Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Arif Nizami/
  3. Asal Khatra Ittihadion Se?

Asal Khatra Ittihadion Se?

اصل خطرہ اتحادیوں سے؟

جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی، ایم کیو ایم پاکستان نے اپنے روایتی انداز میں اپنی اتحادی تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ سودے بازی شروع کر دی ہے۔ ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے یہ کہتے ہوئے کہ وزارت میں بیٹھنابے سود ہے وفاقی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا لیکن ساتھ ہی کہا ہے کہ حکومت کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے گویا کہ انھوں نے منانے آنے والوں کے لیے بات چیت کے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ ایم کیو ایم کو اگر واقعی کوئی اصولی اختلاف تھا تو اسے تحریک انصاف کا اتحادی بھی نہیں رہنا چاہیے۔ متحدہ کے مطالبات سیدھے سادے ہیں۔ سب سے پہلے تو وہ فروغ نسیم کے علاوہ دو وفاقی وزارتوں کے خواہشمند ہیں کیونکہ وزیر قانون کو وہ ایم کیو ایم کے کوٹے میں شمار ہی نہیں کرتے۔ متحدہ کا ایک پرانا مطالبہ فنڈز کی فراہمی ہے جس کا جہانگیر ترین کے ساتھ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی میٹنگ میں وعد ہ بھی کیا گیا تھا۔ یہ لسانی جماعت جو الطاف حسین سے الگ ہو چکی ہے اور اسی کی کوکھ سے ایم کیو ایم پاکستان نے جنم لیا ہے اس کے سابق سربراہ فاروق ستار بھی فارغ ہو چکے ہیں کے دیگر مطالبات میں دو ایسے کلیدی مطالبات ہیں جن کو پورا کرنا حکومت کے بس میں ہی نہیں۔ مثال کے طورپر دہشت گردی، قتل، اغوا اوربھتہ خوری میں ملوث ایم کیو ایم کے کارکن سکیورٹی ایجنسیوں کی کلیئرنس کے بغیر نہیں چھوڑے جا سکتے۔ یہ جماعت اپنے پرانے ہیڈ کوارٹرز نائن زیرو، کی بھی واگزاری چاہتی ہے، یہ بھی حکومت کے بس میں نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایم کیو ایم کرا چی پر اپنی پرانی سیاسی وانتظامی بالادستی کی خواہشمند ہے۔ اس کے ارکان کو فنڈز مہیا کرنا پاکستان تحریک انصاف کے کراچی کے ارکان کی نفی ہو گا۔ حکمران جماعت تو وہاں اپنے اثر ورسوخ کو مزید بڑھانے کی تگ ودو کر رہی ہے لہٰذا اس مطالبے پر صاد کرنا اس کے لیے مشکل فیصلہ ہو گا۔ اسی بنا پر پیر کو وزیر منصوبہ بندی کاایم کیو ایم کو منانے کا مشن بے نتیجہ رہا۔ اب خان صاحب نے کنوینر خالد مقبول صدیقی کو رام کرنے کیلئے اسلام آباد طلب کیا ہے۔

ایم کیو ایم (پی) کا دعویٰ ہے کہ اس کے وفاقی کابینہ سے الگ ہونے کا پیپلز پارٹی کی آفر سے کو ئی تعلق نہیں۔ واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو ایم کیو ایم کو پیشکش کر چکے ہیں کہ آیئے سندھ حکومت میں شامل ہو جائیں، جتنی وزارتیں وفاق میں ایم کیو ایم کے پاس ہیں ہم انھیں سندھ میں دینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کا ناتا پیپلزپارٹی کی پیشکش سے نہ جوڑا جائے۔ یہ بد یہی حقیقت ہے کہ ستمبر 2013ء میں۔ اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے سندھ حکومت اور عسکری قیادت سے مل کر کراچی آپریشن شروع کیا جس کے نتیجے میں عروس البلاد کی روشنیاں بحال ہوئیں۔ اب پی ٹی آئی اور نہ ہی پیپلز پارٹی یہ افورڈ کر سکتے ہیں کہ اس شہرکی کمان دوبارہ ایم کیو ایم کے سپرد کر دی جائے۔ یہ درست ہے کہ اب اس جماعت کا شہری سندھ میں اس طرح طوطی نہیں بولتا جیسا پہلے تھا۔ ایک دورتھا جب الطاف حسین کی ایک کال پر کراچی بند ہو جاتا تھا اور تمام نیوز چینلز ان کی لائیو تقریریں دکھانے پر مجبور تھے۔ ایم کیو ایم کے خود ساختہ نوگو ایریاز کی بہتات تھی، بھتہ خوری، لوٹ مار، اغو اور قتل وغارت کا دور دورہ تھا۔ بلدیہ ٹاؤن کا سانحہ جس میں قریباً 260 افراد جاں بحق ہو گئے تھے، ایم کیو ایم سے منسلک جرائم پیشہ عناصر کا کیا دھرا تھا اب یہ دور قصہ پارینہ بن چکا۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کا ایم کیو ایم کو حلقہ بگوش کر نے کا تعلق ہے، یہ بھی اتنا آسان کام نہیں، تاہم پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے لیے بلاول بھٹو کی پیشکش اب بھی برقرار ہے لیکن بلدیہ کراچی کے اختیارات دے کر اس شہر کو دوبارہ ایم کیو ایم کے حوالے کرنے کی کون اجازت دے گا۔ ماضی میں پیپلزپارٹی کے ساتھ سندھ میں اتحاد ہو یا مسلم لیگ(ق) کے ساتھ، ایم کیو ایم کراچی میں حکومت میں بھی ہوتی تھی اور اپوزیشن میں بھی اور اپنی ہی حکومت کے خلاف ہڑتال بھی کر دیتی تھی۔ پاکستانی قوم بالخصوص کراچی میں بسنے والے صنعتکار اور کاروباری طبقہ کبھی اس شہر کو دوبارہ بربادی کی طرف لے جانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

