بد گمانیاں
افغانستان ایسا ملک ہے جو مسلسل چالیس برس سے عملی طور پر حالت جنگ میں ہے اور گزشتہ سترہ برس سے تو امریکہ وہاں اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ لڑ رہا ہے۔ گزشتہ چار برس میں افغانستان کے معاملات کے حوالے سے پاکستان کا کلیدی کردار رہا ہے۔ دسمبر 1979ء میں جب سوویت یونین کی فوج نے افغانستان پر یلغار کی تو پاکستان راتوں رات فرنٹ لائن سٹیٹ بن گیا۔ اس وقت فوجی آمر جنرل ضیاء الحق بلا شرکت غیرے پاکستان کے حکمران تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے اس جنگ سے خوب فائدہ اٹھایا۔ پاکستان سیٹو اور سینٹو کے تلخ تجربات کے باوجود ایک بار پھر امریکہ کا سٹریٹجک اتحادی بن گیا اور اربوں ڈالر کی اقتصادی اور فوجی امداد اینٹھی لیکن پاکستان کے لیے افغانستان کی صورتحال کے دوررس محرکات اتنے مثبت نہیں تھے۔ سوویت فوجیں تو جنیوا معاہدے کے تحت 1988-89ء میں وہاں سے نکل گئیں لیکن نہ صرف افغانستان اور پاکستان بلکہ دنیا بھر کے لیے ایسے مسائل چھوڑ گئیں جن سے نبرد آزما ہونے کیلئے آج بھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پاکستان کو تو ایک کلچر جو ضیاء الحق کے نظریات سے لگا کھاتا تھا ورثے میں ملا۔ جنرل ضیاء الحق نے وطن عزیز کو مختلف جہادی گروپوں کی تربیت کی آماجگاہ بنا دیا۔ کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر بھی اس دور کی باقیات ہیں۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ القاعدہ کا بانی اور سربراہ اسامہ بن لادن جس نے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر تاریخ کے سب سے بڑے حملے جسے سانحہ نائن الیون سے یاد کیا جاتا ہے کی ذمہ داری قبول کی، آٹھ برس تک ایبٹ آباد میں چھپا بیٹھا رہا اور 2 مئی 2011ء کو امریکی سیلز کے ہاتھوں وہیں پر مارا گیا۔ پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان کی دہشتگردی اور افغانستان میں افغان طالبان کا زور رواں دہائی کی ایک بدیہی حقیقت ہے۔ پاکستان نے تو اس دہشتگردی پر کامیابی سے کافی حد تک قابو پا لیا ہے۔ اس کے لیے پاکستان کی فوج، پولیس اور عوام نے جان و مال کی بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان میں نائن الیون سے اب تک تقریباً 17 ہزار دہشتگرد مارے گئے، اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں ملک میں دہشتگردوں کا کوئی منظم نیٹ ورک موجود نہیں۔ افغانستان اور ضیائی کلچر کی ایک اور سوغات ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی، عدم برداشت کے رویے جس کا بین ثبوت ہزارہ برادری کے خلاف دہشتگردی کی کارروائیاں ہیں۔ اس سارے معاملے میں تاریخ نے ایک بار پھر پاکستان کو سنٹر سٹیج پر لا کھڑا کیا ہے۔ امریکہ سالہا سال سے افغان طالبان کو زیر کرنے کی کوششوں میں ناکامی کے بعد اب افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام کے لیے انہی طالبان سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہے اور ان مذاکرات کے لیے پاکستان پر دبائو ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے جو وہ مقدور بھر کر بھی رہا ہے۔ افغانستان میں امن کے حوالے سے امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد پاکستان سمیت تمام فریقین سے رابطے میں ہیں۔ 25 اپریل کو ماسکو میں چین اور روس کے ساتھ ان کے افغانستان کے بارے میں سہ فریقی مذاکرات ہوئے ہیں۔ حال ہی میں امریکی نائب معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز اور زلمے خلیل زاد نے پاکستان سے مذاکرات میں دو طرفہ تعلقات، خطے میں امن و امان اور افغان مفاہمتی عمل پر تبادلہ خیال کیا۔ ان مذاکرات میں پاکستان نے فریقین کو یقین دلایا کہ وہ اس تاریخی موڑ پر افغانستان میں امن کے لیے ہر قسم کا تعاون کرے گا۔ دراصل بات دو معاملات پر رکی ہوئی ہے۔ ایک تو طالبان اشرف غنی کے ساتھ جسے وہ افغانستان کا کٹھ پتلی صدر سمجھتے ہیں سے مذاکرات کرنے پر تیار نہیں اور نہ ہی وہ موسم بہار میں اپنی کارروائیاں اور جنگ بندی کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ظاہر ہے طالبان جو زمینی طور پر افغانستان کے زیادہ تر حصے پر قابض ہیں یا اثرونفوذ رکھتے ہیں وہ کیونکر مذاکرات کے ذریعے اشرف غنی کو گود میں بٹھا لیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کو اگر یہ امید تھی کہ افغانستان میں امن کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کے حوالے سے انعام کے طور پر امریکہ اور پاکستان کے تعلقات سے بہتر ہو جائیں گے تو یہ توقعات تاحال نقش برآب ثابت ہوئی ہیں۔ پاکستان کے لیے فوجی امداد تو پہلے ہی بند تھی لیکن اقتصادی امداد بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ حال ہی میں امریکہ کی نائب معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز نے مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے ساتھ ملاقات کی جس میں دونوں ممالک میں تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ پر بھی تفصیلی تبادلہ خیالات کیا گیا۔ مشیر خزانہ نے کہا پاکستان اور امریکہ کے درمیان سرمایہ کاری اور تجارت کے فروغ کیلئے ماحول کو سازگار بنانے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے، مشیر خزانہ نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج اور عوام کی جانب سے دی گئی قربانیوں کا بھی تفصیلی تذکرہ کیا اور بتایا کہ پاکستانی معیشت کو اس جنگ کے سبب 123ارب ڈالر کے نقصانات پہنچے ہیں جو اب تک جاری ہیں لیکن عملی طور پر نتیجہ صفر ہی ہے۔ اس میں سب سے بڑا امر مانع امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا عمومی طور پر مسلمان ممالک کے خلاف اور اسرائیل کے حق میں رویہ ہے۔ امریکی صدر چین سے بھی خم کھاتے ہیں اور اسے اپنا اقتصادی اور سٹریٹجک حریف سمجھتے ہیں۔ اس خطے میں پاکستان نہیں بلکہ بھارت امریکہ کا سٹریٹجک اتحادی ہے۔ امریکہ پاکستان اور چین کے اقتصادی اور دفاعی تعاون اور پاک چین اقتصادی راہداری ’سی پیک، کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور یہی صورتحال بھارت کی ہے۔ ویسے تو صدر ٹرمپ کے پیشرو بارک اوباما نے بھی بھارت کو اپنی گود میں بٹھا رکھا تھا اور انہوں نے اپنے دور صدارت کے دوران دو مرتبہ وہاں کا دورہ کیا۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی امریکہ سے بہتر تعلقات کی نوید دے چکے ہیں لیکن ان کی امیدیں بر نہیں آ رہیں۔ پاکستان کو چین کے علاوہ روس سے بھی تعلقات بہتر بنانے چاہئیں اس ضمن میں کچھ نہ کچھ پیش رفت تو ہوئی ہے لیکن یہ کافی نہیں۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ روسی صدر ولادی میر پوٹن بھی حال ہی میں ہونے والے"ون بیلٹ ون روڈ" فورم کے اجلاس میں شریک ہوئے لیکن اس اجلاس کے موقع پر سائیڈ لائن پر وزیر اعظم عمران خان کی ان سے ملاقات نہ ہو پائی۔ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے حوالے سے فریق اول تو افغان حکومت خود ہے۔ بدقسمتی سے افغانستان سے بھی پاکستان کے تعلقات جو کبھی خوشگوار نہیں رہے اب بھی کشیدہ ہی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے اس بیان پر کہ افغانستان میں عبوری حکومت قائم کر کے انتخابات کرائے جائیں۔ اشرف غنی اتنے ناراض ہوئے کہ انھوں نے اسلام آباد سے اپنا سفیر ہی عارضی طور پر واپس بلا لیا، بعدازاں وزارت خارجہ نے وضاحت تو کر دی کہ وزیراعظم عمران خان کے بیان کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے طور پر نہ لیا جائے، ’پاکستان افغانستان میں مداخلت نہیں بلکہ صرف افغان قیادت میں ہونے والے امن بحالی کے سیاسی عمل میں دلچسپی رکھتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کا فقدان پوری طرح عیاں ہو گیا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے پشتون تحفظ موومنٹ کے مالی معاملات پر سوال اٹھاتے ہوئے الزامات عائد کئے ہیں کہ انھیں مختلف مقامات پر احتجاج کے لیے انڈیا کے خفیہ ادارے را اور افغانستان کے خفیہ ادارے این ڈی ایس سے رقوم موصول ہوتی رہی ہیں، انھوں نے پوچھا ’ 8 مئی 2018ء کو جلال آباد میں قائم انڈین قونصل خانے نے طورخم میں ہونے والی احتجاجی ریلی کے لیے کتنے پیسے دئیے، منظور پشتین کا کون سا رشتہ دار قندھار میں بھارتی قونصلیٹ گیا؟ یہ انتہائی سنگین الزامات ہیں۔ اگر افغانستان اس اندازسے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مداخلت کر رہا ہے تو دوستانہ تعلقات کیونکر استوار ہو سکتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے دو بڑے فریق امریکہ اور افغانستان پاکستان کو شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کے خلاف اقدامات کرتے رہتے ہیں اور یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ اسلام آباد ان کی افغان طالبان سے چھڑائے۔ جہاں تک افغان طالبان کا تعلق سے پاکستان کا کسی حد تک ان پر اثرونفوذ تو ہوگا لیکن وہ ہمارے مرغ دست آموز نہیں ہیں۔