حسن کارکردگی، ہنوز فقدان
حکمرانوں بالخصوص وزیراعظم عمران خان اور ان کی اکنامک ٹیم کی یقین دہاینوں کے باوجود اقتصادی معاملات بدستور دگرگوں ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر رضا باقر جوآئی ایم ایف سے درآمد شدہ ٹیم کا حصہ ہیں نے اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس سے خطاب کرتے ہوئے حاضرین کو یقین دلایا کہ اکانومی کو جن چیلنجز کا سامنا تھا موجودہ حکومت کی طرف سے کی گئی اصلاحات کے نتیجے میں معاملات بہتر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اللہ کرے، ایسا ہی ہو اور جلد ہی تاجر اور عوام محسوس کرنے لگیں کہ واقعی اقتصادیات سنبھل گئی ہیں اور ان کی مشکلات آسانیوں میں بدلنے لگی ہیں لیکن زمینی حقائق قدرے مختلف ہیں۔ بدھ کو اسلام آباد میں مشتعل تاجروں نے ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کی، رکاوٹیں ہٹا دیں جس پر نوبت لاٹھی چارج تک پہنچ گئی جس سے متعدد افراد زخمی ہو گئے۔ ان تاجروں کا کہنا ہے جب تک فکسڈ ٹیکس سمیت ان کے دیگر مطالبات پورے نہیں کئے جاتے احتجاج ختم نہیں ہو گا۔ ملک بھر سے آئے ہوئے ان تاجروں نے ایف بی آر کو بے نقط سنائیں، حکومت کے خلاف نعرہ بازی کی اور 28، 29 اکتوبر کو ملک گیر ہڑتال، شٹرڈاؤن کی کال بھی دے دی۔ ظاہر ہے حکومت کا موقف تو سیدھا سادہ اور کسی حد تک درست بھی ہو سکتاہے کہ جنہیں ٹیکس دینے کی عادت ہی نہ ہو اب کیونکر ٹیکس دیں گے اور اس ضمن میں حکومتی کوششوں کو ہر ممکن طریقے سے ناکام بنانے کی کوشش کریں گے لیکن سڑکوں پر آنا ملک کی مجموعی اندرونی صورتحال کی بنا پر اچھا شگون نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے27 اکتوبر کو کشمیر کے یوم سیاہ کے موقع پر اپنے آزادی مارچ اور اسلام آباد دھرنے کو 31 اکتوبر میں بدل دیا ہے گویا اس وقت سڑکوں پر نکلنے کے لیے کئی گروپ کمر باندھ رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی فضل الرحمن کو یقین دلایا ہے کہ ان کی پارٹی مارچ کی عملی حمایت کرے گی۔ دوسری طرف شہباز شریف کمر کی تکلیف کو لے کر گھر بیٹھ گئے ہیں لیکن میاں نوازشریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر نے جیل میں ملاقات کے بعد ان کی طرف سے مولانا کو پیغام دے دیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) دامے درمے سخنے دھرنے کے ساتھ ہے۔ اس حوالے سے میاں صاحب نے مولانا کو ایک خط بھی لکھا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ حکومت کے خاتمہ تک آپ کیساتھ ہیں، جسے پاکستان سے پیار ہے، وہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ضرور جائے گا، سابق وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے انہیں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی پوری قیادت اور کارکن آپ کے ساتھ ہیں۔ یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں شہبازشریف جیسی" فاختاؤں، کا زور نہیں چل رہا اور میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز سمیت" عقابوں، کی لائن کوپذیرائی مل رہی ہے۔ یہ وہی عناصر ہیں جن کا نام لینے سے وزیر داخلہ بریگیڈ ئیر (ر) اعجاز شاہ نے 92 نیوز پر میرے پروگرام "ہو کیا رہا ہے، میں اجتناب کیا تھا کہ انھوں نے ہی میاں صاحب کو مروایا ہے ورنہ وہ چوتھی مرتبہ وزیراعظم بن سکتے تھے لیکن اس مرتبہ لگتا ہے کہ جی ٹی روڈ گروپ کی لائن پھر حاوی ہو گئی ہے۔ گویا کہ یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ کوئی آئے، نہ آئے مولانا فضل الرحمن سولو فلائٹ کرنے پر مصر ہیں اور اس ضمن میں انہیں خاصی حد تک اپوزیشن کا اخلاقی اور شاید عملی تعاون بھی حاصل ہو۔