مصیبت کبھی اکیلے نہیں آتی۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) نے بھی حکومت کے ساتھ مزید چلنے یا نہ چلنے کا فیصلہ کرنے کے لیے کورکمیٹی کا اجلاس بلا لیا ہے۔ ان کا بنیادی مطالبہ یہی ہے کہ لاپتہ افراد کو واپس ان کے گھروں تک پہنچایا جائے۔ ادھر جی ڈی اے نے بھی جو اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ہی معرض وجود میں آیا تھا آنکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں، اس وقت اگر ناراض جماعتیں حکومت کو خیرباد کہہ دیں تو تحریک انصاف کی حکومت دھڑام سے گرسکتی ہے کیونکہ ان تمام جماعتوں کے ارکان کی مخصوص نشستیں ملا کر کل تعداد 19 ہے یعنی حکمران اتحاد کو قومی اسمبلی میں محض5ارکان کی برتری حاصل ہے۔ پنجاب میں چودھری برادران فی الحال ٹھنڈے پڑے ہوئے ہیں لیکن ان کے مطالبات کی بھی طویل فہرست ہے، اگر وہ بھی حکومت چھوڑنے کا فیصلہ کر لیں توتحریک انصاف کی حکومت کا دھڑن تختہ ہو جائے گا۔

اس تمام تر صورتحال کی ٹائمنگ اہم ہے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بعد نئی سیاسی صورتحال پیداہو رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خان صاحب جنہوں نے گزشتہ ڈیڑھ برس اپوزیشن کی قیادت کے خلاف گالی گلوچ اور انھیں معتوب کرنے پر صرف کیا ہے کو اب اصل خطرہ اپنے اتحادیوں سے ہے۔ اسے بھانپتے ہوئے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کی دوڑیں لگنا شروع ہو گئی ہیں۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل اچانک فعال ہو گئے ہیں انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ متحدہ کے قانونی دفاتر بحال کرنے کی کوشش کریں گے حالانکہ یہ سب کو علم ہے کہ یہ وعدہ پورا کرنا ان کے بس میں نہیں ہے۔ تحریک انصاف کو سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے لانے والی قوتوں کو بھی اب ایک بار پھر کلیدی کردار اداکرنا پڑے گا کیونکہ جہاں تک خان صاحب اور ان کے حواریوں کا تعلق ہے، یہ معاملات سنبھالنا ان کے بس کا روگ نہیں ہے۔ ان کے رویے سے ہی تحریک انصاف کی حکومت کا مستقبل منسلک ہے۔

کچھ عرصے سے "مائنس ون" فارمولے کی باتیں بھی چل رہی تھیں جس کے مسلم لیگ(ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف حامی ومویدتھے، اب وہ بھائی جان کے علاج کے بہانے لندن جا کر بیٹھ گئے ہیں۔ تصویروں سے لگتا ہے کہ نئے نئے لباس زیب تن کئے میاں صاحب نے اپنی وارڈ روب مکمل کر لی ہے۔ لگتا ہے کہ وہ انتظا ر کر رہے ہیں کہ ہما کب ان کے سر پر بیٹھے گا۔ بالخصوص آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے وہ بھائی جان اور بھتیجی مریم نواز کو خاموش کرانے کا صلہ ملنے کی امید رکھتے ہونگے۔ مائنس ون، فارمولے کے بے تاج بادشاہ کے طور پر شاہ محمود قریشی کانام لیا جاتا ہے، وہ وزیر خارجہ ہونے کے علاوہ سیاسی معاملات میں انتہائی فعال رہے ہیں۔ قومی اسمبلی اور اسمبلی سے باہر بھی وہ بڑے متحرک رہے ہیں اور اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا بیڑہ بھی انھوں نے اٹھایا ہو اتھا لیکن اچانک انھیں سیاسی منظر سے آؤٹ کر دیا گیا۔ اب ان کی جگہ پر وزیر دفاع پرویز خٹک ان ہو چکے ہیں۔ قریشی صاحب کی مقتدر قوتوں سے قربت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ خان صاحب کو بھی بالآخر یہ احساس ہو گیا ہے کہ وہ ان کی جگہ لینے کے خواہشمند ہیں۔ جس تیزی سے اقتصادی اور گورننس کے معاملات دگرگوں ہیں، اس امکان کو اب یکسر رد نہیں کیا جا سکتا کہ مائنس خان ایک گرینڈ کولیشن بنانے کی بساط بچھادی جائے۔

Check Also

Rezgari

By Ruqia Akbar Chauhdry