دوستیاں،میرٹ،تبدیلیاں
کشمیر پر کامیاب سفارتکاری اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شعلہ نوا تقریر کے بعد وزیراعظم عمران خان جب وطن واپس پہنچے تو یقینا ان کے ذہن میں یہ بات گردش کر رہی تھی کہ ملک بالخصوص پنجاب میں گورننس کا حال پتلا ہے لہٰذا انھوں نے واپس آ تے ہی اپنا پہلا دن بھرپور قسم کی سیاسی اور انتظامی سرگرمیوں میں گزارا۔ پہلا کام تو سب سے بڑے صوبے پنجاب کے اپنے "وسیم اکرم پلس " کو جواب طلبی کے لیے اسلام آباد طلب کر لیا، اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ میں مستقل مندوب ملیحہ لودھی سمیت سفارتی سطح پر اہم تبدیلیوں کا اعلان کر دیا، تاہم سب سے چونکا دینے والی سرگرمی تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس تھا جس میں پی ٹی آئی کے ارکان (اپوزیشن نہیں ) پھٹ پڑے اور کچھ ارکان تو آنسوؤں سے روئے کہ وزیر ان کی بات بھی نہیں سنتے جس پروزیراعظم کو کہنا پڑا کہ وہ ایسے وزیروں کو جن کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں، تبدیل کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو وہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی کلاس لینے پر مصر تھے کہ وہ پنجاب میں ڈینگی سے بچاؤ کیلئے پیشگی اقدامات کرنے میں کیوں ناکام رہے۔ واضح رہے کہ ملک بھر میں قریبا ستر ہزار افراد ڈینگی سے متاثر ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ پنجاب ہے۔ صرف راولپنڈی شہر میں 24گھنٹے میں ڈینگی وبا کی طرح پھیل گیا اور چند روز میں 439افراد ڈینگی کا شکار ہو کر مختلف ہسپتالوں میں پہنچ گئے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میں متاثرہ افراد کی تعداد چھ ہزار ہے اور 23افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
ڈینگی وائرس کا انکشاف سب سے پہلے 2011 ء میں پنجاب میں ہوا تھا، تب کسی نے اس کا نام بھی نہیں سنا ہوا تھا۔ یہ مرض سری لنکا، بھارت اور جنوبی ایشیا کے بعض ملکوں میں پایا جاتا ہے۔ اس دور میں وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے سری لنکا سے ماہرین کی ٹیم بلوا کر اس وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے اپنی ٹیم کو تیار کیا۔ آئی ٹی کے ماہر عمر سیف کے ذریعے موبائل فون پر ایسی ایپ بنائی گئی جس کے ذریعے ڈینگی لاروے کی تصویر لے کر اس کا قلع قمع کیا جا سکتا تھا۔ اخبارات اور میڈیا کے ذریعے ڈینگی سے بچنے اور روک تھام کے لئے آگاہی مہم چلائی گئی لیکن ہمارے موجودہ بھولے بھالے وزیراعلیٰ اور ان کے ٹیم ممبران نے اس سلسلے میں کوئی پیشگی قدم نہیں اٹھایا حالانکہ اس سے نمٹنے کے لئے پیشہ وارانہ مہارت کا فقدان نہیں تھا لیکن چونکہ پچھلی حکومت کے ہر اقدام کو برا کہنا تحریک انصاف کا فلسفہ ہے اور اسی ناتے کثیر تعداد میں منجھے ہوئے بیوروکریٹس کو جو میاں شہبازشریف کے ساتھ کام کر رہے تھے کو کھڈے لائن لگا دیا گیا۔
