آزادی مارچ حکومتی بوکھلاہٹ
نوازشریف کوصحت کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی بنا پر بعداز خرابی بسیار سروسز ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ ڈاکٹروں کو ان کے پلیٹ لیٹس بار بار تشویشناک حد تک کم ہونے کی وجہ سمجھ نہیں آ رہی اور ان کے تفصیلی ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نوازشریف کی صحت کی صورتحال پر پہلے تو تحریک انصاف کے وزرا نے حسب عادت مذاق اڑایا۔ معاون خصوصی برائے اطلاعات محترمہ فردوس عاشق اعوان بات اس حد تک لے گئیں کہ میاں صاحب تو ہشاش بشاش ہیں اور بیماری محض ڈرامہ ہے، لیکن بدھ کی شام حکومت کوخود جان کے لالے پڑ گئے کہ معاملہ انتہائی سنگین ہے۔ صوبا ئی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے بلا کم وکاست میڈیا کو صحیح بات بتا دی کہ میاں صا حب کا عارضہ Autoimmune Diseaseہے، جسے بعد میں Idiopathic thrombocytopenic purpura "آئی ٹی پی، تشخیص کیا گیا، اس بیماری سے جسم میں مدافعت کی قوت ختم ہو جاتی ہے۔ میاں صاحب کے پلیٹ لیٹس جو گر کر دو ہزار تک آ گئے تھے نیا خون لگانے اور علاج کے باوجود پھر گرنا شروع ہو گئے تھے۔ جس پر وزیراعظم عمران خان کو بھی تشویش ہوئی اور انھوں نے عندیہ دیا کہ انھیں ہر قسم کے معالج اور طبی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے کسی ایمرجنسی کے پیش نظر اپنا جہاز تیار کرا دیا۔ صوبائی وزیر صحت نے بتایا وزیراعظم نے کہا ہے نوازشریف سے متعلق عدالت کے ہر فیصلے پر من و عن عمل کریں گے اور وہ چاہتے ہیں کہ مریم بی بی ضرور اپنے والد کی تیمارداری کریں۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت اور نیب کا انتقامی رویہ نہ ہوتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ اس پارٹی اور اس کے حامیوں نے2015 ء میں جب میاں صاحب لندن میں دل کا بائی پاس کروا رہے تھے کہا تھا کہ بائی پاس نہیں ہوا بلکہ وہ بال لگوا رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ کلثوم نواز کوکینسر کی تشخیص ہوئی تو دعویٰ کیا گیا کہ یہ جھوٹ ہے، کلثوم نواز اسی مرض کی بنا پر بعد میں انتقال کر گئیں۔ دوسری طرف لاہور ہائیکورٹ نے چودھری شوگر ملز کیس میں میاں نوازشریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت منظور کر لی ہے۔
مہذب جمہوری معاشروں میں اپوزیشن متبادل حکومت ہوتی ہے لہٰذا پارلیمانی نظام کو احسن طریقے سے چلانے کے لیے حکومت اور اپوزیشن میں ہمیشہ اچھا تال میل رہتا ہے لیکن یہاں تو انھیں چور چور کہہ کر دھتکارا جاتا ہے۔ چوری اپنی جگہ لیکن قتل کے ملزم اور مقید دہشت گردوں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں۔ اب وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے سیاسی اختلافات اپنی جگہ، میں نوازشریف کی صحت کیلئے دعا گو ہوں۔ علاج معالجہ کی تمام ممکنہ سہولیات کی فراہمی کیلئے متعلقہ حکام کو ہدایات کر دی ہیں۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر شہبازشریف سے رابطہ کر کے پیش کش کریں کہ اگر نوازشریف بیرون ملک علاج کرانا چاہتے ہیں تو ہم انھیں سہولت دیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کا یہ کہنا بھی درست نہیں کہ یہ خالی الفاظ ہیں۔ دوسری طرف حکومت نے اچھا قدم اٹھایا ہے کہ جے یو آ ئی (ف) کو آزادی مارچ کی مشروط اجازت دے دی ہے۔ بعض اخباری اطلاعات کے مطابق چند روز قبل مولانا کی آرمی چیف کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے نتیجے میں یہ معاملات طے ہوئے ہیں اور امید واثق ہے کہ آزادی مارچ کا مرحلہ اسلام آباد پہنچ کر کوئی شورش برپا کئے بغیر منتشر ہو جائے گا اور مولانا صاحب کی خواہش کہ عمران خان مستعفی ہو جائیں اور نئے انتخابات کرائے جائیں تاحال امید موہوم ہی لگتی ہے۔
