بیل آؤٹ پیکیج!
کفر ٹوٹاخد اخد اکر کے، بالآخر وزیر خزانہ اسد عمر نے تحریک انصاف کے حکومت سنبھالنے کے قریباً دوماہ کے دوران مسلسل لیت ولعل سے کام لینے کے بعد انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ سے ملاقات میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے 7.2بلین ڈالر کے ’بیل آئوٹ پیکیج، کی باضابطہ درخواست کر دی۔ یہ بڑھ کر 12 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ اب آئی ایم ایف کی ٹیم اسلام آباد آ کر پاکستانی حکام سے باقاعدہ مذاکرات کا آغاز کرے گی۔ پاکستان1988ء کے بعد جب سے آئی ایم ایف کے اقتصادی ڈھانچے کی مانیٹرنگ کے پروگرام میں گیا ہے یہ 13ویں بار ہے کہ حکومت پاکستان اپنے شدید اقتصادی بحران سے نبٹنے کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے قرض کی خاطر ہاتھ پھیلا رہی ہے۔ ویسے تو پاکستان کی شتر بے مہار معیشت کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہونی چاہیے لیکن آئی ایم ایف سے نئے پیکیج کی درخواست پہلے والے قرضوں سے مختلف ہو گی جیسا کہ2008 میں آصف زرداری کے ابتدائی دور میں وزیر خزانہ شوکت ترین نے چینل 92 میں میرے پروگرام ’ہو کیا رہا ہے، میں کہا کہ ان کے دور میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے آتے ہی آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کا فیصلہ کرلیاتھا۔ اس وقت بھی چین اور سعودی عرب کی طرح یہ آپشن بھی تھا کہ فرینڈز آف پاکستان جس میں کئی دوست ممالک شامل تھے ہماری مدد کر دیں تو آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی لیکن ساتھ ہی ساتھ آئی ایم ایف سے بھی مذاکرات شروع کر دیئے گئے اور حسب توقع جب ’فرینڈز آ ف پاکستان، نے مد د نہ کی تو آئی ایم ایف سے مذاکرات جلد نبٹا کر پاکستان اس کے پروگرام میں چلا گیا۔ ترین صاحب کے مطابق اس وقت بھی اکانومی کے حالات موجودہ صورتحال سے بھی بدتر تھے۔ روپیہ 67 روپے فی ڈالر سے گر کر80 روپے تک پہنچ گیا تھا اور زرمبادلہ کے ذخائر بھی کم سے کم سطح پر آگئے تھے۔ سابق وزیر خزانہ نے بڑی پتے کی بات کہی کہ ’اس وقت پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ایسے کشیدہ نہیں تھے، جیسے کہ آج ہیں۔ واضح رہے کہ جب 2008ء میں پیپلزپارٹی نے حکومت سنبھالی تو پاکستان کے پاس 9 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر موجود تھے۔ بعدازاں 2013ء میں نواز شریف کی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کی ٹھان لی اور ان کے اقتدار میں آنے کے چند ہفتوں بعد ہی آئی ایم ایف کے قرضوں کے ایک پروگرام پر اتفاق رائے ہو گیا۔ نہ جانے تحریک انصاف کی حکومت نے اس معاملے میں تساہل سے کام کیوں لیا؟ ۔ غالباً وزیراعظم عمران خان کے مشیر انھیں یقین دلاتے رہے کہ سعودی عرب اور چین سے رقم مل جائے گی اور آئی ایم ایف کے پروگرام سے ہم بچ جائیں گے۔ تحریک انصاف کے سربراہ کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ وہ سابق حکومتوں کو مسلسل مطعون کرتے رہے ہیں کہ انھوں نے قرضے کئی گنا بڑھا دیئے اور اپنے خطاب میں یہاں تک کہہ گئے مزید قرضے مانگنے کے بجائے وہ خودکشی کو ترجیح دیں گے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اب انھیں احسا س ہو گیا ہے کہ قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی کے لیے بھی قرضے لینا پڑیں گے۔ اس دوران بہت نقصان ہوا سٹاک مارکیٹ ایک ہی روز میں 1328پوائنٹس گر گئی اور 238ارب کا نقصان ہوا۔ اسی طرح روپیہ بھی فری فال میں گزشتہ پیر کے روز 9 روپے تک گر گیا یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا جب آئی ایم ایف کا وفد اسلام آباد میں پاکستان کی اقتصادی صورتحال کا بنظر غائز جائزہ لے رہا تھا۔ آئی ایم ایف کے مطالبے واضح ہیں ان میں سے ایک تو یہی تھا اگر چہ سابق حکومت کے آخری ادوار میں اسحاق ڈار کے جانے کے بعد روپے کی قدر میں کمی ہوئی لیکن یہ پھر بھی اس کی حقیقی ویلیو سے زیادہ تھی اور اب تو پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں جنوبی ایشیا میں سب سے سستا ہو گیا ہے۔ اس لحاظ سے آئی ایم ایف کا ایک مطالبہ توپورا ہو گیا ہے۔ لیکن جیسا کہ پیرس سے آئی ایم ایف کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے اس مرتبہ پاکستان کواپنے تمام قرضوں کی تفصیل بتانا پڑے گی اگر چہ متذکرہ بیان میں چین کانام نہیں لیا گیا لیکن آئی ایم ایف کو بھی خدشہ ہے کہ ان سے لیے گئے پیسے چین کے قرضے اتارنے کے لیے استعمال ہونگے۔ اگر چہ اسلام آباد میں چینی سفیر یاؤ جنگ کہہ چکے ہیں کہ چینی قرضوں کی واپسی 2021ء میں شروع ہو گی لیکن ’سی پیک، "میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح"۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو تو برملا کہہ چکے ہیں کہ آئی ایم ایف کا قرضہ چین اور اس کے سرمایہ کاروں کو بیل آؤٹ کرنے کے لیے استعمال نہیں ہو سکتا۔ واضح رہے کہ آئی ایم ایف میں سب سے بڑا فنڈز دینے والا ملک امریکہ ہے۔ اس کے پاس فنڈز کے بورڈ کا 16فیصد ووٹ ہے، اس کے بعد چین کا نمبر آتا ہے جو6فیصد ہے۔ لہٰذا کسی بھی پیکیج کی منظوری کے لیے امریکہ اور چین کی منظوری کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان کوچینی قرضے کی وجہ سے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا ہے۔ اس وقت امریکی صدر ٹرمپ کی پالیسیاں پاکستانی کے لیے اتنی موافق نہیں ہیں۔ امر یکہ سمجھتا ہے اس کے باوجود کہ پاکستان نے دہشت گردی پر خاصا قابو پایا وہ دانستہ طور پر بعض ’دہشتگرد گروپوں، کو ہمسایہ ملکوں میں کارروائیوں کے لیے پناہ دیتا ہے۔ جس کی پاکستان ہمیشہ دوٹوک تردید کرتا ہے لیکن امریکہ اس ضمن میں پاکستانی لیڈرشپ سے اپنے عدم استعمال کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ ویسے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن ٹرمپ انتظامیہ اپنے پیشروؤں کے برعکس کہتی ہے کہ ہم پاکستان کو امداد کیوں دیں جو ہمارے دشمنوں کو پالنے کے لیے استعمال کی جائے گی۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان کاکہناہے کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ موجودہ آئی ایم ایف کے پروگرام اور ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے پاکستان کو آج جتنے بیرونی دباؤ کا سامنا ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ اس پس منظر میں آئی ایم ایف جن شرائط پر زور دے رہا ہے ان میں قرضوں کے بارے میں شفافیت کے علاوہ خسارے میں چلنے والے پی آئی اے، سٹیل ملز اور ریلویز جیسے اداروں کو پرائیویٹائز کرنا، سبسڈیز میں خاطر خواہ کمی کرنا اور ٹیکسوں میں خاطر خواہ اضافہ شامل ہیں۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو دس فیصد ہے جوکم از کم اس سے دگنا ہونا چاہیے کئی طبقے جن میں زرعی شعبہ اور تاجر سرفہرست ہیں سرے سے ٹیکس دیتے ہی نہیں۔ پاکستان کی22 کروڑ کی آبادی میں 8 لاکھ کے قریب افراد ٹیکس نیٹ میں ہیں۔ نواز شریف کے حالیہ دور کے سوا پاکستان نے شاذ ہی کبھی آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل کیا ہو۔ اسی بنا پر اس بار آئی ایم ایف شدید قسم کی مانیٹرنگ کا میکنزم بنائے گا۔ آئی ایم ایف کے دباؤ کے تحت ہی بجلی کی قیمتوں میں 2 روپے فی یونٹ یعنی 18فیصد اضافہ کیا گیا۔ اب آئی ایم ایف پیکیج کے تحت برآمدات بڑھانے پر زور دیا جائے گا کیونکہ پاکستان کی برآمدات کی نسبت درآمدات آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ اس لحا ظ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور بجٹ خسارے میں کمی دکھانا ہو گی۔ ان اقدامات پر عمل درآمد سے وقتی طور پر مہنگائی ہو گی اور غریب آدمی خاصی مشکلات کا سامناکرے گا۔ اگر پاکستان نے اپنی معیشت کو صحیح بنیادوں پر استوار کرنا ہے تو یہ کڑوی گولی نگلنا ہی پڑے گی۔ بھارت اور افغانستان سمیت ہمسایہ ملکوں اور بین الاقوامی طور پر تجارت کو فروغ دینا بھی اس پروگرام کا حصہ ہے۔ آئی ایم ایف پیکیج کے حوالے سے اندرون ملک اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا کیونکہ اس کے بعد مہنگائی کا جوطوفان اٹھے گا اپوزیشن اس کو جواز بنا کرسٹرکوں پر آنے کی تیاری کر رہی ہے۔ غالباً موجودہ سویلین اور خاکی لیڈر شپ کوان مسائل کا پوری طرح ادراک ہے اور آئندہ مہینوں میں اس میں اور زیادہ پیش رفت ہونی چاہیے۔