Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Arif Nizami
  3. Jaamid Iqtisadi Sargarmiyan

Jaamid Iqtisadi Sargarmiyan

جامد اقتصادی سرگرمیاں

صنعتی پہیہ بدستور تقریباً جام رہنے اور رواں مالی سال ترقیاتی منصوبوں میں بڑی کٹوتیوں کے سبب ملک میں بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ تازہ اعدادوشمارکے مطابق پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 5.9 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ حکومت کے اپنے ادارے، ادارہ شماریات کے مطابق 2016 میں یہ شرح چار فیصد تھی۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ برس پانچ لاکھ گریجوایٹ بے روزگار ہوئے۔ ظاہر ہے نوکریاں درختوں پر نہیں لگتیں، غربت اور پسماندگی میں پسے ہوئے عوام کساد بازاری اورانحطاط کے اس دور میں پبلک سیکٹر میں ہی ملازمتوں کے خواہشمند ہوتے ہیں، اسی لیے ارکان اسمبلی پر بھی دباؤ ہوتا ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقوں کے نوجوانوں کو نوکریاں فراہم کریں۔ وزیر اعظم عمران خان کو بھی ایک زیرک سیاستدان کی طرح اس کا احساس ہے کہ نوجوان روزگار کے متلا شی ہیں اور انھوں نے بھی الیکشن کے دوران اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا کہ اگر وزیرا عظم بن گیا تو ایک کروڑ نوکریاں دوں گا۔ ان کے وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا بھی حال ہی میں دعویٰ کر چکے ہیں اتنی نوکریاں ہونگی کہ لوگ نہیں ملیں گے لیکن وزیرسائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے اپنی روایتی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے ٹکا سا جواب دے دیا کہ نوکریاں دینا ہمارا کام نہیں یہ پرائیویٹ سیکٹر کاکام ہے۔ وزیر اعظم نے اس بیان پر کابینہ کے حالیہ اجلا س میں ان کی سرزنش بھی کی۔ وزیر ریلوے شیخ رشید احمدنے تو حد ہی کردی، انھوں نے اعلان کیا کہ ریلویز میں 845 نئی اسامیوں پر قرعہ اندازی کے ذریعے بھرتیاں کی جائیں گی۔ لاہور ہائیکورٹ میں ریلویز ایمپلائز یونین نے میرٹ کے بجائے لاٹری کے ذریعے بھرتیوں کا شیخ صاحب کی شیخی کا پول کھول دیا۔ چونکہ یہ عجیب "اتفاق" ہے کہ ان آٹھ سو پینتالیس میں سے چار سو اسامیاں شیخ رشید اور ان کے بھتیجے شیخ شفیق کے حلقوں سے ہی پوری کر لی گئیں، یقینا دال میں کچھ کالا ہے، میرٹ میرٹ کی گردان کرنے والی حکومت کے ذمہ دار وزیر جو اپنے مخالفین پر طعن وتشنیع کے تیر برساتے اور انھیں کرپٹ قرار دیتے رہتے ہیں نے خود میرٹ کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔ واضح رہے کہ وفاقی کابینہ کی سفارش پر چندماہ قبل اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے سول سرونٹس کی تقرری کے قانون میں ترمیم کردی تھی جس کے تحت گریڈ ایک سے 5تک اسامیاں قرعہ اندازی کے ذریعے پُرکی جا سکتی ہیں لیکن اب لاہور ہائیکورٹ نے یہ تعیناتیاں معطل کر دی ہیں۔

ایک اخباری اطلاع کے مطابق جب تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا اس وقت سرکاری اداروں میں ایک لاکھ 7ہزار اسامیاں خالی پڑی تھیں لیکن ان کو پُر کرنے کا یہ طریقہ دھاند لی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ایک طرف تو کہا جا رہا ہے کہ نجی شعبہ نوکریاں دے لیکن ایسے ماحول میں جبکہ ہر طرف مندا ہی مندا ہوتو نوکریاں کہاں سے پیدا ہونگی۔ میڈیا کا شعبہ ہی لے لیں، کئی چینلز اور اخبار بند ہو گئے یا بند ہونے کے قریب پہنچ گئے ہیں اور جوبند نہیں ہوئے وہ بھی سسک سسک کر گزاراکر رہے ہیں۔ ہزاروں میڈیا ملازمین بھی ڈاؤن سائزنگ کی وجہ سے بے روزگاری اور معاشی کسمپرسی کا شکار ہیں۔ "92، گروپ کے سوا اکثراداروں میں کئی مہینوں کی تنخواہ نیچے رکھی جارہی ہے۔ میڈیا کی اس کسمپرسی کی بڑی وجہ حکومت اور نجی شعبے کے اشتہارات کے بجٹ میں زبردست کٹوتی ہے۔ اس تناظرمیں آ ٹو سیکٹر کو ہی دیکھا جائے تو وہاں یہ حال ہے کہ گاڑیوں کی مانگ 50فیصد تک کم ہوچکی ہے کیونکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت گرنے کی وجہ سے گاڑیوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔ حتیٰ کہ اب گاڑیاں بنانے والی بڑی بڑی کمپنیاں جوپہلے گاہکوں سے پو ری قیمت ایڈوانس وصول کر کے ایک ایک سال بعد ڈیلیوری دیتی تھیں اور بینکوں میں یہ رقوم رکھ کر سود سے بھی فائدہ اٹھاتی تھیں اب وہ بھی اشتہارات کے ذریعے ترغیب دے رہی ہیں کہ گاڑیاں فوری ڈیلیوری کے لیے تیار ہیں اور ان کی قیمت قسطوں میں بھی ادا کی جا سکتی ہے۔ آٹو سیکٹر میں کمی کی وجہ شرح سود میں اضافہ بھی ہے۔ پاکستان کی اکانومی جب پھل پھول رہی تھی تب شرح سود کم تھی، افراط زر سنگل ڈیجٹ میں تھا، لوگ مختلف بینکوں کی کار لیزنگ سکیموں کے تحت دھڑا دھڑ گاڑیاں خرید رہے تھے اور اب توان میں سے اکثر کے پاس پٹرول کے پیسے بھی نہیں ہیں۔ بڑی صنعتوں میں شٹ ڈاؤن کی وجہ سے اپ سٹریم اور ڈاؤن سٹریم منسلک صنعتیں بھی شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ گاڑیوں کے پارٹس اور دوسرا سامان بنانے والی صنعتیں بھی ملازمین کی چھانٹیاں کر نے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ فیصل آباد میں پاور لوم فیکٹریاں بند پڑی ہیں۔ یہی صورتحال قریباً صنعت کے تمام شعبوں میں ہے۔ جب صنعت کار اور تاجر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہوں تو نئی ملازمتیں کہاں سے پیدا کریں گے۔

