انقلابات ہیں زمانے کے!
تازہ خبر آئی ہے، خضر ہمارا بھائی ہے۔ عمران خان اور چودھری برادران بھائی بھائی ہو گئے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی جو کل تک چودھری محمد سرور، عثمان بزدار اور شفقت محمود پر مشتمل کمیٹی سے مذاکرات کرنا تو کجا اسے تسلیم کرنے کو بھی تیار نہیں تھے، اچانک جھاگ کی طرح بیٹھ گئے، نئی کمیٹی سے مذاکرات کے پہلے دور میں ہی سب کچھ طے ہو گیا۔ اب مذاکرات کے مابعد چودھری صاحب کا لہجہ یکسر تبدیل ہو گیا ہے۔ جہانگیر ترین کمیٹی سے(جن کے باقاعدہ منٹس بننے کے بعد فوری طور پر عمل درآمد شروع ہو گیا تھا) طے شدہ معاملات ٹوٹنے کے بعد اور نئی کمیٹی کی تشکیل پر چودھری برادران فطری طور پر سخت برہم تھے اس کے فوراً بعد سی پی این ای کی قائمہ کمیٹی سے بات چیت کرتے ہوئے پرویز الٰہی بڑے نالاں تھے، ان کے مطابق تحریک انصاف وعدہ خلافی کی مرتکب ہوئی ہے اور طے شدہ امور دوبارہ کھول دیئے گئے ہیں۔ انہوں نے حکومت کی خراب گورننس پر بھی کڑی تنقید کی تھی۔ چند روز قبل ہی چینل 92 نیوز کی سالگرہ پر جب میں نے ان کا انٹرویو کیا تب بھی چودھری صاحب نے عمران خان کے بارے میں یہ کہا کہ جب حکمرانوں میں میں، اورمیں، کے ساتھ ٹیں آ جاتی ہے وہیں سے معاملہ خراب ہوتا ہے لیکن پیر کو کامیاب مذاکرات، کے بعد ان کا لہجہ تبدیل ہو چکا تھا۔ اب ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو مختلف قسم کے چینلجز کا سامنا ہوتا ہے اسی لیے جو بھی صورتحال پیدا ہوئی ہم( یعنی تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق) اس کا اکٹھے مل کر سامنا کریں گے اور باہمی صلاح مشورے سے حل نکالیں گے۔ چودھری صاحب نے یہ بھی کہا کہ ہمارے دلوں میں عمران خان کی قائدانہ صلاحیتوں، جدوجہد اور نیت کے بارے میں قطعاً کوئی شبہ نہیں۔ حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک کا کہنا تھا چھوٹی چھوٹی باتیں تھیں جن سے لوگوں نے بڑی غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی، ہمارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں، سب معمولی مسئلے تھے جنہیں مل بیٹھ کر حل کرنا ہے اور وہ تمام باتیں ہو گئی ہیں، ہم آئندہ بھی مل کر مسئلے حل کرینگے، اتحادیوں سے رابطے نہ رہیں تو مسئلہ خراب ہوتا ہے، ہم نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ آتے رہیں گے اور ملکر فیصلے بھی کرینگے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب یہ غلط فہمی دور ہو گئی ہے کہ ہمارے اتحادی ساتھ نہیں، ایم کیو ایم، ق لیگ اور بی این پی بھی کہیں نہیں جا رہے، یقین دلاتے ہیں آئندہ تین سال اتحاد جاری رہیگا۔
اپوزیشن جو بڑی دلچسپی کے ساتھ تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے درمیان سر پٹھول دیکھ رہی تھی اب تو یہی ورد کرتی کر سکتی ہے کہ دیکھنے ہم بھی گئے پر تماشا نہ ہوا، ، یہ تماشا کیونکر نہ ہوا۔ اس کا اشارہ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں دے دیا تھا۔ جس مد اری کے حکم پر کٹھ پتلی کا یہ تماشا ہو رہا تھا اب وہ ختم کرا دیا گیا ہے۔ چودھری برادران اب اسی تنخواہ پر کام کریں گے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پرویز الٰہی کو پسپائی اختیار کرنا پڑی ہو۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب میاں نوازشریف وزیراعلیٰ اور پرویز الٰہی وزیر بلدیات تھے اس وقت بھی انہوں نے نوازشریف کے خلاف اچانک علم بغاوت بلند کیا تھا۔ اسی دوران جنرل ضیاء الحق لاہور کے دورے پر آئے اور انہوں نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ نوازشریف کا کلہّ مضبوط ہے۔ اسی کے ساتھ ہی پرویزالٰہی کی بغاوت کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ وہی پرویزالٰہی جو نوازشریف کو کسی قیمت برداشت کرنے کو تیار نہیں تھے، نے میاں صاحب کو گجرات آنے کی دعوت دی اور چناب کے پل سے ان کی گاڑی کو کندھوں پر اٹھوا کر گلپاشی کرتے ہوئے ظہورالٰہی پیلس گجرات لے کر جایا گیا تھا۔ انقلابات ہیں زمانے کے!۔
