اے پی سی،ناکام؟
مختلف حکومتی ترجمان ببانگ دہل یہ دعویٰ کر کے کہ بدھ کو مولانا فضل الرحمن کی دعوت پر ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس یکسر ناکام رہی۔ یہ کہہ کرنہ جانے نمبر بنا رہے ہیں یا اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کر رہے ہیں کہ یہ تو محض نشستند گفتند و برخاستند تھی۔ یہ بات درست ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی اے پی سی سے کوئی بہت بڑا طوفان برپا نہیں ہوا۔ شرکا میں سے ماسوائے فضل الرحمن کسی کا بھی مطمح نظر یہ نہیں تھا کہ چٹ منگنی پٹ بیاہ کے مترادف اے پی سی کے فوراً بعد اپوزیشن سڑکو ں پر نکل آئے گی اور عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گا۔ اے پی سی میں شرکت کرنے والے لیڈروں میں محترمہ مریم نواز کو چھوڑ کر سب سے انقلابی لیڈر بلاول بھٹو ہی تھے لیکن انھوں نے بھی فضل الرحمن کے اس مطالبے کے جواب میں کہ اسمبلیوں سے استعفے دے دیں صاد نہیں کیا کیونکہ ان کے مطابق وہ جمہوری سسٹم کے اندر رہ کر ہی جدوجہد کرنا چاہتے ہیں۔ لگتا ہے کہ اپوزیشن اقتصادیات اور گورننس کے حوالے سے حالات مزید دگرگوں ہونے کا انتظار کرے گی اور اس وقت ان ہاؤس اور سڑکوں پر نکلنے پر غور کرے گی۔ مریم نواز کی شعلہ نوائی کے باوجود مسلم لیگ (ن) کا موقف بھی یہی تھا لیکن حکومت کو اس سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے کہ اس کے برسر اقتدار آنے کے دس ماہ کے اندر اندر اپوزیشن ایک صفحے پر آ گئی ہے۔ اے پی سی کے اکثر مطالبات بے وزن نہیں ہیں۔ اے پی سی کا حال ہی میں قائم ہونے والی نیشنل ڈویلپمنٹ کو نسل کو مسترد کرنا غیر متوقع نہیں ہے کیونکہ اس کے مطابق نیشنل اکنامک کونسل جو ایک آئینی ادارہ ہے کے ہوتے ہوئے اس کی کیا ضرورت ہے۔ شاید فرق یہ ہے کہ نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل کے ارکان میں آرمی چیف بھی شامل ہیں، حالانکہ دیکھا جائے تو نیشنل سکیورٹی کونسل میں بھی یہی معاملات نہ صرف زیر بحث لائے جا سکتے ہیں بلکہ لائے جاتے ہیں۔ اسی طرح حال ہی میں قرضوں کی تحقیقات کرنے کے لیے قائم ہونے والے کمیشن کو بھی مسترد کر دیا گیا کیونکہ اس سے بھی انتقام کی بُو آتی ہے۔ حکومت کی نیت ٹھیک ہوتی تو جنرل پرویز مشرف کے دور میں ملنے والے قرضوں اور کولیشن سپورٹ فنڈ کے اربوں ڈالر کا بھی حساب کتاب بھی اسی کمیشن کے ذریعے ہونا چاہیے تھا۔ اے پی سی کے فیصلوں کو عملی شکل دینے اور آئندہ کا لائحہ عمل تیارکرنے کے لیے میاں شہباز شریف کی تجویز پر رہبر کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔ بی این پی کے اختر مینگل اپوزیشن کو طرح دے گئے اور انھوں نے اے پی سی میں شرکت کے بجائے اسی روز وزیراعظم سے ملاقات اور بجٹ کے حق میں ووٹ دے کر ثابت کر دیا کہ انھوں نے اپنی راہ حکومت کے ساتھ متعین کر دی ہے کیونکہ انھیں وہیں سے فائدہ یا ریلیف مل سکتا ہے۔ اے پی سی نے اخترمینگل کے تمام چھ نکات جن میں لاپتہ افراد کی بازیا بی بھی شامل ہے کی بلاواسطہ توثیق کر دی ہے۔ اے پی سی نے فاٹا میں عام انتخابات میں پولنگ سٹیشنز پر فوج متعین کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی بھی مخالفت کی۔ اسی طرح اے پی سی کے بہت سے مطالبات ایسے ہیں جن کا حل سیاسی حکومت نہیں کر سکتی۔ مولانا فضل الرحمن کی اس تجویز کوکہ عید الاضحیٰ کے بعد حکومت گرانے کے لیے تحریک چلائیں گے، پذیرائی نہیں ملی، تاہم 25جولائی کو"دھاندلی زدہ انتخابات "کے خلاف یوم سیاہ منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ بعض اطلاعا ت کے مطابق فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں ساتھ دیں تو کل ہی اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کر سکتے ہیں۔ وہ بلاول بھٹو کے علی وزیر اور محسن داوڑ کو قومی اسمبلی میں لانے کے مطالبے پر برہم تھے اور بعض میڈیا رپورٹوں کے مطابق انھوں نے ان ارکان کا نام اعلامیہ میں شامل کرنے میں لیت و لعل سے کام کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا فاٹا کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنانے کے ہی سخت مخالف ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان علاقوں کو ان پیشواؤں کی نگرانی میں قرون اولیٰ میں ہی رہنے دیں۔ اس لحاظ سے وہ پختون تحفظ محاذ اور ان کے لیڈروں کی سرگرمیوں سے خائف ہیں جہاں تک شہبازشریف کا تعلق ہے وہ بھی اس معاملے پر لب کشائی نہیں کرتے کیونکہ وہ کسی کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ نیا چیئرمین سینیٹ لانے پر اے پی سی میں تو اتفاق رائے ہو گیا ہے، اس ضمن میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو سینیٹ میں عددی اکثریت بھی حاصل ہے لیکن ایسا کرنا ایک سٹرٹیجک فیصلہ ہو گا کیونکہ صادق سنجرانی کو لانے والے آ صف علی زرداری ہی تھے جنہوں نے کھل کر اس کا کریڈٹ بھی لیا اور یہی اس وقت "پولیٹیکل انجینئرنگ "کا تقاضا تھا۔ اب بھی ایسا کرنے سے پہلے اپوزیشن کو چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کے محرکات پر غور کرنا ہو گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف اے پی سی ہو رہی تھی تو دوسری طرف قومی اسمبلی میں بجٹ پر مطالبات زر فٹافٹ منظور ہو رہے تھے۔ اسمبلی میں موجود سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بجا طور پر گلہ کیا ایسے نازک مرحلے پر اپوزیشن کے بیس ارکان ایوان میں موجود نہیں تھے جن میں سے 16کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے۔ کیا یہ محض اتفاق تھا یا مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف کی حکمت عملی جنہوں نے بعد میں تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے اس صورتحال پرکف افسوس ملا اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ارکان کو حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ ایک طرف تو یہ بلند بانگ دعوے کیے گئے کہ بجٹ قبول نہیں اور ہم اسے پاس نہیں ہونے دیں گے۔ پنجاب میں بھی تحریک انصاف کی حکومت کو معمولی عددی برتری حاصل ہے وہاں بجٹ پاس ہوگیا اور یہی ڈرامہ مطالبات زر کے موقع پر بدھ کو قومی اسمبلی میں بھی رچایا گیا، کیا یہی میثاق معیشت کا دوسرا نام ہے؟ ۔ یقینا حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا اکٹھے ہو جانا اس کے لیے نیک شگون نہیں ہے اور حکومتی ترجمانوں کی یہ گردان کہ اے پی سی ناکام ہو گئی، رہبر رہزن نہیں ہوتا، رہبر کمیٹی کے 99 فیصد ارکان کے دامن کرپشن سے داغدارہیں، درست رویہ نہیں ہے۔ اے پی سی کے مرکزی کرداروں شہباز شریف، بلاول بھٹو اور دیگر رہنماؤں نے سسٹم کو گرانے سے اجتناب برتنے کا عندیہ دیا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے لیڈر میاں نوازشریف اور آصف زرداری پابند سلاسل ہیں اور باقی بھی نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا کہ میں کرپٹ، چوروں اور ڈاکوؤں کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہوں گے بجائے بنیادی قومی معاملات بالخصوص اکانومی کی نازک صورتحال پر کسی حد تک اتفا ق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ محض اپوزیشن کی دھتکارنے اور یہ کہنے سے کہ اپوزیشن کی تحریک کرپشن بچاؤ، ابو بچاؤ تحریک ہے سے کام نہیں چلے گا۔ ملکی اقتصادیات کی حالت بہت ابتر ہے اور گورننس کے معاملات دگرگوں ہیں۔ جس روز اے پی سی ہو رہی تھی اس دن اور اگلے روزڈالر قریباً10روپے مہنگا ہو گیا۔ وزیراعظم کے مشیر اور اقتصادیات کے کار پردازان لاکھ کہتے رہیں گے، سب اچھا ہے ہم نے معیشت کو سنبھال لیاہے، درآمدات کم اور برآمدات زیادہ ہو رہی ہیں، بجٹ کا خسارہ بھی کم ہو گیا ہے لیکن زمینی حقائق قدرے مختلف ہیں۔ سٹاک ایکسچینج نیچے جا رہی ہے۔ مہنگائی اور بے روز گاری آسمان سے باتیں کر رہی ہیں جس سے مایوسی حدوں کو چھو رہی ہے۔ لیکن حکومتی مشیر ڈھٹائی کے ساتھ مرغی ایک ٹانگ پر کھڑی ہے، کے مترادف کہہ رہے ہیں کہ سب اچھا ہے اور سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جس سرعت سے قرضے مل رہے ہیں اس سے بھی زیادہ تیزی سے خرچ ہو رہے ہیں، اسی بنا پر خزانہ خالی ہے اور سٹیٹ بینک روپے کو سہارا دینے سے قاصر نظر آ رہا ہے، ان حالات میں کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے گالی گلوچ کے بجائے اپوزیشن کو آن بورڈ لیا جائے۔ ایک طرف تو سپیکر قومی اسمبلی نے وزیراعظم کو سلیکٹیڈ وزیراعظم کہنے پر پابندی عائد کر دی ہے اور دوسری طرف وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا نے پانچ ہزار لوگوں کو لٹکانے والے بیان کے بعد ایک اور بیان داغ دیا ہے۔ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے فیصل واوڈا نے کہا ان کی ذاتی سوچ ہے کہ پانچ ہزار لوگوں کو لٹکانے سے پہلے کاش ان لوگوں کو گاڑیوں کے پیچھے باندھ کر چوراہوں پر گھمایا جائے اور پھر پھانسی دی جائے۔ واضح رہے اس سے قبل فیصل واوڈا ملک میں نوکریوں کی بارش ہونے کے حوالے سے بھی بیان دے چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک ٹی وی پروگرام میں تحریک انصاف کے رہنما مسرور علی سیال نے کراچی پریس کلب کے صدر کی پٹائی کردی۔ کیا اس قسم کے فسطائی رویوں سے جمہو ریت کو فائد ہ ہو گا یا نقصان؟ ۔