ہر شعبہ میں رجعت قہقری
ڈیڑھ سال میں تحریک انصاف کی حکومت کا واحد طرہ امتیاز یہ ہے کہ قومی زندگی کا قریباً ہر شعبہ رجعت قہقری کا شکار ہے بالخصوص اس عرصے کے دوران بندہ مزدور کے اوقات تلخ سے تلخ ترین ہوتے گئے اورامید کی کوئی کرن بھی نظر نہیں آ رہی۔ ایسا لگتا ہے کہ چھ ارب ڈالر کے پیکج کے عوض ملک کو آئی ایم ایف کے ہاتھ گروی رکھ دیا گیا ہے۔ ہمارے پالیسی ساز جمود کا شکار نظر آتے ہیں کیونکہ بظاہر سارے فیصلے بین الاقوامی مالیاتی ادارہ ہمارے اوپر تھونپ رہا ہے اور سرکار عالیہ بخوشی کورنش بجا رہی ہے۔ حکومت اس بات پر ہی پھولے نہیں سماتی کہ تجارتی خسارہ کم ہو گیا ہے۔ موجودہ حالات میں جبکہ ملک میں صنعتی سرگرمیاں ماند پڑتی جا رہی ہیں، صنعت کار نئی صنعتیں نہیں لگا رہے۔ پہلے سے لگی صنعتیں بھی اپنی استعداد سے پیداوار کم کریں یا شٹ ڈاؤن پر مجبور ہو جائیں تو تجارتی خسارہ یقینا کم ہو گا۔ ہم نے آئی ایم ایف کو خوش رکھنے کے لیے روپے کی قدر قر یباً چالیس فیصد کم کر دی حتیٰ کہ بعض اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر اس کی اصل قدر سے بھی کم ہو گئی ہے لیکن اس کے باوجود برآمدات میں جو تھوڑا بہت اضافہ ہوا تھا وہ بھی اب روبہ زوال ہے۔ اکانومی اتنی سکڑتی جا رہی ہے کہ ایک اندازے کے مطابق رواں مالی سال میں شرح نمو میں اضافہ دو فیصد کے لگ بھگ ہو گا جو آبادی میں اضافے کی شرح سے بھی کم ہے گویا کہ غربت اور کساد بازاری میں مزید اضافہ ہو گا۔ واضح رہے کہ ہماری یہ شرح نمو اس خطے کے ممالک میں سب سے کم ہے۔ عجیب ستم ظریفی ہے کہ بنگلہ دیش جو ایک زمانے میں مشرقی پاکستان تھا کی شرح نمو 8فیصد ہے۔ ہم اسی پر بغلیں بجا رہے ہیں کہ بھارت کی شرح نمو کم ہو رہی ہے، بھارت کی شرح نمو گیارہ برسوں کے دوران پانچ فیصد تک آ گئی ہے جو گزشتہ پندرہ برسوں میں کم ترین ہے لیکن دوسری طرف بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر اس وقت تقریباً 427 ارب ڈالر ہیں جبکہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر مانگ تانگ کر بھی 18 ارب 48 کروڑ ڈالر ہیں جن میں سے تقریباً ساڑھے 6 ارب ڈالر کمرشل بینکوں کے ہیں۔
اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے برسر اقتدار آنے کے بعد پہلے دس ماہ آئی ایم ایف کے پاس جانے یا نہ جانے کے بارے میں سوچ بچار کرتے کرتے بہت دیر کر دی۔ اس لیت ولعل کے ذمہ دار اس وقت کے وزیر خزانہ اور موجودہ وزیر منصوبہ بندی اسد عمر اب دوبارہ وزیراعظم کی آنکھ کا تارہ بنے ہوئے ہیں۔ اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کو 2018ء میں اقتدار میں آنے کے فوراً بعد ہی آئی ایم ایف کے پیکج میں چلے جانا چاہیے تھا لیکن اس غیر معمولی تاخیر کی بنا پر آئی ایم ایف کی نسبتاً سخت شرائط طوہاً وکرہاً ماننا پڑیں۔ واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی جس حکومت کو تحریک انصاف کے منبر سے دن رات گالیاں دی جاتی ہیں کے گئے گزرے " کرپٹ " دور میں شرح نمو قریباً 6 فیصد تھی۔ غریب اورمتوسط طبقے کو اعدادو شمار کے اس گورکھ دھندے سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے، ان کے لیے تو یہ بات زیادہ ا ہم ہے کہ عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی ملے، ان کا چولہا چلتا رہے اور بچوں کی تعلیم، صحت اور روز مرہ ضروریات کے اخراجات پورے کر سکیں لیکن عملی طور پر ڈبل ڈیجٹ مہنگائی کے اس دور میں ایسا کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔ غریب اور متوسط طبقہ بڑھتے ہوئے بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے سے قاصر ہے اور غریب طبقہ اپنے بچوں کو سکولوں سے اٹھانے پر مجبور ہو گیا ہے کیونکہ وہ اپنے موجودہ بجٹ میں دال روٹی کے اخراجات بھی پورے نہیں کر سکتا۔