جوں جوں مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ قریب آ رہا ہے حکومت کی بوکھلاہٹ بڑھتی جا رہی ہے اور انتظامی، تعزیری کارروائیوں اور پیشگی اقدامات کے ذ ریعے مجوزہ مارچ کو سبوتاژکرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ میاں نوازشریف کے داماد اور مریم نواز کے شوہر کیپٹن(ر) صفدر کی ڈرامائی انداز میں گرفتاری بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی رہنما اکرم درانی کے گرد نیب کا گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ نوازشریف کو بھی ایک نئے کیس میں ملوث کر کے نیب کی تحویل میں دیا گیا جس کی ٹائمنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بھی نوازشریف کو ان کے سخت گیر موقف پر سزا دینے کے مترادف تھی۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو بھی خرابی صحت کی بنا پر پمز ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ ان کے شعلہ نوا صاحبزادے بلاول بھٹو کا دعویٰ ہے کہ آصف زرداری کو استعمال کر کے خاندان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے لیکن ہم پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ وزارت داخلہ نے جے یو آئی (ف) کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام کو ڈنڈا بردار فورس قرار دے کر اس پر پابندی عائد کر دی ہے۔ وزارت قانون اور الیکشن کمیشن کو بھیجی گئی سمری میں کہا گیا ہے کہ انصار الاسلام لٹھ بردار ہے اور قانون میں کسی قسم کی مسلح ملیشیا کی اجازت نہیں اور یہ آئین کے آ رٹیکل256کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
یہاں سوال پیداہوتا ہے کہ حکومت اتنی حواس باختہ کیوں ہو گئی۔ بالخصوص جب یہ واضح ہو گیا تھا کہ مولانا اسلام آباد میں جلسہ کریں گے جس میں مسلم لیگ (ن) نے بھی شرکت کا فیصلہ کیا ہے فی الحال دھرنا ان کے پروگرام میں شامل نہیں۔ جہاں تک بلاول بھٹو کا تعلق ہے وہ بھی لانگ مارچ کے حامی ہیں لیکن وہ اس میں شرکت کے بجائے ملک بھرمیں جلسے کر رہے ہیں۔ ان کا صاف کہنا ہے کہ ایسی صورتحال نہ پیدا کی جائے جس سے تیسری قوت کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملے۔ ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ دھرنے سے حکومتیں نہیں جاتیں لیکن دوسری طرف مولانا کی یلغار کو روکنے کے لیے انتظامی اور تعزیری ہتھکنڈے عروج پر ہیں۔ کنٹینر اسلام آباد پہنچائے جا رہے ہیں اور اسلام آباد جانے والے تمام راستے بلاک کرنے کا انتظام کیا جارہا ہے۔ جے یو آئی کے سینیٹر عطاء الرحمن نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ آزادی مارچ روکنے کے لیے لگائے گئے کنٹینروں کو اڑا کر رکھ دیں گے۔ ہذیانی کیفیت پر مولانا نے اپنی شوریٰ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے درست سوال اٹھایا کہ ایک طرف تو مذاکرات کی دعوت جبکہ دوسری طرف دھمکیاں دی جا رہی ہیں، دھمکیاں اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے، مولانا کا اصرار تھا کہ وہ رکنے والے نہیں ہیں۔ اپوزیشن کے ہاتھ پیچھے باندھ کر مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں، شاید اسی لیے اپوزیشن کی رہبر کمیٹی نے مذاکرات کی دعوت مسترد کر دی تھی۔ وزیراعظم عمران خان بھی مختلف مواقع پر اپوزیشن کے آزادی مارچ کے حوالے سے بیزاری کا اظہار کر چکے ہیں، کھلاڑیوں کی ایک تقریب میں تو انھوں نے انتہائی تضحیک آمیز انداز میں کہہ دیا کہ یہ پہلی اسمبلی ہے جو ڈیزل کے بغیر چل رہی ہے۔
بدقسمتی سے خان صاحب کا اپوزیشن کے ساتھ پہلے روز سے ہی رویہ ہتک آمیز ہے۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور اب مولانا کو کرپٹ اور نااہل قرار دے کر ان سے ہاتھ ملانا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ انہی پارٹیوں سے توڑے ہوئے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی اور ان کے حلیف ایم کیو ایم یا مسلم لیگ (ق) کے ارکان تحریک انصاف میں وضو کر کے پاک صاف ہو گئے ہیں۔ پہلے تو یہ کہا جاتا تھاکہ جی آیاں نوں، مولانا آئیں ہم انھیں کنٹینر بھی دیں گے اور کھانا بھی کھلائیں گے، جتنی دیر دھرنا دینا ہے، دیں لیکن نہ جانے کیوں وہ پارٹی جو 2014ء میں 126 دن تک اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دیئے بیٹھی رہی نے بغلیں جھانکنی شروع کر دیں۔ اس دوران پارلیمنٹ اور پی ٹی وی کے ہیڈکوارٹرز پر یلغار بھی ہوئی لیکن اس وقت کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اسلام آباد کے عین قلب میں بیٹھے ہوئے عمران خان اور اس وقت کے ان کے سیاسی کزن علامہ طاہر القادری کے دھرنوں کو ریاستی طاقت کے ذریعے توڑنے کی کوشش نہیں کی۔ تمام نیوز چینلز صبح شام خان صاحب کی تقریروں کو لائیو دکھاتے رہے لیکن اس وقت کی پیمرا نے میڈیا پر کوئی قدغن نہیں لگائی۔ اب جبکہ تحریک انصاف خود حکومت میں ہے، اس کی قوت برداشت جواب دیتی جا رہی ہے حالانکہ اب پکڑ دھکڑ کے بجائے مذاکرات پر بات پر ہونی چاہیے کہ مولانا فضل الرحمن ان کے حمایتی اور اتحادی پرامن طریقے سے اسلام آباد آئیں، اپنا جلسہ، جلوس کریں اور واپس چلے جائیں اور بالآخر بجائے سیاستدان بیٹھ کر آپس میں معاملات طے کرتے آرمی چیف کو مبینہ طور پر مولانا سے بات کرنا پڑی۔
جس اندازسے ملک میں ناقص گورننس اور اکانومی کا برا حال ہو نے کی بناپر عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے غالباً حکمرانوں کو اس کا ادراک ہی نہیں اور ہو بھی کیسے؟عمران خان نے تو خود کو بنی گالہ اور وزیراعظم سیکرٹریٹ تک ہی محدود کر لیا ہے۔ ان کی قریبی مشیروں پر مشتمل کچن کیبنٹ اور کابینہ کے اجلاس میں مبارک سلامت کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں لیکن پارلیمنٹ جہاں شاید کچھ زمینی حقائق کا بھی علم ہو جائے اس کا رخ کرنا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ میڈیا بھی خو د کو جکڑا ہوا محسوس کرتا ہے۔ اس کے باوجود جو تھوڑا بہت سچ لکھا اور بولا جا رہا ہے اس پر بھی غور کر لیں تو ان پر یہ عقدہ کھلے گا کہ پاکستان ایک سیاسی ملک ہے، جمہوریت کے ذریعے معرض وجود میں آیا ہے جہاں قائداعظم کے افکار کے مطابق ڈائیلاگ، کچھ لو اور کچھ دو اور برداشت کا مادہ پیدا کئے بغیر ملفوف آمریت کی شکل میں زیادہ عرصہ حکومت نہیں کی جا سکتی۔