عوام کے سڑکوں پر نکلنے کا انتظار؟
حکومت کے ان دعووں کے باوجود کہ مشکل فیصلے کر لئے اب2020ء اقتصادی ترقی کا سال ہو گا، معاملات رجعت قہقہری کی طرف ہی گامزن ہیں۔ یہ خبر قطعاً حیران کن نہیں کہ ماہ جنوری میں افراط زر کی شرح ریکارڈ 14.56 تک پہنچ گئی۔ یہ شرح گزشتہ بارہ برسوں میں سب سے زیادہ ہے، اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں گزشتہ ماہ 23.6 فیصد اضافہ ہوا۔ گندم اور چینی کے نرخوں میں اضافے کی بنا پر اعدادوشمار قطعاً غیر متوقع نہیں ہیں۔ سٹیٹ بینک اور مشیر خزانہ حفیظ شیخ کا دعویٰ ہے کہ یہ عارضی عمل ہے اور بالآخر قیمتیں معمول پر آ جائیں گی لیکن مجموعی طور پر دگرگوں اقتصادی حالات کی بنا پر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے خود اعتراف کیا ہے کہ مہنگائی سے لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہو گئی ہیں، قریباً یہی بات وزیر ریلویز شیخ رشید کہہ رہے ہیں لیکن بجائے اس کے کہ حکومت گورننس اور اقتصادیات کو چلانے کیلئے اپنے موجودہ طریقہ کار پر نظرثانی کرے، یہی رٹ لگا رہی ہے کہ مافیاز اور ذخیرہ اندوز مہنگائی کر رہے ہیں۔ اسد عمر کو تو اس کا علم ہونا چاہئے کہ(بقول ان کے) ذخیرہ اندوز اس وقت ہی سرگرم ہوتے ہیں جب مارکیٹ میں اقتصادی بدحالی کی بنا پر اشیائے ضروریہ کی قلت پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے لیکن یہاں تو حکومت کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ بجائے معاملات درست کرنے کے اس بحران کے حوالے سے حکومت کے اندرونی حلقوں کی طرف سے جہانگیر ترین کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے حالانکہ اس بے تدبیری سے ان کا کوئی تعلق نہیں جس سے گندم کی قلت پیدا ہوئی بلکہ ان کی کاوشوں سے یہ معاملہ حل ہوا۔
جہاں تک چینی کا تعلق ہے، جہانگیر ترین کے علاوہ خسروبختیار، ہمایوں اختر فیملی، فہمیدہ مرزا سب شوگر ملوں کے مالک ہیں۔ اس پر مستزاد میاں نوازشریف فیملی، آصف زرداری اور چودھری برادران بھی شوگر ملوں کے مالک ہیں۔ اصولی طور پر تو مفادات کے تضاد کا قانون بنا کر سیاستدانوں کو کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے تاکہ ان پر انگشت نمائی نہ کی جا سکے لیکن یہاں تو ایسی کوئی ریت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ڈالنے کو تیار ہے۔ شنید ہے کہ اسد عمر آؤٹ رہنے کے بعد اب دوبارہ ان ہو گئے ہیں اور گن گن کر ان لوگوں سے بدلہ لے رہے ہیں جنہیں وہ وزارت خزانہ سے اپنی چھٹی کرانے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں حالانکہ خان صاحب نے ان کو آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کی ابتدائی طور پر مخالفت اور تاخیر سے جانے کی بنا پرخود وزارت خزانہ سے فارغ کیا تھا۔ اسد عمر، خان صاحب کے قریبی ساتھی ہونے کے ناتے سے عام انتخابات سے پہلے ہی وزارت خزانہ کیلئے گروم کئے جا رہے تھے لیکن اس حوالے سے انہوں نے کوئی تیاری کی اور نہ ہی پیش بندی۔ ان کے بعد آنے والے مشیر خزانہ حفیظ شیخ آئی ایم ایف پروگرام میں نہ جاتے تو پاکستان بالکل قلاش ہو چکا ہوتا۔ اس کڑے وقت میں پاکستان کی معیشت کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ٹیکے کے سہارے چلایا گیا اب بھی صورتحال یہ ہے کہ بڑے تزک و احتشام سے لائی ہوئی اقتصادی ٹیم بھی معاملات سنبھالنے میں ناکام نظر آتی ہے۔
