خاک ہو جائیں گے ہم
ملک بھر میں قومی اسمبلی کے 11 اور صوبائی اسمبلیوں کے23 حلقوں پر ضمنی انتخابات کو تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی پر ایک قسم کا ریفرنڈم قرار دیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے پہلے سو دن کی مہلت مانگی تھی لیکن 60 روز میں ہی کچا چٹھا سامنے آ گیا۔ لاہور میں مسلم لیگ (ن) کا قومی اسمبلی اور صوبائی کی چاروں نشستوں پر کلین سویپ برسر اقتدار تحریک انصاف کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی کی چا ر، چار مسلم لیگ (ق) نے دو اور ایم ایم اے نے ایک نشست پر کامیابی حاصل کی ہے۔ اس طرح یہ میچ "ڈرا" لگتاہے۔ پنجاب اسمبلی کی 11 نشستوں میں سے 4 تحریک انصاف، 5 مسلم لیگ (ن) نے جیتیں جبکہ 2 آزاد امیدوار کامیاب قرار پائے۔ خیبرپختونخوا کی 9 نشستوں میں سے 5 تحریک انصاف، ایک مسلم لیگ (ن) اور3 اے این پی کے حصے میں آئیں۔ سندھ کی 2 نشستوں پر پاکستان پیپلزپارٹی نے برتری حاصل کی اور بلوچستان کی 2 نشستوں میں سے ایک آزاد اور ایک بی این پی نے حاصل کی۔ ان نتائج پر بالخصوص پنجاب میں تحریک انصاف کو یقینا مایوسی ہوئی ہو گی اس کا بلاواسطہ اظہار وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اپنارد عمل دیتے ہوئے یہ کہہ کر کیاہے کہ ان کی ٹاپ لیڈر شپ میدان میں ہوتی تو نتائج مختلف ہوتے گویا کہ ہر ضمنی الیکشن میں وزیراعظم کو خود پی ٹی آئی کے امیدواروں کی مہم چلانا پڑے گی۔ ویسے یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف یا ان کی صاحبزادی مریم نواز نے بوجوہ انتخابی مہم میں حصہ نہیں لیا اور پارٹی کے سربراہ میاں شہبازشریف کو نیب کے ہاتھوں پابند سلاسل کر کے ویسے ہی آؤٹ کر دیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) اب پھر یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ شہر لاہور اس کا گڑھ ہے۔ میاں نواز شریف جو اپنی اہلیہ کے انتقال اور حالات کے باعث کچھ مضمحل نظرآ رہے تھے ان کا اعتماد بھی کسی حد تک بحال ہو گیا ہے۔ پیشی کے بعد نیب عدالت کے باہر ان کا موڈ خوشگوار تھا۔ اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حالات ایک جیسے نہیں رہتے یہ جلد بہتر ہو جائیں گے، ضمنی انتخابات واضح پیغام دے رہے ہیں کہ آنے والا وقت کیسا ہوگا؟ انہوں نے مزید کہا کہ اللہ تعالی کا شکر ہے اور میں پاکستان کے عوام کا مشکور ہوں جنہوں نے ہماری توقعات سے بڑھ کر ہمیں فتح دی۔ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی قیادت پر پابندیوں کے باوجود عوام نے ن لیگ کو ووٹ دیا۔ میرے بعد شہباز شریف اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ ہونے والا سلوک اور مقدمات سب کے سامنے ہیں۔ حکمران جماعت کو حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج کی روشنی میں اپنی حکمت عملی اور پالیسیوں پر غور کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ ٹکٹ دینے کے عمل میں کوتاہیاں تو نہیں ہوئیں؟ ۔ لگتا ہے کہ ہمایوں اختر خان کو ٹکٹ دینے کے فیصلے سے تحریک انصاف کے ووٹروں نے اتفاق نہیں کیا اور اسی لیے ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نہیں نکلے۔ ویسے ہمایوں اختر صاحب کا خود کہنا ہے کہ مہنگائی کے نئے طوفان نے انہیں ہرا دیا۔ حکمران جماعت الیکٹ ایبلز امیدواروں کو آگے لانے کے چکر میں بالکل ہی اپنے اصولوں اور نظریات کو تج کر بیٹھی ہے۔ اگر یہ نشست ہارنی ہی تھی تو بہتر تھا کہ علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال کو جو انتہائی سلجھی ہوئی سیاست کر رہے تھے اور شروع ہی سے تحریک انصاف کے ساتھ ہیں میدان میں اتار دیا جاتا۔ لیکن موصوف سے علیم خان سمیت پارٹی کی لاہور کی لیڈر شپ نالاں رہتی ہے۔ بعدازاں ولید اقبال کو کہا گیا کہ آپ کو سینیٹ میں ایڈجسٹ کر لیا جائے گا لیکن چودھری سرور کے گورنر بننے پر خالی ہونے والی نشست پر ولیداقبال کے بجائے ڈاکٹر وسیم شہزاد کو سینیٹر بنوا دیا گیا۔ اسی بنا پر ولید اقبال ہمایوں اختر کی انتخابی مہم سے عنقا رہے۔ مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا۔ جنرل اختر عبدالرحمن کا خانوادہ مسلم لیگ (ن) سے مراجعت کر کے مسلم لیگ (ق) میں گیا اور دونوں ادوار میں وزیر بنے لیکن بعد میں پھرمسلم لیگ (ن) میں آ گئے۔ پھر ٹکٹ کے وعدے پرتحریک انصاف میں چلے گئے۔ انھوں نے دولت اور ذہانت کے زور پر بڑے سائنٹیفک انداز سے اپنی انتخابی مہم چلائی اور تحریک انصاف میں نوواردہونے کے باوجود سعد رفیق کو ٹف ٹائم دیا اور پچاس ہزار ووٹ لے لئے۔ اعدادو شما ر سامنے نہیں آئے لیکن جیسا کہ کواکب بتا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کا ووٹر ہمایوں اختر کو ووٹ ڈالنے کیوں نہیں آیا، کیا وہ اپنی ساٹھ دن کی حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہو گئے ہیں؟ ۔ آخر گزشتہ دوماہ میں تحریک انصاف کی حکومت سے کیا کوتاہیاں ہوئی ہیں؟ ۔ لگتا ہے کہ اس کی کارکردگی یا عدم کارکردگی فی الحال حکومت کے گلے پڑ گئی ہے۔ یہ منترہ کہ سابق حکمران ملک کو لوٹ کر کھا گئے اور ملک کو دیوالیہ کر گئے اتنے تواتر سے دہرایا گیا کہ غالباً یہ اپنا اثر کھو بیٹھا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سابق حکومت کے پیدا کردہ مسائل اب عمران خان کی پلیٹ پر ہیں اور انھیں حل کرنے کے لیے وقت بھی درکار ہے۔ لیکن اس کے لیے ابھی تک کوئی سمت ہی متعین نہیں ہو رہی اور محض ڈنگ ٹپاؤ سٹنٹ بازیا ں کہ ہم نے صدارتی محل، وزیراعظم ہاؤس اورگورنر ہاؤسز عوام کے لیے کھول دیئے ہیں اور وہاں یونیورسٹیاں اور انسٹی ٹیوٹ بنائیں گے ووٹروں کو متاثر نہیں کرسکیں۔ عمران خان نے منتخب ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی یہ کہا تھا کہ ان کا مشن غریب آدمی کی حالت زار کو بہتر بنانا ہے لیکن ہوا اس کے قطعاً برعکس، بجلی کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگی، گیس مہنگی ہو گئی، سٹاک ایکسچینج اتنی گری کہ اربوں روپے کا نقصان ہوگیا۔ اس پر مستزادیہ کہ ڈالر کے مقابلے میں رو پے کی قیمت ایک ہی دن میں قریباً نو روپے گر گئی اس صورتحال میں غریب آدمی کی زندگی مزید مشکل ہو گئی۔ آئی ایم ایف پروگرام میں جانے میں لیت ولعل سے کام لینے نے اس تاثر کو تقویت دی کہ حکومت بروقت فیصلے کرنے کی قوت سے عاری ہے۔ بجائے اس صورتحال کا بنظر غائر جا ئزہ لے کر صورتحال کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جاتے عوام کو یہ تاثر دیا گیا کہ اربوں کی لوٹی ہوئی دولت واپس آ رہی ہے لہٰذا ان کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ وہ غریب آدمی جو توقعات وابستہ کیے ہوئے تھے وہ اس صورتحال پر بقول غالب یہی کہہ سکتے ہیں۔ ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکنخاک ہو جائیں گے ہم، تم کو خبر ہونے تکخوش قسمتی سے موجودہ حکومت کے پاس اصلاح احوال کے لیے قریباً پانچ برس پڑے ہیں۔ اسی لیے اس مرحلے پر کافی سوچ و بچار اور عرق ریزی کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہو گئی ہے پاکستان میں حکومتوں کو گوناں گوں مسائل کا سامنا ہوتا ہے لیکن شاید اس مرتبہ صورتحال کچھ زیادہ ہی گھمبیر ہے۔ ہرپارٹی کو اپنے عہد اقتدار کے ریکارڈ پر الیکشن لڑنا پڑتا ہے۔ عوام کے شعور کو بھی داد دینی چاہیے کہ انھوں نے اس مرتبہ بالخصوص شہری حلقوں میں کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دیئے ہیں۔ اس کا کسی حد تک کریڈٹ عمران خان اور پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کو جاتا ہے کہ انھوں نے ووٹر کے شعور کو تقویت دی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کو اب اپوزیشن موڈ سے نکل کر حکومتی موڈ میں آ جانا چاہیے محض نعرے بازی، ٹھٹھے بازی اور بے جا الزام تراشی سے کام نہیں چلے گا۔