کرونا،ٹھوس اقدامات کی ضرورت
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے پیر کو قائم مقام صدر مملکت کے طور پر منصب سنبھالتے ہی کرونا وائرس کی تباہ کاری سے بچنے کے لیے قوم سے اگلے روز دعا کی اپیل کرد ی۔ اسی روز یہ تشویشناک خبر آئی کہ جب سے پاکستان میں کرونا وائرس پھیلا ہے صرف ایک روز میں 129 نئے کیسز سامنے آئے اور ملک میں وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد قریباً 183ہو گئی ہے جبکہ میوہسپتال میں ایک مریض کے جاں بحق ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ کرونا وائرس اچانک کئی کئی گنا بڑھنے لگتا ہے، اس سنگین صورتحال کے پس منظر میں قائم مقام صدر کا دعا کرانے کا اعلان مستحسن لیکن حکمرانوں کو دعا کے ساتھ ساتھ زیادہ توجہ دوا (عملی اقدامات) پر دینی چاہیے کیونکہ دعا تو تمام پاکستانی پہلے ہی کر رہے ہیں کہ اللہ ہمیں اس وبا سے محفوظ فرمائے۔ جہاں تک کرونا وائرس سے نبٹنے کے لیے حفاظتی اور دیگر اقدامات کرنے کا تعلق ہے یہاں بھی حکومت کی اہلیت پر بنیادی سوالات اٹھ گئے ہیں۔ کرونا سے متاثر ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق سندھ سے ہے۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو سکھر کے قرنطینہ سنٹرمیں اسی بنا پر رکھے گئے تھے کہ یہ ایران سے تفتان بارڈر کے راستے بلوچستان پہنچے تھے وہاں انہیں قرنطینہ میں رکھا گیا بعدازاں جب حفظ ماتقدم کے طور پر ان کے دوبارہ سکھر میں ٹیسٹ کئے گئے تو ان میں سے زیادہ تر وائرس سے متاثرہ نکلے گویا کہ بلوچستان سے آنے والے زائرین جو سندھ کے علاوہ پنجاب کے مختلف شہروں میں جا رہے ہیں وہاں صلاحیت اور سہولتوں کے فقدان کی بنا پر انہیں سکین نہیں کیا گیا۔ یہی حال ہمارے ہوائی اڈوں کا بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں داخل ہونے والے تمام مسافروں کے ٹیسٹ کے فول پروف انتظامات نہیں ہیں۔ جس کی مثال دبئی کے راستے لاہور آنے والے ایک مسافر کی ہے جو ائرپورٹ سے آرام سے نکل کر گھر پہنچ گیا۔ پنجاب میں سب سے پہلے Covid19 سے متاثر اسی شخص کا انکشاف ہوا ہے۔ موصوف ڈی ایچ اے لاہور کے باسی ہیں، ایک پرائیویٹ لیبارٹری سے ٹیسٹ رپورٹ میں ان میں وائرس پازیٹو آیا لیکن وہ علاج کرانے کے بجائے گھر چلے گئے۔ سیکرٹری صحت ڈاکٹر عثمان کے مطابق مریض کو ڈھونڈھ کرہسپتال داخل کرادیا گیا۔
واضح رہے کہ11 مارچ تک تفتان بارڈر سے چار ہزار افراد بلوچستان میں داخل ہوئے جن میں دو ہزار کا تعلق سندھ سے تھا جبکہ باقی کا تعلق پنجاب اور دیگر صوبو ں سے بتایا جاتا ہے۔ تفتان میں قرنطینہ کے انتظامات انتہائی ناقص بتائے جاتے ہیں اور خیمے بھی لگائے گئے ہیں نیز بنیادی سہولتوں کا بھی فقدان تھا۔ گویا کہ مرض کم ہونے کے بجائے زیادہ پھیل گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک وفاقی وزیر زائرین کو ایران سے تفتان لانے اور انہیں آگے بھیجنے میں کلیدی کردار ادا کر رہے تھے۔
پہلے تو ہمارے حکمران اس آفت کے حوالے سے خواب خرگوش میں مبتلا رہے اور سب اچھا کا راگ الاپا جاتا رہا، حتیٰ کہ وزیراعظم عمران خان نے چین کو اس بحران سے نبٹنے کے لیے مدد کی پیشکش بھی کی۔ چین کے شہر ووہان اورصوبہ ہوبئی میں وائرس پر کافی حد تک قابو پالیا گیاہے۔ چین میں کرونا وائرس سے 80890 افراد متاثر ہوئے، جن میں 3226 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے نئے مریضوں کی تعداد کم ہو کر روزانہ دس سے پندرہ افراد تک رہ گئی ہے اور آہستہ آہستہ چین کے حالات نارمل ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن اب یہ وبا جسے جدید دور کا طاعون بھی کہا جا سکتا ہے دنیا بھرکو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ 162ممالک میں 182726 افراد وائرس سے متاثر ہوئے جن میں سے 7174 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو روایتی انداز سے Covid19 کی تشخیص اور دیگر معاملات میں صلاحیت کم ہونے کی ذمہ داری اپنے پیشرو باراک اوباما پر ڈال رہے تھے، انتہائی اقدامات اٹھانے پر مجبور ہیں۔ کیلی فورنیا میں 65 سال سے زائد عمر کے افراد کو گھروں سے نکلنے سے منع کردیا گیاہے۔ امریکہ بھر میں تعلیمی ادارے، سینما گھر، جم، ریستوران اور بار بند کر دیئے گئے۔ اس سے بدتر صورتحال اٹلی میں ہے جو چین کے بعد سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے یہاں 2158 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ایران853 ہلاکتوں کیساتھ کرونا وائرس سے متاثرہ ممالک میں تیسرے نمبر پر ہے، وہ امریکہ کی لگائی ہوئی پابندیوں کی بنا پر حفاظتی تدابیر پر پوری طرح عمل درآمد کرنے سے قاصر رہا ہے۔ اسی بنا پر شاید تاریخ میں پہلی مرتبہ ایرانی حکومت نے آئی ایم ایف سے مدد مانگی ہے۔
ٹرمپ سمیت مغربی دنیا اور ان کا میڈیا چین پر تنقید کر رہا تھا کہ وہاں مغربی جمہوری آزادیوں کا فقدان ہے لہٰذا چین اپنے عوام پر پابندیاں لگا رہا ہے مزید برآں اس پر بھی بغلیں بجائی جا رہی تھیں کہ کرونا کی بنا پر چینی معیشت ہل کر رہ جائے گی لیکن مغرب جو وباؤں، دہشت گردی اور ایسے دیگر عوامل کے لیے تیسری دنیا کو مورد الزام ٹھہراتا تھا اب خود ایسی وبا سے نبردآزما ہونے پر طوہاً وکرہاً مجبور ہو گیا ہے جس نے مغرب کے سماجی اور اقتصادی ڈھانچے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ امریکہ نے اپنے اقتصادی نظام کو بچانے اورعوام کی اقتصادی مشکلات کو قدرے آسان کرنے کے لیے شرح سود کو قریباً صفر کردیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کرونا وائرس کے منفی اقتصادی اثرات اتنے شدید ہونگے اسے امریکہ میں 1929ء میں آنے والی Great Depression سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ امریکہ میں امسال نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں صدارتی امیدوارجو بائیڈن اور برینی سینڈرنے حر یف ہونے کے باوجود بیک زبان مطالبہ کیا ہے کہ امریکی فوج سے مدد مانگ لی جائے۔ جہاں تک یورپ کا تعلق ہے انہوں نے بڑی محنت اور تزک وا حتشام سے اپنے بارڈر ختم کر کے یورپی یونین بنائی تھی لیکن اب جرمنی، فرانس، سپین اور اٹلی جیسے ملک اپنے بارڈر سیل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ہمیں یہ دن بھی دیکھنا ہے کہ شام، افغانستان میں خانہ جنگی کے باعث ایشیائی تارکین وطن اور مہاجرین پر مغرب کے دروازے بند کر دیئے جاتے تھے آج امریکی صدر نے یورپ سے آنے والی تمام پروازوں پر پابندی لگا دی ہے اور عملی طور پر برطانیہ سمیت یورپینز کا داخلہ بند کر دیا ہے۔
اس صورتحال پر خوش ہونے کے بجائے ہمیں اپنی فکر کرنی چاہیے کیونکہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ اگرچہ ڈبلیو ایچ او کے پاکستان میں کنٹری ہیڈ ڈاکٹر پالستیھا نے کراچی کے ہسپتالوں کے دورے کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی کرونا وائرس کو دوررکھنے کی کوششیں قابل تعریف ہیں۔ جناح میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اس معاملے میں کسی ملک سے کم نہیں ہے۔ اس امر کے باوجود کہ وزیراعظم نے نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس بلایا جس میں عسکری قیادت کے علاوہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی شریک تھے، روایتی اقدامات کے علاوہ ہنگامی صورتحال سے نبٹنے کے لیے معاملات تشنہ لگتے ہیں، شاید اسی بنا پر پی ایس ایل کے دونوں سیمی فائنل اور فائنل ملتوی کر دئیے گئے ہیں۔ لگتا ہے کہ ہماری حکومت سراب کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔ ملک میں محاذ آرائی کو ختم کر کے اپوزیشن اور میڈیا کے ساتھ کم از کم سیز فائرکرکے انہیں آن بورڈ لینا چاہیے۔ امید ہے کہ وزیر اعظم اپنے متوقع خطاب میں قوم کے حوصلے بلند کریں گے۔