlaus Schwab کے ویژن پر مبنی یہ اجتماع جنوری1988ء سے ہر سال منعقد ہو رہا ہے۔ رواں برس اس کا ایجنڈا ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں تھا، اس کی افادیت اپنی جگہ لیکن ڈیووس کا اصل میلہ وہاں آنے والے مہمان سجاتے ہیں، اس کی سائیڈ لائن پر سربراہان حکومت و مملکت اور دنیا کی ٹاپ لیڈر شپ ایک دوسرے سے سلسلہ جنبانی آگے بڑھاتی ہے۔ پا کستان کے سربراہان مملکت و حکومت بھی یہاں عرصے سے جا رہے ہیں۔ مجھے وزرائے اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو، میاں نوازشریف اور شوکت عزیز کے علاوہ بھی کئی بار ڈیووس جانے کا موقع ملا۔ اس کے تحت ہونے والے پروگرام شراکت داروں کے اقتصادی، سیاسی معاملات سمجھنے میں ممدومعاون ثابت ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر وزیراعظم عمران خان نے ڈیووس جانے کا بہت اچھا فیصلہ کیا، ان کے اس دور ے میں سب سے اہم سائیڈ لائن ملاقات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے تھی۔ ٹرمپ اور عمران خان نے حسب سابق اچھی اچھی باتیں کیں، امریکی صدر جو جوش خطابت میں اکثر بڑھا چڑھا کر اپنی بات کرنے کے عادی ہیں اور عمران خان کی طرح ہی یوٹرن کے ماہر ہیں، نے ملاقات کے موقع پر یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان اور امریکہ کے بہترین تعلقات ہیں جو اس سے پہلے نہ تھے، انھوں نے پاکستان کے ساتھ تجارت بڑھانے اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کا بھی عندیہ دیا اور یہ وعدہ بھی کیا کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کے لیے بھرپور کوشش کریں گے۔ صدر ٹرمپ نے اسی قسم کی چکنی چوپڑی باتیں گزشتہ برس جولائی میں واشنگٹن میں عمران خان سے ملاقا ت کے موقع پر بھی کی تھیں بلکہ سیکرٹری کامرس کو ہدایت کی تھی کہ وہ بہت بڑا وفد لے کر پاکستان جائیں اور تجارت کو دگنا کر دیں۔ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو، اس میں کوئی پیش رفت ہوئی نہ کوئی امر یکی وفد آیا۔

جولائی میں امریکی صدر نے یہ کہہ کر بم شیل چھوڑا کہ بھارتی وزیراعظم مودی نے ان کو کشمیر کے معاملے پر ثالثی کرنے کا کہا ہے لیکن بھارت نے امریکی صدر کے اس دعوے کی تردید کر دی تھی۔ اب ٹرمپ کا زور صرف اس بات پر ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے بات چیت شروع کرانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ اس وقت امریکی سینیٹ میں ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی چل رہی ہے، مشرق وسطیٰ اور بالخصوص ایران اور عراق کی طرف امریکہ کی زیادہ توجہ مرکوز ہے، اس کے علاوہ امریکہ میں اسی سال نومبر میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں، اس پس منظر میں امریکی صدر کے وعدوں کو ایشیائی معشوق کے وعدوں سے زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ امریکہ کا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت افغانستان کے مسئلے کا سیاسی حل ہے تاکہ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ دعویٰ کر سکیں کہ میں نے وہاں سے امریکی فوجیں نکال لی ہیں۔ ویسے بھی امریکی صدر اس نظریئے کے پرچارک ہیں کہ امریکہ کو دوسرے ممالک میں فوج کشی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس پالیسی پر کار بند نہیں رہتا جیسا کہ ایرانی جنگجو جنرل قاسم سلیمانی کی بغداد ائر پورٹ پر امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد امریکہ اس خطے میں اپنے اڈوں میں مزید فوجیں بھیجنے اور خلیج میں ائر کرافٹ کیرئیر بھیجنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا کہ طالبان جنگ بندی سے پہلے وہاں تشدد آمیز کارروائیاں کم کرنے کو تیار ہیں لیکن جب تک وہاں ایسی حکومت نہیں بن جاتی جس میں طالبان کا بنیادی کردار ہو افغانستان کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ افغان طالبان کیونکر جوکچھ انھوں نے جنگ کر کے حاصل کیا ہے اسے مذاکرات کی میز پر کھو دیں گے لہٰذا اس معاملے میں پاکستان کا رول کلیدی ہونے کے باوجود محدود بھی ہے۔

