باندھ کر کیسے مذاکرات؟
طویل عرصے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے" سب کچھ، میاں نوازشریف کو میڈیا سے مختصر انٹرایکشن کرنے کا موقع ملا جو حکومتی بزر جمہروں نے بلا واسطہ طور پر خود فراہم کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہبر میڈیا اور اپنے سیاسی حواریوں سے دور کوٹ لکھپت جیل کی ایک کوٹھڑی میں بند "پاناماگیٹ، کے ہاتھوں نااہل ہو کر اقامہ کیس میں طویل قید کاٹ رہے ہیں لیکن لگتا ہے کہ انتقامی ذہنیت کے حامل حکومتی اہلکار اس پر بھی راضی نہیں، اس وقت تو ان کے اعصاب پر مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ اور اسلام آباد دھرنا سوار ہے غالباً انھیں اس پر اطمینان تھا کہ میاں شہبازشریف دھرنے کے خلاف ہیں لیکن جیل میں بیٹھے نوازشریف نے اپنے بھائی کو ویٹو کر دیا ہے۔ اگرچہ کوٹ لکھپت جیل میں تین بار وزیراعظم رہنے والے مسلم لیگ (ن) کے مدارا لمہام کا رابطہ شہباز شریف اور غالبا ً جیل میں اپنی ہارڈ لائنر صاحبزادی سے بھی ہو گا لیکن ناقدین کے مطابق میاں صاحب کو ان سے بھی دور کرنے اور مولانا فضل الرحمن کی حمایت کرنے کی پاداش میں نیب نے ایک نئے کیس میں الجھا کر احتساب عدالت سے ان کا 14روز کا ریمانڈ لے لیا ہے۔ نیب عدالت میں نواز شریف کے وکیل کا موقف تھا کہ وہ تو چودھری شوگر ملز کے کبھی حصہ دار نہیں رہے اور ان تمام معاملات کی"پاناما گیٹ " میں سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی جانے والی جے آئی ٹی پہلے ہی چھان بین کر چکی ہے لیکن حسب توقع احتساب عدالت کے فاضل جج نے وکیل کا موقف تسلیم نہیں کیا۔ جہاں جج بھی وٹس ایپ پر تبدیل ہوتے ہوں وہاں یہ کوئی زیادہ حیران کن بات نہیں۔
شیخ رشید اور ان کی طرزکے رہنما یہ تاثر دے رہے تھے کہ نوازشریف تو این آر او کی بھیک مانگ رہے ہیں لیکن احتساب عدالت کے باہر نوازشریف نے جس صاف گوئی سے کام لیا اس سے ایسے دعوؤں کی قلعی کھل گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے کالا پانی لے جائیں یا گوانتانا موبے، یہ ان کی بھول ہے کہ ہم جھک جائیں گے۔ میرا سر جھکایا نہیں جا سکتا، جینا ذلت سے ہو تو مرنا اچھا، ووٹ کو عزت دو کے نعرے کی وجہ سے آج یہاں ہوں، دنیا میں عزت کمانے کے لیے ووٹ کو عزت دینا ہوگی۔ برادر خورد کے برعکس نوازشریف نے فضل الرحمن کے موقف کی بھرپور تائید کرتے ہوئے آزادی مارچ کی مکمل حمایت کا اعلان کر دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کی عام انتخابات کے فوری بعد اسمبلیوں سے استعفوں اور احتجاج کی بات میں وزن تھا اور آ ج میں سمجھتا ہوں کہ ان کے مشورے پر عمل نہ کرنا ایک بڑی غلطی تھی۔
آزادی مارچ میں شرکت یا عدم شرکت کے بارے میں بدھ کو ہونے والے مسلم لیگ (ن) کی مجلس عاملہ کے اجلاس کے بارے میں جس کی صدارت پارٹی کے صدر شہبازشریف کر رہے تھے میڈیا میں خاصی چہ مگوئیاں ہوئیں۔ وہاں شہبازشریف نے برملا اپنے اس موقف کا اظہار کیا کہ مسلم لیگ (ن) کو مولانا کے مارچ میں شرکت نہیں کرنی چاہیے۔ غالبا ً ان کا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ ایسے وقت میں جب تحریک انصاف کی حکومت کو مقتدر حلقوں کی مکمل حمایت حاصل ہے اگر دھرنا ناکام ہو گیا تو مستقبل میں اس کے اثرات مسلم لیگ (ن) کے لیے اچھے نہیں ہونگے۔ پارٹی کی ترجمان محترمہ مریم اورنگزیب نے دونوں بھائیوں کے درمیان دھرنے سے متعلق اختلافات کی خبروں کی سختی سے تردید کر دی ہے۔ تاہم ساتھ ہی اسی حوالے سے تحقیقات ہو رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے اجلاسوں میں ہونے والی خفیہ باتیں کون سے مخبروں کے ذریعے باہر لیک ہوئیں۔ شریف برادران کے درمیان اختلافات کی اطلاعات کو اس وقت مزید تقویت پہنچی جب اگلے ہی روز شہبازشریف یہ کہہ کر ان کی کمر میں تکلیف ہے نہ صرف جمعرات کو نوازشریف سے ہونے والی ملاقات پر نہیں گئے بلکہ اسی روز ہونے والی پارٹی کی میٹنگ سے بھی عنقا ہو گئے۔ ان کی غیر حاضری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے داماد اول کیپٹن (ر) صفدر نے آ کر یہ اعلان کر دیا کہ نوازشریف نے پیغام دیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) لانگ مارچ میں دامے درمے سخنے شامل ہو گی اور اس حوالے سے وہ ایک خط مولانا فضل الرحمن کو پہلے ہی لکھ چکے ہیں۔ کیپٹن (ر) صفدر سوائے اس کے کہ وہ میاں نوازشریف کی صاحبزادی مریم کے شوہر ہیں پارٹی میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ انھوں نے مزید شوشہ چھوڑا کہ میاں نوازشریف نے اس بارے میں تمام تحریری ہدایات اپنے صاحبزادے حسین نواز کو دے دی ہیں۔ کیپٹن (ر) صفدر غیر ذمہ دارانہ گفتگو کرنے میں یکتا ہیں لیکن اس بار تو انھوں نے حد ہی کر دی، ان کا متذکرہ بیان گویاکہ بیچ چوراہے ہنڈیا پھوڑنے کے مترادف تھا یعنی نوازشریف کو اب اپنے چھوٹے بھائی پر اعتماد نہیں رہا لہٰذا وہ اپنے داماد کے ذریعے پیغام رسانی کر رہے ہیں، شاید اسی بنا پر شہبازشریف کو بھی وضاحت کرنا پڑی کہ وہ سیاست چھوڑ دیں گے لیکن بڑے بھائی سے بغاوت نہیں کریں گے۔
شہبازشریف نے کبھی اس بات کو نہیں چھپایا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانے کے ہمیشہ سے خلاف رہے ہیں۔ جب نوازشریف سپریم کورٹ کے حکم پر7 201 ء میں وزارت عظمیٰ سے فارغ کئے گئے تو انھوں نے اور ان کے دست راست چودھری نثار نے جی ٹی روڈ سے جلسوں اور جلوس کے ذریعے اسلام آباد سے لاہور جانے کی مخالفت کی اور مشورہ دیا کہ آپ خاموشی سے موٹر وے کے ذریعے لاہور چلے جائیں لیکن نوازشریف نے بھائی کا مشورہ رد کر دیا اور "مجھے کیوں نکالا، کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور کی طرف رواں دواں ہو گئے۔ بعدازاں جب الیکشن سے عین قبل نوازشریف لندن سے لاہور پہنچے تو شہبازشریف اس بنا پرکہ وہ ہجوم میں پھنس گئے تھے بروقت لاہور ائیر پورٹ نہ پہنچ سکے۔ لیکن اکثر مبصرین یہی کہتے ہیں کہ شہبازشریف دانستہ طور پر بروقت نہیں پہنچے تھے۔
دراصل جب جنرل ضیاء الحق نے اپنے ڈی جی، آئی ایس آئی جنرل حمید گل کے ذریعے اور مہران بینک کے یونس حبیب کے تعاون سے آئی جے آئی کی بنیاد رکھی تو اس کا مقصد اینٹی پیپلزپارٹی اینٹی بھٹو اتحاد بنانا تھا، اسی اتحاد کی کوکھ سے مسلم لیگ (ن ) نے جنم لیا۔ میاں صاحب تو کچھ برسوں بعد ایک نسبتاًانقلابی اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاستدان بن گئے لیکن شہبازشریف وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ ناقدین کے مطابق نوازشریف کی بھی سویلین کنٹرول کی کوششیں دراصل بطور وزیراعظم محض ہر آرمی چیف پر غلبہ حاصل کرنے تک کار فرما رہیں۔ بہرحال آج کے تناظر میں میاں صاحب کا یہ کہنا کہ شہبازشریف مارچ میں شرکت کے فیصلے کا باقاعدہ اعلان کریں گے، دونوں بھائیوں کے الگ الگ سمت جانے کی خبریں خود بخود دم توڑ دیں گی۔ جہاں تک باقی اپوزیشن جماعتوں کا تعلق ہے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ آزادی مارچ میں شرکت نہ کرنے کے باوجود اس کی بھرپور حمایت کریں گے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے تو باقاعدہ شرکت کا اعلان کر دیا ہے، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے محمود اچکزئی بھی فضل الرحمن کی حمایت کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کی ناقص حکمت عملی کی بنا پر اپوزیشن طوہاً وکرہاً اکٹھی ہوتی جا رہی ہے اور ایک گرینڈ الائنس بنتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اس پس منظر میں وزیراعظم عمران خان نے سرکاری ترجمانوں کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ آزادی مارچ کے حوالے سے جے یو آئی (ف) سے مذاکرات کا آپشن کھلا ہے۔ یہ خوش آئند خبر ہے نہ جانے ان کی اچانک کیا مجبوری بن گئی کہ وہ بات چیت پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ لیکن یہ کوئی سنجیدہ کوشش نہیں لگتی ہے کیونکہ کہ ایک طرف تو اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائیاں مزید تیز کر دی جائیں اور دوسری طرف یہ کہا جائے کہ ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں، مخالفین کے ہاتھ باندھ کر ان سے کیسے مذاکرات ہو سکتے ہیں۔