Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Arif Nizami
  3. Imran Khan Ehtiat Se Kaam Lain Ge

Imran Khan Ehtiat Se Kaam Lain Ge

عمران خان ،احتیاط سے کام لیں گے؟

تحریک انصاف کے سربراہ نے کراچی میں اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک مقامی روزنامے سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی روایتی شعلہ نوائی سے ہٹ کر کچھ باتیں کی ہیں۔ عمران خان کے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا سے انٹرویوز کے دوران طرز خطابت میں فرق صاف ظاہر ہو جاتا ہے۔ رپورٹر نے اکثر اینکرز کے برعکس کچھ پرُمغز سوال کیے اور خان صاحب نے ان کے ویسے ہی جواب دیئے۔ انھوں نے زیادہ تر اپنے مخالفین اور الیکٹرانک میڈیا پر اٹھنے والے اعتراضات کا مدلل انداز میں جواب دیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ الیکٹ ایبلز اور سرمائے کے بغیر الیکشن نہیں جیتا جا سکتا۔ جب میں نے30 اکتوبر 2011ء کو مینار پاکستان پر ان کے جلسے سے ایک شام پہلے ان کا انٹرویوکیا تو اس وقت عمران خان نسبتاً ایک ناتجربہ کار اور آئیڈیلسٹ نئے سیاستدان تھے، ان کا نظریہ سیدھا سادا تھا کہ میں زبردست تبدیلی کا پیامبر بنوں گا۔ اگلے روز جلسے میں بھی انھوں نے اس تھیم کو دہرایا اور اسی جلسے سے ان کے نئے سیاسی سفر کا آغاز ہوا جو بالآخر نوازشریف کو لے بیٹھا۔ پھرآہستہ آہستہ ان پر یہ عقدہ کھلا کہ آئیڈیل ازم کے ڈسے ہوئے نوجوانوں، مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کی تائیدوحمایت سے چھوٹی موٹی تحریک تو چلائی جا سکتی ہے، ہلچل پیدا کی جا سکتی ہے لیکن عام انتخابات جیتنے کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ ہر سیاسی جماعت کو ایسے لوگوں کی ضرورت رہتی ہے جو سرمایہ بھی لگا سکیں اور الیکشن بھی جیت سکیں، اسی لیے عمران خان نے اپنے اردگرد بعض بہت امیر، متمول اور پیسہ خرچ کرنے کی صلاحیت رکھنے والوں کو اپنا دست راست بنایا۔ یہیں سے یہ مذاق اڑا کہ یہ سب تو خان صاحب کی اے ٹی ایم مشینیں ہیں۔ 2014ء کے دھرنے کے دوران امپائر کے انگلی نہ اٹھانے کے نتیجے میں ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کے سربراہ نے فیصلہ کیا کہ اگلے انتخابات جیتنے کے لیے آئیڈیل ازم کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندی بھی ضروری ہے اور انتخابات میں کامیابی کے بغیر تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ یہیں سے پارٹی میں لوٹوں کا زور شروع ہوا جن کو الیکٹ ایبلز کے دور کا آغاز کہا جا سکتا ہے۔ میاں نوازشریف نے ’پاناما لیکس، کے چکر میں پھنس کر جو بالا ٓخر ان کی نااہلی پر منتج ہوا، خان صاحب کے لیے راستہ ہموار کر دیا۔ مزید برآں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے ساتھ تعلقات میں میاں صاحب کا بگاڑ بھی عمران خان کیلئے باعث رحمت ثابت رہا ہے۔ اب ایسی بساط بچھائی جا چکی ہے جس میں عمران خان سے زیادہ فوجی قیادت میاں نوازشریف اور ان کے طرز سیاست سے الرجک لگتی ہے۔ عدالتوں اور نیب سے بھی شریف فیملی کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا۔ حالیہ انتخابی جائزوں کے مطابق بھی ووٹروں کے لحاظ سے پی ٹی آئی مقبولیت میں مسلم لیگ (ن) سے آگے نہیں تو کم ازکم برابر ضرور ہو گئی ہے۔ یہ عمران خان کے لیے اچھی خبر ہے۔ اپنے انٹرویو میں انھوں نے ملائیشیا کے مردآہن اور حال ہی میں دوبارہ اقتدار میں آنے والے مہاتیر محمد کی مثال دی ہے کہ اگر مضبوط اور دیانت دار لیڈر شپ ہو تو پارٹی کے سب لوگوں کو اس کی تقلید کرنی پڑتی ہے اور ان کا ایسی ہی لیڈرشپ دینے کا ارادہ ہے لیکن دوسری طرف شاید محترم پاکستان اور برصغیر کے مخصوص سیاسی کلچر سے واقف نہیں ہیں۔ ملائیشیا کے مہاتیر محمد، سنگاپور کے لی کان یو، جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا اور ترکی کے طیب اردوان اور اس قسم کی مثالیں ایک مخصوص طبقے کی طرف سے دی جاتی ہیں۔ پاکستان کے سارے لیڈر نالائق تھے اور نہ ہی کرپٹ لیکن حسین شہید سہروردی سے لے کر آج تک کسی کو پنپنے ہی نہیں دیا گیا۔ مضبوط لیڈر شپ کے لیے لیڈر کی ہر قومی ادارے پر سویلین بالادستی ضروری ہے جو پاکستان میں کم ہی میسر ہو سکی ہے۔ عمران خان نے مضبوط لیڈرشپ کے ضمن میں ذوالفقار علی بھٹو کی مثال بھی دی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ فوج پر بالادست بھی تھے، کسی حد تک ان کی یہ بات درست بھی ہے لیکن اس وقت آدھا ملک گنوا کر فوج کا مورال پست تھا لیکن پھر اسی فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر ایسا شب خون مارا کہ قوم آج41 برس گزرنے کے بعد بھی اس گرداب سے نہیں نکل پائی۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی اندرونی پالیسیوں کے معاملے میں سخت گیر تھے اور یہی ان کے زوال کا باعث بنا۔ یہی حال جنرل ایوب خان کے مضبوط مرکز جس سے ملک دولخت ہو گیا کا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے تو بھٹو کو پھانسی چڑھا، سیاستدانوں کو کوڑے مار کر اور سیاسی جماعتوں کو خلاف اسلام قرار دے کر رہی سہی کسر پوری کردی۔ جہاں تک پرویز مشرف کا تعلق ہے انھوں نے بھی حسب توفیق ڈنڈا چلایا لیکن تمام آمروں کی جمہوریت کش پالیسیوں کے باوجود پاکستانی عوام کے دماغ سے جمہوریت کا کیڑا نکالانہیں جا سکا۔ مہاتیر محمد نے بلاشبہ ملائیشیا کو بہت ترقی یافتہ ملک بنا دیا لیکن اس کے لیے انھیں خاصی سختی بھی کرنا پڑی۔ انھوں نے اپنے ہونہار جانشین انور ابراہیم کو اخلاقی جرم کے مقدمے میں کئی برس پابند سلاسل رکھا۔ حالیہ انتخابات میں شکست کھانے والے سابق وزیراعظم نجیب رزاق کی گرفتاری اور ان پر کرپشن کے الزامات میں مقدمات کی بھر مار کے بعد اب مہاتیر محمد اور انور ابراہیم میں صلح صفائی ہو گئی ہے، انورابراہیم اب پھر 92 سالہ مہاتیر محمد کی جگہ لیں گے۔ امید ہے کہ خان صاحب نیا پاکستان بنانے کی خاطر سیاسی آزادیوں اور جمہوریت کا قتل عام نہیں کریں گے۔ حال ہی میں میڈیا کے کچھ حصے اور بعض صحافیوں پر لگنے والی چند پابندیوں پر عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے چپ سادھ رکھی ہے یہ کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ جس انداز سے موصوف تشریف لا رہے ہیں ان پر کنگز پارٹی ہونے کا الزام بھی لگایا جا رہا ہے۔ خان صاحب کو اس بات کا احساس ہوگا کہ انھیں گوناگوں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ پاکستان میں حکمرانی پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ انٹرویو میں ان کی بات سو فیصد درست ہے کہ سیاستدانوں نے بھی ڈیلیور نہیں کیا، ان کا فوج اور سویلین تعلقات کار کے پس منظر میں یہ کہنا ہے کہ اگر سیاستدان اچھی حکمرانی کریں تو ان کو کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ میاں نواز شریف نے تو ڈیلیوری کے معاملے میں سخت مایوس کیا ہے۔ ان کی جمہوریت بھی چند نورتنوں کے کاسہ لیسانہ مشوروں تک ہی محدود تھی۔ عمران خان نے ایک معاملے میں نوازشریف کی مشروط تعریف کی ہے کہ انھوں نے بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی اور نریندر مودی کا اپنے گھر خیر مقدم بھی کیا لیکن مودی کے رویے کے باعث یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ امید ہے کہ اگر عمران خان برسر اقتدار آئے تو اس معاملے میں احتیاط سے کام لیں گے اور تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لے کر لائحہ عمل اختیار کریں گے۔

Check Also

Aik Ustad Ki Mushkilat

By Khateeb Ahmad