دوسری طرف حکومتی ٹیم بھی دھرنے کو روکنے کے لیے سیاسی اقدامات کے بجائے ہر قسم کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ مولانا کی گرفتاری، ان پر غداری، کرپشن کے الزامات لگا کر جیل یاترا اور جیل میں چھترول جیسی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ مولانا کا آزادی مارچ اور دھرنا ہو یا نہ ہو اسے روکنے کی صورت میں بھی سیاست پارلیمنٹ کے بجائے سڑکوں پر امڈنے کے لیے تیار نظر آتی ہے اور حکومت اپنی ناقص کارکردگی اور حکمت عملی کی بنا پر اس حوالے سے نا دانستہ طور پر ہی سہی پورا ایندھن فراہم کر رہی ہے۔ اگر تاجر، عوام اور دیوار سے لگے ہوئے اپوزیشن کے سیاستدان سڑکوں پر آ جاتے ہیں تو حکومت کے لیے سنگین مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ یقینا اپوزیشن کو اس کا اچھی طرح علم ہے کہ اس وقت ان کو ہر طریقے سے انتقامی کارروائیوں کانشانہ بنایا جا رہا ہے۔ آصف زرداری، نوازشریف اورشاہد خاقان عباسی سمیت مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ کو مختلف کیسز میں پھنسا کر پابند سلاسل کر رکھا ہے حتیٰ کہ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ رانا ثناء اللہ کے وکیل کی طرف سے سیف سٹی کی ویڈیو فوٹیج اینٹی نارکوٹکس عدالت میں پیش کرنے کے بعد اس کیس کی نوعیت بھٹو دور میں چودھری ظہورالٰہی کے خلاف بنائے گئے بھینس چوری کے کیس سے مختلف نہیں۔ ان تمام تر انتقامی کارروائیوں کے باوجود پھر بھی عدالتیں موجود ہیں اور جلد یا بدیرشنوائی کی امید قائم ہے لیکن خدانخواستہ ملک میں افراتفری، تصادم، ہنگامہ آرائی کو جواز بنا کر اگریہ سسٹم لپیٹ دیا گیا تو پھر سمری ٹرائل ہونگے جن میں کسی شنوائی کی امید عبث ہو گی۔
اب بھی صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم تیسرے امپائر کی انگلی پکڑے بغیر آگے نہیں بڑھ رہے۔ دورہ چین ہو یا امریکہ یا تاجروں کو یقین دہانیاں، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو سامنے آ کر کلیدی کردار ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس پس منظر میں ورلڈ اکنامک فورم کی عالمی مسابقتی رپورٹ2019ء بھی قابل غور ہے جس کے مطابق تین درجے تنزلی کے بعد معیشت میں پاکستان 107 سے 110 ویں نمبر پر اور معاشی استحکام کے لحاظ سے 13درجے تنزلی ہوئی ہے اور 103سے 116 نمبر آ گیا ہے۔ دوسری طرف جنوبی ایشیائی ممالک میں بھارت 110 درجے کمی کے بعد 68 نمبر پر، سری لنکا 84، بنگلہ دیش 105 اور نیپال 108 ویں نمبر پر ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹ کے مطابق خطے میں پاکستان کی شرح نمو افغانستان سے بھی کم ہے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گراوٹ سب سے زیادہ ہے۔ لاکھ دعوے کئے جائیں کہ سب اچھا ہے، حکومتی بزر جمہروں کی طرف سے جتنا مرضی کہا جائے کہ صبر کرو سب اچھا ہے اور جلد سب ٹھیک ہو جائے گا ہر طبقے کا اقتصادی طور پر کچومر نکلتا جا رہا ہے۔ یہ موقع تو نہ صرف اپوزیشن بلکہ دھرنے کا پروگرام بنانے والوں سے بھی بات چیت کرنے کا ہے، دھمکیوں اور تحریص سے کام نہیں چلے گا لیکن حکمران تو ہوا کے گھوڑے پر سوار ہیں انھیں کسی بات کی پروا ہی نہیں۔ کاسہ لیسان ازلی وزیراعظم پر تعریف وتوصیف اور خوشامد کے ڈونگڑے برسا رہے ہیں خاص طور پر اقوام متحدہ میں تقریر کے حوالے سے سراہا جا رہا ہے لیکن خالی تقریروں سے نہ تو کشمیر کا مسئلہ حل ہو گا اور نہ ہی عوام کا خالی پیٹ بھرے گا۔ اصل مسئلہ حسن کارکردگی ہے جس کا ہنوز فقدان ہے۔