ایک امریکی اخبار وال سٹریٹ جنرل کے مطابق سود کی شرح دوگنی کردی گئی ہے جو ایشیا میں سب سے زیادہ 13 فیصد ہے اور روپیہ گھٹ گیا ہے۔ عمران خان کے اقتدار سنبھالنے کے ایک سال بعدمہنگائی تقریبا تین گنا ہوگئی ہے، اور معاشی نمو نصف سے بھی کم ہوکر 2.4 فیصد ہوگئی ہے۔ ماہرین معاشیات سوال کرتے ہیں کہ کیا معیشت کو دوبارہ ٹریک پر لانے کے لئے کوئی حکمت عملی موجود ہے؟۔ دکانداروں کا کہنا ہے کہ درمیانہ طبقہ مر رہا ہے۔ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیاہے، بجلی کے بلوں نے بھونچال پیدا کر دیا ہے اس صورتحال میں لوگوں کے پاس دوسری کوئی چیز خریدنے کیلئے کچھ بچتا ہی نہیں۔ سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کے اندازے کے مطابق عمران خان کی حکومت کے دوسرے سال کے اختتام تک 20 لاکھ لوگ اپنی ملازمت سے محروم ہوچکے ہوں گے اور 80 لاکھ تک غربت کی لپیٹ میں آجائیں گے۔ آئی ایم ایف کا وفد بھی نیا ڈنڈا لے کر اگلے ماہ پھرپاکستان آرہا ہے تا کہ پہلے کوارٹرمیں اپنے پروگرام پر عمل درآمد کا جائزہ لے سکے۔ آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت اقتصادی ڈھانچے میں تبدیلیاں ناگریز ہیں اور اس کا جائزہ لینے کے لیے آنے والے آئی ایم ایف کے مڈل ایسٹ اور سنٹرل ایشیا کے ڈائر یکٹر جہادازور Jihad Azous کاکہنا ہے کہ ان اصلاحات کے بغیر پاکستان کی اکانومی مضبوط بنیادوں پر کھڑی نہیں ہوسکتی۔ اگرچہ آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر نے پاکستان کی اقتصادی کارکردگی پر اطمینان کا اظہا ر کیا ہے، تاہم میکرو لیول پر تو کچھ نہ کچھ استحکام آ رہاہے لیکن عوام کا کچومر بدستور نکل رہا ہے۔ آئی ایم ایف بڑے فخر سے کہتا ہے کہ مصرمیں اس کا پروگرام بڑاکامیاب رہا ہے۔ واضح رہے کہ سٹیٹ بینک کے موجودہ گورنر رضا باقر ہی وہاں آئی ایم ایف کے کنٹری ہیڈتھے لیکن وہاں عام آدمی اس قدر پس گیا ہے کہ وہ سڑکوں پر آنے پر مجبور ہو گئے۔ اگرچہ ان کی تعداد تھوڑی تھی لیکن مصر کے صدر السیسی نے گھبراہٹ میں سینکڑوں افراد کو گرفتار کر لیا۔

ہمارے صنعت کاروں اور تاجروں کی کثیر تعداد نے ایس آر او کلچر میں ہی ترقی کی ہے وہ اب بھی حکومتی پالیسیوں کی بیساکھیوں کے منتظر ہیں۔ حال ہی میں جب حکومت کی یقین دہانیاں کام نہ آئیں تو فوج کے سربراہ نے کاروباری حضرات کو کھانے پر مدعو کر کے یقین دلایا کہ نیب آ پ کو آئندہ تنگ نہیں کرے گا، اس حوالے سے حسب وعدہ 6صنعت کاروں پر مشتمل کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے جن میں افتخار ملک، عاطف باجوہ، سکندرمصطفی، انجم نثار، انجینئردارو خان اچکزئی اور جمیل یوسف شامل ہیں۔ اس کے بعد صنعت کار کم از کم نیب کا بہانہ نہیں بنا سکیں گے لیکن حکومت کو ان کی جائز مشکلات دور کرنی چاہئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کے لیے مجموعی ماحول کو بہتر بنانا ہو گا جس کے لیے مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کے حوالے سے اپوزیشن کی محاذآرائی، ملک میں پکڑدھکڑ کا ماحول ممدومعاون ثابت نہیں ہو گا۔ اس صورتحال میں بے روزگاری بڑھے گی کہیں ایسا نہ ہو کہ مایوس عوام سڑکوں پر نکل آئیں اوراس وقت اپوزیشن کی جوبڑی جماعتیں سسٹم کے اندر ہی چلناچاہتی ہیں، حالات ان کے بھی قابو سے نہ نکل جائیں۔

Check Also

Lathi Se Mulk Nahi Chalte

By Imtiaz Ahmad