عین اس وقت جب عمران خان ڈیووس کا دورہ کر رہے تھے قائم مقام امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ ایلس ویلز پاکستان کا دورہ کر رہی تھیں۔ اسلام آباد میں اپنے چار وزہ قیام کے دوران انھوں نے اعلیٰ حکومتی رہنماؤں، فوجی قیادت، سفارتکاروں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے ارکان سے ملاقاتیں کیں۔ میرے عزیز دوست انور بیگ نے ان کے اعزاز میں عشائیہ دیا جہاں میرے اس سوال پر کہ پاکستان کو افغانستان میں کردار ادا کرنے کے عوض ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلوانے میں امریکہ ممد ومعاون ثابت ہو گا؟ ایلس ویلز نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ ان دونوں معاملات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں، ایف اے ٹی ایف کے معاملے میں پاکستان کو مطمئن کرنا ہو گا کہ وہ ٹیرر فنانسنگ کے خلاف موثر اور فیصلہ کن کردار ادا کر رہا ہے لیکن ساتھ ہی انھوں نے امریکہ کی پاکستان کے بارے میں پالیسی کا بھانڈا یہ سوال کر کے پھوڑ دیا کہ اسلام آباد کو سی پیک، میں کیا نظر آتا ہے۔ محترمہ کے مطابق چین پاکستان کو مہنگے قرضے دے کر دونوں ہاتھو ں سے لوٹ رہا ہے۔ انھوں نے یہ بات پاکستان کی سرزمین پر پہلی بار نہیں کی اس سے پہلے بھی وہ یہ موقف کئی بار دہرا چکی ہیں۔ ایلس ویلز نے چند ماہ پہلے لاہور میں ملاقات کے دوران مجھ سے کہا کہ ہم آپ کو گرانٹ دے سکتے ہیں آپ چین سے مہنگے قرضے کیوں لے رہے ہیں؟ ۔ چین نے حسب سابق ایلس ویلز کے متنازعہ بیان کا ٹھونک بجا کر جواب دیا ہے اور سی پیک اور پاکستان کے ساتھ تعلقات میں امریکی مداخلت مسترد کر دی ہے۔ اسلام آباد میں چینی سفارتحانے یہ بھی واضح کیا کہ سی پیک میں چینی قرضے صرف دو فیصد پر دیئے گئے ہیں اور ان کی ادائیگی بھی بیس برس میں ہونی ہے۔ یقینا پاکستان جیسے چاہے اپنی اقتصادی ترقی کے لیے بطور آزاد ملک فیصلے کرنے میں خود مختار ہے۔ بعدازاں دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے بھی واضح کر دیا ہے کہ سی پیک کا قرضہ پاکستان کے مجموعی قرضوں کا دس فیصد سے بھی کم ہے، مزید برآں اقتصادی معاہدے کرنا ایک خود مختار مملکت کے طور پر پاکستان کا حق ہے۔ جب پاکستان میں کوئی سرمایہ کاری کو تیار ہی نہیں تھا تو چین سی پیک، کی صورت میں مدد کے لیے آگے آیا جس کا کریڈٹ میاں نوازشریف کی حکومت کو جاتا ہے۔ شروع میں تحریک انصاف کی حکومت نے بھی دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کی کوشش کی لیکن بعدازاں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے فیصلہ کن کردار کے نتیجے میں حکومت کا قبلہ درست ہو گیا۔

خان صاحب نے درست طور پر ڈیووس میں اپنے خطاب اور برادر اکرام سہگل کے ناشتے کی تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے کرپشن کو بہت بڑا ناسور قرار دیا۔ انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ فوج سے کشیدگی کی وجہ سابق حکومت کی کرپشن تھی۔ وزیراعظم نے یہ بھی صحیح کہا کہ ان کی حکومت کو فوج سمیت تمام اداروں کی حمایت حاصل ہے۔ نہ جانے موصوف کو یہ غلط فہمی کیوں ہے کہ میڈیا ان کی معاشی اصلاحات کا مخالف ہے، آج کل وہ ضرورت سے زیادہ میڈیا پر" مہربان "ہیں اور میڈیا کو رگیدنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے خواہ وہ بین الاقوامی فورم ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اگر وزیراعظم کے اس تجزیئے کو درست مان لیا جائے کے سابق حکومت کی کرپشن کی بنا پر فوج سے ان کے تعلقات خراب رہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ پاکستان میں جہاں نصف سے زیادہ مدت فوجی قیادتیں برسر اقتدار رہی ہیں تو کیا اس وقت بہت ایمانداری تھی لیکن اس حوالے سے ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ چشم کشا ہے جس کے مطابق کرپشن میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے جس سے پر سیپشن انڈیکس میں پاکستان کا سکور 33 سے 32 ہو گیا ہے نیز یہ کہ دس برس میں پہلی مرتبہ پاکستان کا کرپشن کرنے والے ممالک میں درجہ117سے 120ہو گیا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان پہلی بارکرپشن انڈیکس میں پیچھے گیا ہے یہ سب کچھ تو تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں ہی ہوا ہے، کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟ ۔

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (2)

By Wusat Ullah Khan