جمہوریت کے نام پر
آج ملک میں 11ویں عام انتخابات ہو رہے ہیں لیکن حقیقت میں جمہوری تسلسل اورجمہوری حکومتوں کے ہوتے ہوئے یہ دوسرے عام انتخابات ہیں۔ 2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں وفاق میں پیپلزپارٹی اپنے حلیفوں کے ساتھ برسر اقتدار آئی اور پنجاب میں قرعہ فال مسلم لیگ (ن) کے نام نکلا۔ 2013ء کے انتخابات کی خصوصیت یہ تھی کہ اس سے قبل آئین کو وفاقی اور جمہوری، الیکشن کمیشن کو فعال بنانے اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے نگران حکومت کی تشکیل کے طریقہ کار کی منظور ی دی گئی تھی۔ موجودہ نگران حکومت دوسری ایسی حکومت ہے جس کو منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے لیکن اس کے باوجود یہ انتخابات وطن عزیز کی تاریخ میں منفرد نوعیت کے ہیں۔ اس میں مسلم لیگ (ن) کے روح رواں، مدارالمہام اور بانی کرپشن کے الزام میں اپنی بیٹی کے ہمراہ اڈیالہ جیل میں طویل قید کاٹ رہے ہیں، ویسے تو وہ پہلے ہی آرٹیکل 62اور 63کے تحت ایک سال پہلے سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل قرار دیئے جا چکے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ملک کے طول وارض میں ’مجھے کیوں نکالا، اور’ ووٹ کو عزت دو، کا پیغام لے کر بڑی بڑی ریلیاں اور جلسے کر رہے تھے۔ یہ سلسلہ انتخابات سے دو ہفتہ پہلے اس وقت منقطع ہو گیا جب وہ نیب عدالت سے ملزم سے مجرم ٹھہرائے گئے۔ مسلم لیگ (ن) کے حواری بعض تجزیہ کاروں اور غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے عجلت میں کیا گیا کہ میاں صاحب عام انتخابات کے انعقاد سے قبل ہی منظر عام سے بالکل عنقا ہو جائیں۔ اس حوالے سے ان کی براہ راست کوریج روکنے کیلئے میڈیا پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ یہ عام انتخابات مخصوص ماحول میں ہو رہے ہیں، اس امر کے باوجود کہ وطن عزیز میں بظاہر جمہوریت کا دور دورہ ہے مگر یہ الزام تسلسل سے لگایا جا رہا ہے کہ پیچھے سے طنابیں ہلائی جا رہی ہے اور اس میں بلاواسطہ طور پر فوج کو ملوث کیا جا رہا ہے۔ بظاہر الیکشن منصفانہ ہو رہے ہیں لیکن ان کے انعقاد سے قبل ہی انجینئرنگ، دباؤ اور تحریص کے حوالے سے ان کی شفافیت پر سوال اٹھنے شروع ہو گئے ہیں۔ فوج کے ترجمان نے اس بات کی بارہا تردید کی ہے اس کا سیاسی انجینئرنگ سے کوئی تعلق نہیں لیکن پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) مصر ہیں کہ ان کے مضبوط اور الیکٹ ایبل امیدواروں کو توڑنے میں ’خلائی مخلوق، جس سے مراد مقتدر حلقے ہیں کا ہاتھ ہے۔ ملتان سے مسلم لیگ (ن) کے ایک امیدوار رانا اقبال سراج کا اصرار ہے کہ ان کی محض اس لیے درگت بنائی گئی کہ وہ اپنی وفا داریاں بدلنے کو تیار نہیں تھے اور بعدازخرابی بسیار یہ عذر لنگ پیش کیا گیا کہ درگت بنانے والے محکمہ زراعت کے کارند ے تھے کیونکہ موصوف محکمے کے دیندار ہیں۔ دوسری طرف اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی نے دھماکہ خیز خطاب کر دیا ہے کہ ججوں پر آئی ایس آئی کا دباؤ ہے اور بینچ بھی ان کی مرضی سے بنتے ہیں۔ مقام شکر ہے کہ فوج کی درخواست پر سپریم کورٹ نے سخت نوٹس لیا ہے اور معاملے کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جہاں تک نگران حکومت کا تعلق ہے بالخصوص پنجاب میں اس کی غیر جانبداری پر شدید انگلیاں اٹھ رہی ہیں، میاں نوازشریف کی لندن سے واپسی کے موقع پر ان کا سواگت کرنے والوں کو روکنے کے لیے سارے لاہور کو محصور کر دیا گیا، کنٹینروں سے سڑکیں بند کر دی گئیں، موبائل سروس معطل کر دی گئی۔ اسی بنا پر شہبازشریف کو یہ الزام عائد کرنے کا موقع ملا کہ نگران حکومت تحریک انصاف کی بی ٹیم ہے۔ ایفی ڈرین کیس میں عجلت میں مسلم لیگ (ن) کے این اے 60 راولپنڈی سے امیدوار حنیف عباسی کو لاہور ہا ئیکورٹ راولپنڈی بینچ کے21 جولائی تک فیصلہ سنانے کے حکم پر انسداد منشیات عدالت کی طرف سے رات ساڑھے گیارہ بجے عمر قید اور نااہلی کی سزا سنانے کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے کہ یہ فیصلہ حنیف عباسی کو محض الیکشن سے پہلے نااہل کرنے کے لیے پولنگ سے دو روز قبل سنایا گیا ہے۔ دوسری طرف عمران خان بڑے دھڑلے سے ملک بھر میں جلسے کرتے رہے، وہ عوام کو ایک کرپشن فری نیا پاکستان بنانے کی نوید دے رہے ہیں۔ رائے عامہ کے جائزے بھی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں اب برتری حاصل ہے اور جیتنے کے لیے عمران خان نے جتنے پاپڑ بیلے اور جتنے ان کے لیے بیلے گئے ہیں، انکی روشنی میں تجزیہ کار پی ٹی آئی کو’کنگزپارٹی، کے طور پر تعبیرکر رہے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ غیر ملکی میڈیا جس میں نیویارک ٹائمز، اکانومسٹ، وال سٹریٹ جرنل، سنڈے ٹائمز اور گارجین شامل ہیں بھی گردان کر رہے ہیں کہ انتخابات میں فوج کی مداخلت نمایاں ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس قسم کے قصے بڑے تسلسل سے چل رہے ہیں۔ جوابی طور پر یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ سب کچھ بیرونی طاقتوں کے پاکستان میں ایجنٹوں کی الیکشن میں حمایت کیلئے کیا جا رہا ہے۔ ہر بات میں یہود وہنود کی سازش نظر آنا ہمارا قومی وتیرہ بن گیا ہے اور یہ طرزعمل مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی سے آج تک جاری ہے۔ یہ نہیں سوچا جاتا کہ عمل سے ثابت کیا جائے کہ ایسا نہیں ہے لیکن جس قسم کی بساط بچھائی گئی ہے اس میں تو ایسے منفی اثرات کو تقویت ہی ملتی ہے۔ ویسے تو یہ عمران خان سے بھی ایک قسم کی زیادتی ہے۔ وہ نوجوانوں، پڑھے لکھے طبقہ اور عوام کی خاصی تعداد کے مقبول لیڈر ہیں، نوجوانوں میں خاص طور پر مقبول ہونے اور اپنی سحرانگیز شخصیت کی بنا پر بھی بیساکھیوں کے بغیر الیکشن جیت سکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم دوسری طرف تمام تر تعزیری کارروائیوں کے باوجود مسلم لیگ ن کا شیرازہ نہیں بکھرا اور ان کے جلسوں میں رونق کے لحاظ سے دیکھا جائے تو مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک میں کوئی بڑی کمی نہیں ہوئی اور اس کے بچے کھچے امیدوار بھی قائم دائم ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس بار انتہائی متانت اور سنجیدگی سے اپنی انتخابی مہم چلائی ہے، دوسرے سیاسی رہنماؤں کی طرح اپنے کسی مخالف پر دشنام طرازی نہیں کی، اگرچہ انہیں یہ علم تھا کہ وہ بالخصوص پنجاب میں جیت تو نہیں سکتے لیکن انہوں نے پارٹی ورکروں کو متحرک کر دیا ہے، لگتا ہے کہ انہوں نے آئندہ انتخابات کی تیاری کی ہے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے ہیں۔ دہشت گردی کا منحوس سایہ تو پچھلے عام انتخابات میں بھی چھایا ہوا تھا جس کا زیادہ نقصان برسر اقتدار جماعت پیپلزپارٹی کو ہوا تھالیکن حالیہ انتخابی مہم کے دوران جس انداز سے داعش اور تحریک طالبان پاکستان نے دہشت گردی کا بازار گرم کیا اس کی پہلے مثال نہیں ملتی اور اس مرتبہ قریبا ًتمام سیاسی جماعتیں ٹارگٹ ہیں۔ بلوچستان کے شہر مستونگ میں کارنر میٹنگ پر خودکش حملے میں سراج رئیسانی سمیت قریبا ً150افراد شہید ہوئے تھے۔ یہ خودکش حملہ صوبے کی تاریخ کا بدترین دہشت گردی کا واقعہ ثابت ہوا ہے۔ اس سے قبل خیبر پختونخوا میں ہارون بلور سمیت 14 افراد خودکش دھماکے میں شہید ہوئے۔ اکرم درانی پر دو مرتبہ حملے ہو چکے ہیں، خوش قسمتی سے وہ محفوظ رہے۔ گزشتہ اتوار کو ہی ڈیرہ اسماعیل خان میں تحریک انصاف کے امیدوار اکرام اللہ گنڈاپور کو خود کش حملے میں شہید کر دیا گیا۔ اس حوالے سے سکیورٹی اداروں اور نگران حکومت کو کچھ زیادہ محتاط ہونا چاہیے تھا اور اسے انٹیلی جنس ناکامی بھی کہا جا سکتا ہے۔ جہاں تک پاک فوج کو پولنگ سٹیشن کے اندر متعین کرنا ضروری ہے لیکن اس سے زیادہ عام انتخابات کو پرامن بنانے کے لیے پولنگ سٹیشن کے باہر اس کا رول زیادہ کلیدی ہو گا۔ پہلے ہی دہشتگردی کی مسلسل کارروائیوں نے انتخابی مہم کو کچھ گہنا سا دیا ہے، انتخابی جوش و خروش بھی 2013ء کے انتخابات کے مقابلے میں نسبتاً کم ہے اور خدشہ ہے کہ پولنگ کے دوران ٹرن آؤٹ بھی نسبتاً کم ہو گا۔ ا ن تمام باتوں کے علاوہ ایک اور انفرادیت ایسی مذہبی تنظیموں کا انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لینا ہے جو یا تو کالعدم ہیں یا ان کا اقوام متحدہ کی پابندی زدہ تنظیموں میں شمار ہوتا ہے۔ اہلسنت و الجماعت پر پابندی ہٹا کر انھیں عام انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی۔ اس طرح حافظ سعید کے برخوردار، داماد اور جماعت الدعوۃ کے دیگر رہنما اللہ اکبر تحریک کے بینر تلے الیکشن لڑ رہے ہیں اور تحریک لبیک نے بھی وسیع پیمانے پر اپنے امید وار کھڑے کئے ہیں۔ ویسے تو ایسی جماعتیں ’مین سٹریم، میں آ جائیں تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر یہ کثیر تعداد میں پارلیمنٹ میں آ کر یہی نعرہ لگائیں گے کہ ہم تو مغربی جمہوری نظام کی مخالفت کرتے ہیں تو یہ اچھی ڈویلپمنٹ نہیں ہو گی۔ آج تمام ادارے شفاف الیکشن کا انعقاد یقینی بنا رہے ہیں لیکن اس سے قبل جو سیاسی انجینئرنگ کی گئی اس پر سوالات اٹھتے رہیں گے، جب عوام اپنے ووٹ ڈالیں گے تو امید ہے کہ اس کا جو بھی نتیجہ نکلے وطن عزیز میں جمہوریت کو فروغ حاصل ہو گا لیکن اگر اس کے بعد نتائج متنازعہ ہو گئے یا’ ہنگ پارلیمنٹ، وجود میں آئی جس کے نتیجے میں کوئی بھی کھل کر نہ کھیل سکے تو اس سے جمہوریت کمزور ہو گئی اور یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا جمہوریت کے نام پر ہی جمہوریت کا قتل عام ہوا ہے۔ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی نے الیکشن کمیشن کے تازہ احکامات کہ خواتین کے پولنگ سٹیشنز میں صرف خاتون پولنگ ایجنٹس ہی جا سکیں گی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان جماعتوں کے مطابق الیکشن سے عین قبل الیکشن کمیشن کا یہ اقدام متنازعہ ہی قرار دیا جائیگا اور عام انتخابات کی شفافیت پر دھبہ لگ جائے گا۔ خواتین پولنگ سٹیشنز پر دھاندلی کی شکایات پہلے بھی زیادہ ہوتی ہیں لیکن تازہ اقدام سے ووٹوں کی پچاس فیصد تعداد پر جھرلو پھیرنے کا چور دروازہ نکل آئے گا۔ پیپلزپارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر کے مطابق اس طریقہ کار سے پولنگ سٹیشنز سٹاف کے رحم و کرم پر ہونگے کہ وہ جو مرضی کھیل کھیلیں۔ دلچسپ بات یہ کہ اس مسئلے کے باوجود فوجی جوان پولنگ سٹیشنز کے اندر ہی متعین رہیں گے۔