پولیس میں اصلاحات کا حال بھی مختلف نہیں۔ کمشنریٹ سسٹم کی جگہ پرانے سسٹم کو ہی کچھ ترامیم کے ساتھ نافذ کرنے کی تجاویز زیر غور ہیں لیکن جب ایک سال میں تبدیل ہونے والے چوتھے آئی جی پولیس کیپٹن (ر)عارف نواز نے وزیراعلیٰ پنجاب کے ہمراہ وزیراعظم کے در پر حاضری دی تو خان صا حب نے سوال کیا کہ30ستمبرکی ڈیڈ لائن دی تھی پولیس ریفارمز رپورٹ کہاں ہے تو آئی جی اپنا سا منہ لے کر رہ گئے اور فرمایا کہ ایک ہفتہ اور دے دیں۔ یقینا پولیس نہیں چاہتی کہ اس کی آزاد روی ختم کی جائے لہٰذا خاصی مزاحمت کی جا رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ گزشتہ ایک برس میں پنجاب پولیس کا کلچر مزید خراب ہوا ہے، تھانوں کا ماحول تبدیل نہیں ہو سکا۔ پولیس کی کارکردگی کی چند مثالیں یہ ہیں۔ حال ہی میں ایسے واقعات ہوئے جن سے پولیس کی کارکردگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ رحیم یارخان میں اے ٹی ایم مشین کو توڑنے والے ایک شخص صلاح الدین کو اس قدر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ پولیس حراست میں ہی دم توڑ گیا۔ چونیاں میں بچوں کے اغوا اور قتل کی خبریں عام ہیں۔ پولیس نے نہ صرف تھانوں میں بلکہ اس سے الگ بھی پرائیویٹ مقامات پر عقوبت خانے بنا رکھے ہیں۔ شنید ہے کہ اب پانچواں آئی جی لانے کی بھی تیاری ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے پنجاب میں عثمان بزدار کی ٹیم میں تبدیلیاں کی جائیں گی لیکن جب تک وزیراعلیٰ اپنے طرز حکمرانی کو نہیں بدلتے اس قسم کی تبدیلیاں سطحی ثابت ہونگی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا کلّہ مضبوط ہے لیکن کسی نہ کسی مرحلے پر وزیراعظم کو سوچنا پڑے گا کہ پنجاب میں اچھی کارکردگی کے بغیر مسلم لیگ (ن) کے غلبے کو توڑا نہیں جا سکے گا۔
پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پارٹی ارکان نے اپنے ہی وزرا کے خلاف دل کی بھڑاس نکال لی۔ پشاور سے رکن اسمبلی ارباب عامر بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے کہ وزرا ہمیں ملاقات کیلئے وقت بھی نہیں دیتے۔ دوسری طرف وزیراعظم نے پیپلزپارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں آنے والے نور عالم پر جو قومی اسمبلی میں اپنی ہی حکومت پر برس پڑے تھے، برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ قومی اسمبلی میں آپ کی تقریر سنی۔ آپ جب پیپلزپارٹی میں تھے، تب حکومت کیخلاف تقریر کیوں نہیں کیا کرتے تھے جس پر نور عالم نے کہا تب بھی حکومت پر تنقید کرتا تھا، اب بھی حکومت کو آئینہ دکھاتا ہوں۔ اجلاس میں پی ٹی آئی ارکان کی مجموعی طور پر برہمی اتنی زیادہ تھی کہ وزیراعظم یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ جن کی کارکردگی ٹھیک نہیں وہ عہدے پر نہیں رہیں گے۔ ساتھ ہی میڈیا پر قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ شفقت محمود وزیر داخلہ بن رہے ہیں۔ اسد عمر وزیر پٹرولیم بن کر کابینہ میں شامل ہو رہے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان تبدیل ہو رہی ہیں اورعلی محمد کی چھٹی ہو رہی ہے لیکن بعد میں یہ معاملہ تھم گیا۔ وزیر داخلہ اعجاز شاہ کا کہنا ہے کہ کابینہ میں تبدیلی کی افواہ بھی اپوزیشن کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ ویسے بھی گورننس بہتر بنانے کیلئے محض وزراء کے قلمدان بدلنے سے بات نہیں بنے گی، اس وقت خان صاحب کو غیر منتخب غیر سیاسی مشیروں نے گھیر رکھا ہے جو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں۔ وہ پیشہ ور خو شامدیوں کی طر ح سازشیں کرتے اور خان صاحب کے کان بھرتے رہتے ہیں۔ ان میں بعض وزیراعظم کے پرانے دوست بھی ہیں۔ وزیراعظم کو یہ بات سوچنا چاہیے کہ دوستیاں، پرانی وابستگیاں اپنی جگہ اور میرٹ بالکل مختلف معاملات ہیں اور وہ تو بزعم خود میرٹ کی مالا جپتے رہتے ہیں۔ جہاں تک ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی اچانک تبدیلی کا تعلق ہے وہ ایک بہت بڑا سرپرائز ہے، عام تاثر تو یہ تھا کہ محترمہ کو جو قریبا ہر حکومت کے دور میں اعلیٰ سفارتی عہد وں پرفائز رہی ہیں توقع تھی کہ وزیراعظم کے کامیاب دورے کے حوالے سے شاندار کارکردگی کی بناپر شاباش دی جائے گی اور اپ گریڈ کر دیا جائے گا لیکن خان صاحب نے وطن لوٹتے ہی پہلا کام ہی یہ کیا کہ انھیں عہدے سے ہٹا دیا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جب نوازشریف وزیراعظم تھے تو انھوں نے 1999ء میں اپنے دورہ امریکہ کے فوراً بعد واشنگٹن میں سفیر ریاض کھوکھر کو تبدیل کر دیا تھا۔ ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ وہ پہلے ہی سامان باندھے بیٹھی تھیں کیونکہ میعاد پوری ہو چکی تھی اور صرف وزیراعظم کے دورہ اقوام متحدہ کے لیے وہاں موجود تھیں لیکن وزیراعظم کے دورے کے دوران یقینا ان سے کوئی خطا سرزد ہوئی ہو گی جس بنا پر انہیں اچانک تبدیل کر دیا گیا۔ ملیحہ لودھی جو ساڑھے چار برس سے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب تھیں ان کی تقرری میاں نوازشریف نے کی تھی۔ سب سے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1994ء میں انھیں امریکہ میں سفیر بنایا تھا اور بعدازاں جنر ل پرویز مشر ف کے دور میں بھی1999ء سے2002 ء تک امریکہ میں سفیر رہیں اور وہاں مدت پوری ہونے کے بعد برطانیہ میں ہائی کمشنر بنیں۔ محترمہ انتہائی ذہین اور زیرک خاتون ہیں، دنیائے صحافت سے ان کا گہرا تعلق ہے۔ الطاف گوہر کے سہ ما ہی Third World Quartely اور بعدازاں اسلام آباد میں مسلم اخبار اور دی نیوز سے منسلک رہی ہیں۔ عمومی طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی نوکری اس لیے پکی رہی ہے کہ وہ مقتدر حلقوں کے قریب تصور کی جاتی ہیں لیکن شنید ہے کہ سیکرٹری خارجہ سہیل محمود جو وزیراعظم کے انتہائی قریب سمجھے جاتے ہیں سے ان کی نہیں نبھ رہی تھی۔ ان کے جانشین منیراکرم بھی ایک منجھے ہوئے سفارتکار ہیں جو جنیوا اور نیویارک میں پاکستان کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب رہ چکے ہیں۔ انہیں 2008ء میں صدر آصف علی زرداری نے بے نظیر بھٹوکی شہادت کے واقعے کے بارے میں رپورٹ اقوام متحدہ میں پیش کرنے کے حوالے سے اختلافات پر برطرف کر دیا تھا۔ منیراکرم بھی کشمیر اور بھارت کے حوالے سے عقابی خیالات کے حامی تصور کئے جاتے ہیں۔ ان کی تقرری کے ساتھ ہی ان کے خلاف بعض حلقوں نے پراپیگنڈا شروع کر دیا ہے کہ 2003 ء میں ان کا اپنی گرل فرینڈ سے جھگڑا ہو گیا تھا جس نے ان پر الزام لگایا تھا کہ وہ تشدد کے مرتکب ہوئے ہیں لیکن ایک ماہ بعد ہی ان کے خلاف نیو یارک پولیس نے الزامات واپس لے لئے تھے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی منیراکرم کے خلاف منفی پراپیگنڈے کی بھرپور مذمت کی ہے۔