بعد خرابی بسیار وزیراعظم عمران خان کو صورتحال کی نزاکت کا کچھ تو احساس ہوا۔ اسی بناپر یوٹیلیٹی سٹورز پر قیمتوں میں کمی کا اعلان کرنے کے علاوہ پچاس ہزار یوتھ سٹورز کھولنے کا بھی فیصلہ کیا گیا لیکن یوٹیلیٹی سٹورزپر اس وقت بھی گھی 170، چینی 68 اور آٹا 40 روپے فی کلو ہے جبکہ چاول اور دالوں کی قیمت میں 15 سے 20 روپے کلو کمی کرنے کی نوید سنائی گئی ہے۔ یہ اصل بیماری کا علاج کرنے کے بجائے محض زخموں پر پھاہا رکھنے کی حکمت عملی ہے جب تک قومی پیداوار کا پہیہ نہیں چلے گا، عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ غریب عوام کو یوٹیلیٹی سٹورز، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جسے اب احساس پروگرام کہنے پر زیادہ زور دیا جاتا ہے کے ذریعے عبوری افاقہ ضرور ہو گا لیکن اس سے بھی بلیک مارکیٹ اکانومی معرض وجود میں آ رہی ہے۔ لیکن اگر آئی ایم ایف کے مطابق چلنا ہے تو ماہرین کے مطابق اگلے ماہ تک قیمتوں میں کچھ ٹھہراؤ آنے کے بعد بجلی اور گیس کے ٹیرف میں موخر شدہ اضافہ بالآخر کرنا پڑے گا۔
خان صاحب بھی عجیب مشکل میں ہیں، جائے رفتن نہ پائے ماندن کی صورتحال کا سامنا ہے۔ اگر وہ آئی ایم ایف کی خوشنودی سے لائی گئی معاشی ٹیم کو تبدیل کرتے ہیں یا آئی ایم ایف کو آنکھیں دکھاتے ہیں تو یہ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ اور اس کے سرپرست ناراض ہو جائیں گے اور اگر صورتحال جوں کی توں رہتی ہے تو مزید ابتری کا خطرہ ہے، جس سے ان کے اقتدار کو بھی خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ وزیراعظم نے امریکہ میں مقیم پاکستانی نژاد ماہر اقتصادیات عاطف میاں سے بھی صلاح مشورے کیا ہے۔ نوازشریف دور کے مشیر برائے ریونیو ہارون اختر خان سے بھی ان کی ملاقات ہو چکی ہے۔ ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی کے علالت کے باعث طویل رخصت پر جانے کا ابھی تک ڈراپ سین نہیں ہوا لیکن واضح اشارہ یہی ملتا ہے کہ اب وہ واپس نہیں آئیں گے۔ وزیراعظم کے بعض مشیر مصر ہیں کہ انہیں ریونیو کے حوالے سے ہارون اختر یا کسی اور کو اپنا مشیر فوری طور پر مقرر کرنا چاہیے لیکن اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو مشیر خزانہ حفیظ شیخ ناراض ہو سکتے ہیں کیونکہ ریونیو کا قلمدان بھی انہی کے پاس ہے۔ کچھ ماہ پہلے جب ریونیو کا قلمدان حماد اظہر کو دیا گیا تو حفیظ شیخ ناراض ہو گئے تھے اور چوبیس گھنٹے کے اندر ہی انہیں ریونیو کا چارج واپس دے دیا گیا تھا۔ بڑے طمطراق سے حکومت نے برسر اقتدار آتے ہی اقتصادی مشاورتی بورڈ بنایا تھا لیکن اس کی غالباً حفیظ شیخ کے آنے سے پہلے صرف ایک میٹنگ ہو سکی تھی، انہیں کوئی مشاورتی بورڈ بھی قابل قبول نہیں ہے۔
خان صاحب خارجہ محاذ پر بجا طور پر کچھ کامیابیوں کا دعویٰ کر سکتے ہیں، انہوں نے مسئلہ کشمیر کو کافی اجاگر کیا ہے تاہم خارجہ محاذ پر فتوحات ہوں یا اقتصادی محاذ پرٹیکس جمع کرنے سے آئی ایم ایف کے مقرر کردہ ٹارگٹ حاصل کرنے کی بات ہو ان سے عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں مل سکتا۔ اکنامک مینجمنٹ اور گورننس کا حال خاصا پتلا ہے اور کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی۔ سیاسی ماحول بھی تلخ ہو رہا ہے۔ مہنگائی کے حوالے سے ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن اور حکومتی ارکان کے درمیان مزید بدمزگی ہوئی۔ خواجہ آصف اور بلاول بھٹو نے کہا، عمران خان کہا کرتے تھے جب حکمران کرپٹ ہوں تو مہنگائی بڑھتی ہے، اب بتائیں انہوں نے کونسی کرپشن کی ہے جس پر مراد سعید نے بھی جوابی وار کئے، علاوہ ازیں قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر عمر ایوب کے بیان پر پیپلزپارٹی اور حکومتی ارکان گتھم گتھا ہو گئے، نعرے بازی ہوتی رہی۔ خان صاحب کو چاہیے کہ وہ سیاسی ماحول کو نارمل کریں۔ ان کو جلد یا بدیر احساس ہو جائے گا پاکستان جیسا ملک کامیابی سے چلانا ان کے اکیلے کے بس کا روگ نہیں ہے۔ زرداری صاحب کو اس بات کا ادراک تھا اسی بنا پر بطور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپوزیشن کو کلیدی امور پر آن بورڈ لے کر کامیابی سے معاملات چلائے، یہ مک مکا نہیں بلکہ وقت کی ضرورت تھی۔