بھارت سے تعلقات کی توقعات؟
حکمرانوں کو واثق امید تھی کہ بشکیک میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کی سائیڈ لائن پر وزیراعظم عمران خان کی بھارت کے دوبارہ منتخب ہونے والے ہم منصب نریندر مودی کے ساتھ غیر رسمی ملاقا ت ہو جائے گی لیکن یہ توقعات نقش بر آب ثابت ہوئیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جو سب سے زیادہ پُر امید تھے نے جھینپتے ہوئے انداز میں کہا کہ ہمیں بھی ملاقات کی کوئی جلدی نہیں۔ نہ جانے کیوں خان صا حب اور ان کی جماعت جو نوازشریف کے خلاف یہ نعرہ لگاتے نہیں تھکتی تھی کہ’ مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے، لیکن اقتدار میں آتے ہی ان کا پینترا بدل گیا۔ انھوں نے پہلے تو اس توقع کا اظہار کیا کہ مودی کا انتخاب پاکستان کے لیے بہتر ثابت ہو گا اور دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات بحال ہو جا ئیں گے، اگرچہ مودی کو دوبارہ حلف اٹھائے ایک ماہ بھی نہیں ہوا، فی الحال الٹی گنگا ہی بہہ رہی ہے۔ سب سے پہلے تو مودی نے اپنی وزارت عظمیٰ کی تقریب حلف برداری میں پاکستان کے سوا تمام سارک ممالک کے سربراہان مملکت اور حکومت کو شرکت کی دعوت دی اور ایسا یقینا پاکستان کی سبکی کے لیے کیا گیا۔ نہ جانے کیوں خان صاحب بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے معاملے میں وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں جوان کے پیشرو میاں نوازشریف نے کی تھیں۔ نریندر مودی نے مئی 2014ء میں میاں نوازشریف کو بڑے طمطراق سے اپنی تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی جس پر میاں صاحب بھاگم بھاگ نئی دہلی پہنچے۔ بعدازاں دو طرفہ میٹنگ میں نومنتخب وزیراعظم نے اپنے’ مہمان، کے سامنے شکایا ت کا انبار لگا دیا اور اس حوالے سے ان کی ترجمان سشما سوراج نے میڈیا کو پاکستان مخالف بریفینگ بھی دی۔ گویا کہ مودی کا پیغام واضح تھا کہ میں اگر بات کروں گا تو کسی رورعایت کے بغیر ٹھونک بجا کر کروں گا لیکن نوازشریف کہاں نچلے بیٹھنے والے تھے اپنی نواسی مہر النسا کی شادی کے موقع پر 25 دسمبر 2015ء کو جو ان کی سالگرہ کا دن بھی ہے کابل میں موجود نریندر مودی کو سٹیل ٹائیکون سجن جندال کی وساطت سے فون کھڑکا دیا کہ وہ نئی دہلی واپس جاتے ہوئے لاہور سے ہوتے جائیں۔ بھارتی وزیراعظم نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں انکشاف کیا کہ ان کی لاہور جانے کی کوئی نیت نہیں تھی اور نہ ہی اس کی تیاری، لیکن وہ پھر بھی نوازشریف کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے چند گھنٹوں کے لیے لاہور پہنچ گئے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کے ٹھیک ایک ہفتے کے بعد بھارتی ائر فورس کی پٹھانکوٹ بیس پر دہشت گردوں کا حملہ ہو گیا جس کا فطری طور پر سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا گیا۔ اس وقت جنرل راحیل شریف پاک فوج کے سربراہ تھے۔ وہ اور ان کے جانشین جنرل قمر جاوید باجوہ بھی بھارت سے برابری کی بنیاد پر تعلقات بہتر بنانے کے مخالف نہیں، انھیں بخوبی ادراک ہے کہ پاکستان کے لیے سکیورٹی کے علاوہ اصل چیلنج اس کی بگڑی ہوئی اقتصادیات ہے، جسے ٹھیک کرنا ہے، لیکن فی الحال ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ نریندر مودی اسلام اور مسلمان مخالف بیانیے پر حالیہ انتخابات بھاری اکثریت سے جیتے ہیں۔ فی الحال تو اپنی نام نہاد’ ہمسائے پہلے، کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں لیکن عملی طور پر یہ پالیسی’ مائنس پاکستان، ہے۔ منتخب ہوتے ہی وہ چھوٹے سے جزیرہ نما مسلمان ملک مالدیپ گئے اور وہاں کی حکومت کو ہر قسم کی اقتصادی امداد کی پیشکش کی۔ اس کے بعد انھوں نے سری لنکا جس کے ماضی میں بھارت سے تعلقات اتنے خوشگوار نہیں رہے کا دورہ کیا اور وہاں جاتے ہی اس چرچ کا دورہ کیا جس پر اپریل میں ایسٹر کے موقع پر دہشت گردوں کے حملے میں 258افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ایران کو چابہار بندر گاہ بنانے میں بھارت کا تعاون پہلے ہی حاصل ہے اور افغانستان سے دفاع، انٹیلی جنس اور اقتصادی تعاون میں بھارت کا سٹرٹیجک رول ہے۔ اس صورتحال کو مجموعی تناظر میں دیکھا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی خطے میں پاکستان کو یک وتنہا کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں، یہ فیصلہ وقت کرے گا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ہمسایوں سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے بھرپور کوششیں کرنی چاہئیں۔ افغانستان تو پہلے ہی پاکستان کو شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور برادر اسلامی ملک ایران کے ساتھ بھی تعلقات گرم جوشی پر مبنی نہیں لگتے، محض یہ توقع کرتے رہنے سے کہ چین سے ہمارے تعلقات ہمالیہ کی طرح بلند اور سمندر جتنے گہرے ہیں کام نہیں چلے گا۔ اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سمت واضح طور پر متعین نہیں ہو سکی۔ امریکہ پاکستان پر مسلسل دباؤ بڑھا رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیوکے دورہ بھارت سے عین قبل نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے ایک بیان میں واضح طور پر کہا ہے آئی ایم ایف جس سے قرضہ لینے پر پاکستان مجبور ہے اس پر پورا دباؤ ڈالے اور بنیادی تبدیلیاں کرائے بغیر پاکستان کو قرضہ نہ دے۔ محترمہ نے یہ واکھیان بھی دیا ہے کہ دہشت گردوں سے اسلام آباد کا تعاون قابل قبول نہیں ہے۔ عجب طرفہ تماشا ہے کہ ایک طرف امریکہ پاکستان کے ذریعے افغان طالبان سے بات چیت پر بھی زور دے رہا ہے اور دھمکیاں بھی۔ بھارت سے امریکہ کا تعاونڈونلڈ ٹرمپ کے پیشرو باراک اوباما اوران سے پہلے جارج ڈبلیو بش کے دور سے چلا آ رہا ہے لیکن ٹرمپ جن کے اسلام مخالف اور اسرائیل نواز خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، مودی سے جپھی ڈالنے کے لیے کوشاں ہیں۔ گویا کہ پاکستان کی یہ خواہش بھارت سے تعلقات یقینا خوشگوار ہونے چاہئیں لیکن شاید موجودہ وقت اس کے لیے مناسب نہیں ہے۔ فروری میں پلوامہ واقعے کے بعد بھارت کو اپنے جارحانہ عزائم کے حوالے سے جو منہ کی کھانا پڑی، اس سے بھی نریندر مودی خائف نظر آتے ہیں لیکن ابھی عمران خان اور نریندر مودی کے پاس تعلقات بہتر بنانے کے لیے خاصا وقت ہے۔ تعلقات کی بہتری کے لیے دونوں ممالک کو اعتماد کی بحالی کے لیے اقدامات کرنا پڑیں گے۔ مودی نے اپنی فضائیہ کے ذریعے بالا کوٹ تک مار کر کے بدترین جارحیت کی تھی پاکستان نے بھی اس کا بھرپور جواب دیا تھا۔ دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان اس قسم کی مناقشت خطے میں امن اور سلامتی کے لیے شدید خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ خان صاحب نے حال ہی میں روسی جریدے کو انٹرویو میں درست کہا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں اور انھوں نے امید کا اظہار کیا ہے کہ مودی مسئلہ کشمیر حل کرا دیں گے۔ وزیراعظم نے بڑے پتے بات کی ہے کہ دونوں ملک ہتھیاروں کے بجائے یہ پیسہ عوامی فلاح کے لیے خرچ کریں، کم از کم پاکستان کی یہی خواہش ہے۔ لیکن تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، تعلقات بہتر بنانے کے لیے دونوں ملکوں کو پلوامہ سے آگے سوچنا ہو گا۔ حال ہی میں نریندر مودی کو بشکیک جانے کے لیے پاکستانی فضائی حدود سے گزرنے کے حوالے سے پہلے پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اجازت نہیں دی گئی لیکن بعد میں کہا گیا کہ اجا زت دے دی گئی، لیکن مودی نے اس سہولت سے فائدہ اٹھا نے سے انکار کر دیا۔ ہونا تو یہ چاہیے اگر سٹرٹیجک طور پر اب اس پابندی کی ضرورت نہیں تو اسے ختم کر دینا چاہیے بشرطیکہ بھارت بھی پلوامہ کے بعد لگائی گئی اقتصادی اور دیگر پابندیوں کو واپس لینے کو تیار ہو۔ بھارتی پابندیوں کی وجہ سے بہت سی پاکستانی برآمدات بارڈر پر رکی پڑی ہیں کیونکہ بھارت نے پاکستانی درآمدات پر دو سو فیصد ڈیوٹی لگا دی ہے۔ اسی طرح دونوں ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بھی تحمل اور بردباری سے کام لینا چاہیے۔ حال ہی میں نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی افطار پارٹی میں جانے والے مہمانوں کو بھارتی انٹیلی جنس اداروں نے روکا اور ہراساں کیا۔ بعدازاں اسی قسم کا سلوک اسلام آباد میں سرینا ہوٹل میں بھارتی ہائی کمشنر کی افطار پارٹی کے شرکا کے ساتھ کیا گیا۔ اس قسم کی باتوں کی دونوں ملکوں کو حوصلہ شکنی کرنا ہو گی۔ فی الحال بھارت پاکستان کے ساتھ سلسلہ جنبانی بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتا اور نہ ہی اسے کوئی جلدی ہے۔ ہمیں بھی قومی وقار کے تقاضوں کو مقدم رکھتے ہوئے لجاجت کا مظاہر ہ نہیں کرنا چاہیے۔