حفیظ شیخ جو دبئی کے متنازعہ ابراج انویسٹمنٹ گروپ کے مدارالمہام عارف نقوی کے طفیل دوبارہ مشیر خزانہ بن گئے انہیں عسکری قیادت کی آشیرباد بھی حاصل تھی۔ سائیں، اپنے انداز اور ڈھب سے کام کرتے ہیں، میڈیا پر آنے سے اکثر اجتناب کرتے ہیں اور اقتصادی پالیسیوں کی مدافعت کرنے کا فریضہ ترجمانوں کے ذمے لگا رکھا ہے۔ ان پر اچانک یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں ایف بی آر کے وصولیوں کے ہدف میں 218 ارب روپے کا شارٹ فال ہوا ہے۔ صرف گزشتہ ماہ جنوری میں 104 ارب کی کمی واقع ہوئی ہے، اس پر مشیر خزانہ نے نجی شعبے سے درآمد شدہ ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی کی خوب کلاس لی یہاں تک کہ وہ خرابی صحت کا بہانہ کر کے چھٹی پر چلے گئے، انہیں بہلا پھسلا کر واپس لایا گیا۔ تاہم جنوری کے اعدادوشمار آنے کے بعد انہوں نے ہاتھ کھڑے کر دئیے اور طویل رخصت پر چلے گئے اور اب حکومت کو نئے چیئرمین ایف بی آر کی تلاش ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کا ٹارگٹ گزشتہ برس نومبر میں آئی ایم ایف کی منظوری سے 233 ارب روپے کم کرکے 5503 ارب سے 5270 ارب پر لایا گیا تھا لیکن یہ ہدف بھی پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
اس بات کا بہت شہرہ ہے کہ ہم نے درآمدات کم کر دیں لیکن درآمدات کم ہونے سے ٹیکس کے اہداف پورا کرنا مشکل ہو گیا۔ یہ درآمدات کسی بچت سے زیادہ ملک کے اندر کساد بازاری اور فاکانومی کا پہیہ نہ چلنے کی بنا پر کم ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر صرف آٹو سیکٹر کو ہی لے لیں اس کی پیداوار میں چالیس فیصد سے زیادہ کمی ہوئی ہے جس کے ساتھ ہی اس سے منسلک صنعتیں بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ یقیناً اس تناسب سے گاڑیوں کے انجن پرزے اور دیگر سامان کی درآمد بھی کم ہوئی ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ شبر زیدی کے دور میں ریونیو میں 15 فیصد تک اضافہ بھی ہوا ہے لیکن ان کے مطابق چیئرمین ایف بی آر اسی محکمے سے ہونا چاہئے تھاجس میں اکیس ہزار سے زیادہ افراد کام کرتے ہیں۔ چونکہ شبر زیدی کا تعلق نجی شعبے سے تھا اس لئے بورڈ کے روز مرہ کے امور چلانا ان کے بس کا روگ نہیں تھا۔ شاید اسی بنا پر میاں نواز شریف نے اپنے دور حکومت میں ہارون اختر کو ریونیو کے حوالے سے اپنا مشیر بنایا تھا تاکہ وہ اس حوالے سے درست پالیسیاں بنا کر عملدرآمد کرا سکیں۔ اب ایسا کرنے کیلئے وزیراعظم کو مشیر خزانہ کے پر کاٹنے ہونگے کیونکہ وہ وزیر خزانہ اور ریونیو بھی ہیں۔
آئی ایم ایف کے قرضے کی تیسری قسط کیلئے مذاکرات کی خاطر اس کی ٹیم اسلام آباد پہنچ چکی ہے۔ یہ ٹیم وزارتوں اور محکموں کی کارکردگی اور مجوزہ اصلاحات کا جائزہ لے گی۔ پاکستان کو یقیناً آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ جوڑنا پڑیں گے کہ جناب والا! یہ ٹارگٹ حاصل کرنا ہمارے بس کا روگ نہیں۔ اب آئی ایم ایف سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ہدف میں مزید 300 ارب کی کمی کی جائے۔ کیا آئی ایم ایف کا جہازی ٹارگٹ متعین کرنے سے پہلے اس بات کا ادراک نہیں کیا گیا تھا کہ بیمار اور لاغر معیشت اس کی متحمل ہو پائے گی۔ یہ نالائقی نہیں تو اور کیا ہے؟ اس حوالے سے دیکھا جائے تو تیسری قسط لینے کیلئے آئی ایم ایف کی مزید سخت شرائط ماننا ہونگی اوراسی بنا پر ایک منی بجٹ کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ یہ منی بجٹ جس میں گیس اور بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ناگزیر ہو گا مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پہلے ہی بسنے والے عوام پر بجلی بن کر گرے گا۔ ایسے مرحلے پر جبکہ اپوزیشن کی طرف دست تعاون بڑھانا چاہئے تھا غیر یقینی صورتحال بنتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف حکومت اپنے اتحادیوں سے کئے گئے وعدوں کو نبھانے کے بجائے ازسرنو مذاکرات کر رہی ہے جو تاحال ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم اور بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) تینوں کو گلہ ہے کہ ہمارے ساتھ طے شدہ معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ نہ جانے خان صاحب اور ان کے مشیر نوشتہ دیوار پڑھنے سے کیوں قاصر ہیں۔ کیا اس وقت کا انتظار کیا جارہا ہے کہ عوام مزید مہنگائی، بے روزگاری اور اقتصادی بدحالی سے تنگ آ کر سڑکوں پر نکل آئیں۔