حکومتی ٹامک ٹوئیاں بمقابلہ گرینڈ اپوزیشن
جمعیت علما ئے اسلام (ف) کے سر براہ مولانا فضل الرحمن اپنے مارچ اور دھرنے کے حوالے سے اب"میں نہ مانوں، کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ حکومت ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بعد بالآخر مذاکرات پر آمادہ ہو گئی ہے۔ پہلے پہل وزیراعظم عمران خان کو مذاکرات کرنے کی تجویز دی گئی توانہوں نے اس پر صاد کیا اور حامی بھی بھری کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ، وزیر داخلہ بریگیڈئیر اعجاز شاہ اور غالباً جہانگیر ترین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی لیکن خان صاحب نے سعودی عرب جانے سے پہلے اپنا ارادہ بدل لیا اور اس ضمن میں طے شدہ میٹنگ بھی منسوخ کردی۔ سعودی عرب سے واپسی کے فوری بعد اچانک تحریک انصاف کی کورکمیٹی کی میٹنگ میں فیصلہ ہوا کہ مولانا سے سیاسی مذاکرات کیے جائیں اور اس مقصد کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کر دیا گیا۔ کورکمیٹی میں لانگ مارچ کے حوالے سے جب بعض ارکان نے بات کی تو خان صاحب نے کہا میں نے کمیٹی بنادی ہے وہ جانے اور ان کا کام جانے۔ حکمران جما عت کا بھی عجیب ماجرا ہے اس کے وزراء اور ترجمان شتر بے مہا ر کی طرح ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں۔ اس کی شاید بنیادی وجہ خان صاحب کی اپنی مخصوص میلان طبع ہے، انھیں پہلے تو مشیروں اور رہنماؤں نے یقین دلایا کہ مولانا کا دھرنا نہیں ہو گا لہٰذا وہ شانت رہیں، ساتھ ہی ان کے وزراء کی فوج ظفر موج نے مولانا فضل الرحمن اور ان کی ذات پر رکیک حملے شر وع کر دیئے۔ وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا جن کا طرہ امتیاز صرف بے پنا ہ دولت ہے، کا کہنا تھا کہ جیل میں ان کے لیے ایکسرسائز مشین لگا دی جا ئے گی اور ان کا وہ حشر کیا جائے گا کہ وہ اٹھ بھی نہیں سکیں گے۔ ایک اور وزیر شہریار آفرید ی نے درفنطنی چھوڑی کہ مولانا کشمیر کمیٹی کا پیسہ ہڑپ کر گئے ہیں، جس کی تحقیقا ت کی جائے گی۔ وزیر داخلہ بریگیڈئیر اعجاز شاہ نے کہا کہ ڈنڈا بردار فورس تیارکرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ مختلف چینلز پر حکومت نواز تجزیہ کاروں نے حساب کتاب لگا کر بتایا کہ مولانا کے دھرنے پر تقریباً20ارب خرچ ہونگے، یہ تخمینہ کہاں سے آیا۔ تحریک انصاف کے ایک کھلاڑی کا دعویٰ تھا کہ اس مارچ کو آصف زرداری فنانس کر رہے ہیں گویا پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کے پاس قارون کا کوئی خزانہ ہے۔
دھرنے کے حوالے سے اپوزیشن کے باہمی اختلافات نے تحریک انصاف کے اس موقف کو تقویت پہنچا ئی کہ دھرنا ٹھس ہو جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم دھرنے میں شریک نہیں ہونگے اور مسلم لیگ (ن) میں نوازشریف اوربرادر خورد شہبازشریف کے اختلافا ت کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ دوسری طرف فضل الرحمن کی طرف سے اپنے لانگ مارچ کوناموس رسالت کی تحریک بنانے کے حوالے سے تمام اپوزیشن نے تحفظات کا اظہار کیا۔ مولانا انتہائی شاطر سیاستدان ہیں، انھوں نے جب یہ دیکھا کہ باقی ماندہ اپوزیشن کو مذہبی کارڈ قابل قبول نہیں توانھوں نے خوداور چینلز پر آنے والی ان کی ٹیم نے پینترابدل لیا اور اب وہ مہنگائی، خراب گورننس، بے روزگاری جیسے مسا ئل کو حکومت کی چھٹی کرانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ میری اپنی رائے بھی یہ تھی کہ دھرنا نہیں ہو پائے گا لیکن مولانا فضل الرحمن سخت جان نکلے اور وہ نوابزادہ نصر اللہ خان کی طرح اپوزیشن کو ایک لڑی میں پرونے میں کامیاب ہو گئے لیکن نوابزادہ مرحوم اورمولانا فضل الرحمن میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مولانا کی جما عت تانگہ پارٹی نہیں ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں خان صا حب کے اس استدلال کو درست تسلیم نہیں کیا جاتا کہ مولانا بارہویں کھلاڑی ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے یہ کہہ کر ہم دھرنے میں تو شریک نہیں ہونگے لیکن لانگ مارچ میں شریک ہونگے بالواسطہ طور پر مولانا کی یلغار میں عملی طور پر شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ادھر مسلم لیگ (ن) کے رہبر میاں نوازشریف پارٹی کے صدر شہباز شریف کے موقف کو ویٹو کر چکے ہیں، اب مسلم لیگ (ن) بھی مولانا کا ساتھ دے رہی ہے۔ جمعہ کو ماڈل ٹاؤن میں مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بعد مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے پریس کانفرنس میں کہا کہ خط کی صورت میں میاں نوازشریف کی ہدایات مل چکی ہیں، 31 اکتوبر کو مولانا کے جلسے میں بھرپور شرکت کرینگے اور مطالبات پیش کریں گے۔ آئندہ کے لائحہ عمل کا بھی جلد اعلان ہوگا۔ عوامی نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی بھی دھرنے کی حمایت کرتی نظر آ رہی ہیں گویا حکومت کو ایک گرینڈالائنس کاسامناہوگا۔ بلاول بھٹو فطری طور پر نئے انتخابات کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ لاڑکانہ کی ہوم گراؤنڈ پر پیپلزپارٹی کے امید وار کی ضمنی انتخاب میں جی ڈی اے کے امیدوار کے ہا تھوں شکست سے ان کی آنکھیں کھل گئی ہونگی کہ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں اور سند ھ میں ان کی پارٹی کی حکومت بھی جا تی رہے۔
دوسری طرف مولانا پہلے ہی مذاکرات کی پیشکش رد کر چکے ہیں، ویسے بھی حکومت سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ اپوزیشن کی دھمکیوں سے مرعوب ہو کر گھر چلی جائے گی اورنئے انتخابات کرادے گی۔ ناقدین کے مطابق موجودہ صورتحال اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی حکمت عملی کا بدیہی نتیجہ ہے۔ دراصل تحریک انصاف کی حکومت محض انتظامی طریقوں سے اس مجوزہ لانگ مارچ اور دھرنے کا مداوا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ مولانا اور ان کے حامی جیلوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں نیز انھیں اب ملک کی دو بڑی سیا سی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ عمران خان نے کبھی سیاسی معاملات کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اسی بنا پر قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں برائے نام اکثریت ہونے کے باوجود وہ اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کر پاتے۔ بی این پی (مینگل) کے سربراہ اختر مینگل بھی کھلم کھلا الٹی میٹم دے رہےہیں کہ وہ اپنی پارٹی کو حکومتی اتحاد سے الگ کردیں گے۔ چودھری برادران بھی کچھ اکھڑے اکھڑے سے ہیں اور ایم کیو ایم حکومت کو کمزور دیکھ کر اپنا علیحدہ لچ تل رہی ہے۔ دوسری طرف میڈیا پر فضل الرحمن کی لا ئیو کوریج پر پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔ عجیب ستم ظریفی ہے کہ جو جماعت 126روز تک اپنے دھر نے کی لائیو کوریج سے پوری طرح مستفید ہوتی رہی، اب اتنی تھڑدلی کا مظاہرہ کر رہی ہے کہ گزشتہ روز ایک چینل نے فضل الرحمن کی پریس کا نفرنس بغیر خبر کے صرف فوٹیج کے ذریعے دکھا ئی۔ خبرنگا ر کا کہنا تھا کہ پریس کانفرنس میں کہی گئی باتیں لائیو دکھا نے پر پابندی عا ئد کردی گئی ہے۔ واضح رہے کہ ایسی پابندیاں تو جنرل پرویزمشرف نے اس وقت بھی نہیں لگائیں جب معزول چیف جسٹس آ ف پاکستان افتخا ر محمد چودھری کی بحالی کے لیے وکلا تحریک کی لا ئیو کوریج کی جا تی تھی، اگرچہ بعدازاں انھوں نے ایمرجنسی پلس لگا کر کچھ نیوز چینلز کو بند کردیا۔ صحافیوں کی تحفظ کی عالمی تنظیم سی پی جے کے نمائند ے کو پاکستان داخلے سے روکنے اور واپس بھیجنے کی کارروائی انتہائی بے وقت اور نامناسب ہے۔ یہ وہی سی پی جے ہے جس نے پانچ اگست سے مقبوضہ کشمیر میں میڈیا پر بھارتی پابندیوں کی پانچ مرتبہ مختلف بیانات میں مذمت کی ہے جس کی ہمارے میڈیا پر بھی خوب تشہیر کی جا تی رہی، نہ جانے اس بوکھلاہٹ کی وجہ کیا ہے۔ خان صاحب کو چاہیے کہ نہ صرف وہ اتحادیوں کو ساتھ رکھیں بلکہ خود اپنے وزراء کو لے کر قومی اسمبلی میں جائیں، پارلیمنٹ کو فعال بنائیں اور اعتماد میں لیں کیونکہ کابینہ کے تواترکے ساتھ ہونے والے اجلاس پارلیمنٹ کے نعم البد ل نہیں ہوسکتے۔ وزراء کو بھی تھوڑا سنبھالنے کی ضرورت ہے، جس کاکام اسی کو ساجھے، انہیں اپنے اپنے محکموں کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ وزیر ریلویز شیخ رشید جو خود کو فقرے با زی کا ماہر سمجھتے ہیں کا یہ کہنا کہ مولانا پسپا ئی کی طرف گامزن ہیں اور واپسی کا راستہ مانگ رہے ہیں اورنوازشریف اپنی پارٹی میں تنہا رہ گئے ہیں خان صاحب کو خوش کرنے کے لیے تو ٹھیک ہے لیکن اس کا زمینی حقائق سے کو ئی تعلق نہیں۔ اب مذاکرات کے لیے کمیٹی قائم کرنے کے بعد وزیراعظم کا یہ بیان کہ پہلی بار ہے کہ اسمبلی ڈیزل کے بغیر چل رہی ہے، انتہائی محل نظر اور سیاسی رویوں کی نفی ہے۔