جہانگیر ترین کی سربراہی میں کمیٹی سے تحریک انصا ف والوں کو یہ گلہ تھا کہ وہ سب کچھ مان آئے ہیں جو پارٹی کے دو ررس مفادات کے خلاف جائے گا۔ خان صاحب جو جہانگیر ترین کمیٹی کے ساتھ کئے گئے معاہدے پر صاد کر چکے تھے، نے ایک اور یو ٹرن لیا اور نئی کمیٹی تشکیل دے ڈالی۔ اب چودھری صاحب نے اپنی میڈیا ٹاک میں اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ ان کے ساتھ کئے گئے وعدوں اور معاہدوں کا نئی کمیٹی نے پاس رکھنے کا یقین دلایا ہے یا نہیں۔ واضح رہے کہ مسلم لیگ (ق) کو پنجاب کے چار اضلاع گجرات، منڈی بہاؤالدین، چکوال اور بہاولپور کا انتظامی کنٹرول دیا جانا تھا۔ اسی طرح بیوروکریسی کے تقرر وتبادلوں میں بھی مسلم لیگ (ق ) کی مرضی شامل ہو گی۔ اسی طرح چودھری صاحب کا گلہ تھا کہ پنجاب میں ان کی پارٹی کے دو وزراء اور وفاق میں ایک وزیر طارق بشیر چیمہ کو بااختیار بنایا جائے گا۔ چودھری صاحب نے جہانگیر ترین کے ساتھ معاہد ے پر عمل درآمد کے لیے ایک ہفتے کا الٹی میٹم دیا تھا جو خاموشی سے گزر گیا اب ان شرائط کی تکمیل کا کوئی ذکر نہیں کیا جا رہا۔ گویاکہ اب چودھری صاحب پرانی تنخواہ پر کام کرنے پر راضی ہوگئے ہیں۔
جہانگیر ترین بھی بھولے بادشا ہ نکلے، انہیں کیا معلوم تھا کہ وہ جو معاہدہ کر رہے ہیں محض وقت گزاری کیلئے ہے۔ خان صاحب کا یہ اندازہ درست نکلا کہ چودھری برادران حکم کے غلام ہیں، انہیں وہی کچھ کرنا پڑے گا جو ان سے کہا جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔ درپردہ کچھ پیغامات سے معاملہ حل ہو گیا۔ ظاہر یہ ہے کہ جہانگیر ترین سے زیادہ خان صاحب کو اپنی پارٹی کا مفاد زیادہ عزیز ہے۔ لہٰذا وزیراعظم نے انہیں " ڈچ" کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی لیکن محض حلیفوں سے سیز فائر ہونے سے موجودہ حکومت کو درپیش مسائل حل نہیں ہو پائیں گے۔ پارٹی کے اندر بھانت بھانت کی بولیاں اٹھنے کی آوازیں ابھی بند نہیں ہوئیں۔ ڈسپلن کا یہ حال ہے کہ ایک طرف حکمران جماعت کی اکثریت یہ کہتی ہے کہ بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو سرعام پھانسی دی جائے جبکہ دوسری طرف شیریں مزاری اور فواد چودھری فرماتے ہیں کہ ایسا کرنا غیر انسا نی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے جب نیب آرڈیننس کے حوالے سے اپنی سفارشات دی تھیں اس وقت فواد چودھری کا کہنا تھا اسلامی نظریاتی کونسل کی کارکردگی پر سنجیدہ سوالات ہیں، آج تک مذہبی طبقات کی سوچ کو نظریاتی کونسل سے کوئی رہنمائی نہیں ملی، ایسے ادارے پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کا جواز میری سمجھ سے بالاتر ہے، اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل نو کی ضرورت ہے، جدید تقاضوں سے ہم آہنگ، انتہائی جید لوگ اس ادارے کو سنبھالیں۔ اسی طرح خیبر پختونخوا میں دو سینئر وزراء نے وزیراعلیٰ محمود خان کے خلاف کھلم کھلا علم بغاوت بلند کردیا تھا۔
آئی ایم ایف کی ٹیم سے اسلام آباد میں پالیسی معاملات پر مذاکرات جاری ہیں۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کے چھ ارب کے قرضے کی تیسری قسط حاصل کرنے کے لیے دو سو ارب روپے کے نئے ٹیکسز، نیز بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ کرنا ہو گا۔ لیکن اس وقت مہنگائی افراط زر اور بیروز گاری نے عوام اور کاروباری طبقے کا خون چوس لیا ہے اور اکانومی میں نئے ٹیکس لگانے کی سکت ہی نہیں ہے۔ خان صا حب کو بالآخر اشیائے خورونو ش کی قیمتوں میں ایک ماہ جنوری میں 14 سے22 فیصد اضافے سے کچھ تشویش لاحق ہوئی ہے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے کچھ اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے۔ یوٹیلیٹی سٹورز اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے عوام کے محدود طبقے کو کچھ نہ کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔ لیکن مہنگائی اور بے روزگاری کے اژدہا کو لیپا پوتی جیسے اقداما ت سے کنٹرول کرنا ناممکنات میں شامل ہے۔ جب تک اکانومی کا پہیہ نہیں چلتا حکومتی اور پارٹی ترجمانوں کو نئی سبیل دینے سے معا ملا ت حل نہیں ہونگے۔