امریکہ ایران تنازع اور پاکستان!
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایران نے درست کہا ہے کہ یہ سوٹ میں ملبوس دہشت گرد ہے۔ ٹرمپ نے مواخذ ے سے بچنے اور آئندہ سال الیکشن جیتنے کے لیے دنیا کے امن سمیت سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے۔ موجودہ بین الاقوامی بحران جو ایرانی کمانڈو فورس القدس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی بغداد ایئرپورٹ سے نکلتے ہوئے امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، ٹرمپ نے اس پر خوب بغلیں بجائیں اور دھمکی آمیز رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا اگر ایران نے جیسا کہ اس نے عندیہ دیا ہے کہ وہ جنرل سلیمانی کا بدلہ لے گا تو ایران کے ثقافتی مراکز سمیت52مقامات امریکہ کے نشانے پر ہیں جن پر حملہ کریں گے۔ اگر کوئی اور یہ بات کرتا تو اسے گیدڑ بھبھکی سے تعبیر کیا جاتا لیکن موجودہ امریکی صدر کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ انتقام کی آگ بجھانے کے لیے وہ کیا کر بیٹھے۔ جنرل سلیمانی ایران کی قیادت میں عملی طور پر دوسری اہم ترین شخصیت تھے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق جنرل سلیمانی، بیک وقت امریکی نائب صدر، چیئرمین جوائنٹ چیفس اور سی آئی اے کے سربراہ کے اختیارات یکجا کر دیئے جائیں اتنے طاقتور تھے۔ ان کا داعش کا عراق میں قلع قمع کرنے میں کلیدی کردار تھا لیکن ٹرمپ کا اصرار ہے کہ جنرل سلیمانی کو مار دینے سے امریکیوں کی جانیں بچائی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ بحران اس وقت شروع ہوا جب 31دسمبر کو حزب اللہ نے بغداد میں امریکی سفارتخانے پرحملہ کیا۔ جنرل سلیمانی کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ انھیں سپردخاک کرنے کے لیے لاکھوں افراد ایران کی سڑکوں پر امڈ آئے۔ دنیا بھر میں امریکی جارحیت کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں پاکستان میں بھی کراچی سمیت کئی شہروں میں بڑے بڑے جلوس نکلے ہیں۔
ٹرمپ نے جو آج کل فلوریڈا میں اپنی سٹیٹ میں چھٹیاں منا رہے ہیں انتہائی رعونت آمیز انداز میں عراق کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے اپنی پارلیمنٹ کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے وہاں 2014ء سے مقیم امریکی فوجیوں کو نکالا تو اس پر اقتصادی پابندیاں لگا دی جائیں گی۔ امریکی غنڈہ گردی کی اس سے بدترین مثال کیا ہو گی کہ اگر عراق اپنے ملک سے امریکی فوجیں نکالنا چاہتا ہے تو امریکی انتظامیہ ڈھٹائی سے کہتی ہے کہ ہمیں انھیں وہیں رکھیں گے گویا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے۔ صدر ٹرمپ کے نزدیک کسی دوسرے ملک کی آزادی اور خودمختاری کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ ایک زمانے میں جب امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ عرو ج پر تھی اور 1979ء میں سوویت فوجوں نے افغانستان پر لشکر کشی کر کے قبضہ کرلیا تھا تو کہا جاتاتھا کہ روسی ریچھ کی جپھی بڑی مہنگی پڑتی ہے۔ افغانستان میں بھی انھوں نے پہلے ببرک کارمل جیسے روس نواز حکمران تخت نشین کئے اور بعدازاں پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا اب یہ رول امریکہ ادا کر رہا ہے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اب امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔
پاکستان کے لیے صدر ٹرمپ کی یہ جارحانہ حکمت عملی فکر مندی کا باعث ہونی چاہیے۔ امریکی عہدیدار وقتاً فوقتاً پاکستان کو متنبہ کرتے رہتے ہیں کہ چین کے ساتھ سی پیک گھاٹے کا سودا ہے اور چین پاکستان کو مقروض کر کے رکھ دے گا حالانکہ سی پیک کا معاہدہ چین اور پاکستان کے باہمی مفاد میں ہے اور پاکستان پر زبردستی نہیں ٹھونسا گیا لیکن جس طرح امریکہ، عراق کے سیاسی، انتظامی، سکیورٹی امور اور اقتصادیات کا ماما بن گیا ہے ایسا سلوک چین نے تو ہمارے ساتھ نہیں کیا اور نہ ہی اس کے پاکستان پر زبردستی قبضہ کرنے کے عزائم ہیں، پھر بھی ہمیں کہا جاتاہے کہ چین کو چھوڑ دو اور ہمارے پاس آؤ۔ تازہ صورتحال میں امریکی امداد ہمارے لیے سبق آموز ہونی چاہئے۔ پاکستان میں امریکہ نواز حلقے اس بات پر پھولے نہیں سما رہے کہ امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فون کیا ہے حالانکہ ایسا رابطہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی یا وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔ کسی کو معلوم نہیں کہ مائیک پومپیو نے آرمی چیف سے کیا بات کی ہے۔ فوجی ترجمان نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کسی اور کی جنگ میں حصہ نہیں لے گا، یہ اعلان اپنی جگہ خوش آئند ہے۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا مشرق وسطیٰ میں صورتحال بہت نازک اور تشویشناک ہے، مشرق وسطیٰ کسی نئی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا، جنرل قاسم سلیمانی کا واقعہ اسامہ بن لادن اور ابوبکر بغدادی کے واقعے سے بھی زیادہ سنگین ہو سکتا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا واقعے کو خطے پر نظر رکھنے والے ماہرین تشویشناک کہہ رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال کوئی بھی کروٹ لے سکتی ہے۔ گویا کہ ہمارے وزیر خارجہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں یہ مکمل ادراک ہی نہیں کہ حالات کیا سمت اختیار کر سکتے ہیں۔ قبل ازیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپیل کی کہ تنازع اور کشیدگی سے بچنے کے لیے فریقین کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور تنازع کو عالمی ادارے کے منشور کے تحت پرامن طریقہ سے حل کرنا چاہیے۔ قریشی صاحب کا مشورہ تو بظاہر بہت خوبصورت ہے لیکن جس انداز سے امریکہ نے ایران کی سینئر لیڈر شپ پر شب خون مارا ہے، پاکستان کو اس کی مذمت کرنی چاہیے تھی کیونکہ شاہ صاحب جن بین الاقوامی قوانین کا حوالہ دے رہے ہیں انہی کی تو دھجیاں اڑائی گئی ہیں لہٰذا حملے کے مرتکب اور نشانہ بننے والوں کو برابر کی سطح پر کس طرح جانچا جا سکتا ہے کیونکہ امریکی صدر کے جارحانہ اقدام کو اگر درست مان لیا جا ئے تو کسی بھی ملک کے اعلیٰ عہدیدار کو ڈرون حملے سے یہ جواز بنا کر کہ امریکیوں کی جانوں کو بچانے کے لیے ایسا کیا گیا اس کی آزادی اور خود مختاری کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مارا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ماضی میں جب پاکستان کی حکومتوں پر دہشت گردوں کو پناہ دینے اور ان کی پشت پناہی کرنے کے الزامات امریکہ اور مغرب کی طرف سے برملا طور پر لگائے جاتے تھے اور ڈومور کا مطالبہ جواب بھی کیا جاتا ہے تو کیا یہ جواز بن سکتا تھا کہ پاکستان کے کسی انٹیلی جنس چیف یا کسی کمانڈر کو ڈرون حملہ میں اڑا دیا جاتا۔
سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں حکومت کی خارجہ پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا حکومت خاموش اور جنرل قاسم سلیمانی کو شہید تک کہنے سے گریز کر رہی ہے، ہمیں فارن پالیسی کا بغور جائزہ لینا ہو گا کہ ہماری خارجہ پالیسی صبح کچھ اور شام کو کچھ اور ہوتی ہے، خارجہ پالیسی کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا جنرل قاسم سلیمانی پاکستان سے ایس ایس جی ٹریننگ لیکر گئے تھے جبکہ ایران نے کبھی پاکستانی سرحد پر فوج تعینات نہیں کی۔
وزیر خارجہ نے ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکی کے اپنے ہم منصب وزرائے خارجہ پر باقاعدہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستان اس تنازع کا حصہ نہیں بنے گا۔ ڈی جی، آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ایک ٹی وی پروگرام میں قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ سوشل اور بعض الیکٹرانک میڈیا پر چلنے والی افواہوں پر یقین نہ کریں اور ان کے مطابق یہ پاکستان مخالف منفی پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ یقینا فوجی و حکومتی وضاحتیں بروقت ہیں، اس میں بھی کو ئی شک نہیں کہ پاکستان امریکہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتا اور ٹرمپ جیسی لاابالی شخصیت کا کوئی اعتبار نہیں کیا جا سکتا وہ کسی بھی وقت پینترا بدل سکتا ہے اور اس وقت ہم اپنی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں کہ امریکہ کو افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلا کے لیے ہماری ضرورت ہے اور اس ضمن میں ہم کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کے مطابق افغانستان میں امن کے قیام کی کوششوں کو تیز تر کیا جائے گا اور اس ضمن میں پاکستان اپنی کاوشیں جاری رکھے گا لیکن کوئی ایک دہشت گردی کا بڑا واقعہ یا طالبان کی جانب سے امریکی ایجنڈے پر عمل کرنے سے انکار اسلام آباد کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ ویسے اس معاملے میں بھی پاکستان کو واشنگٹن کی امیدیں زیادہ نہیں بڑھانی چاہئیں کیونکہ افغان طالبان پر ہمارا اثر ونفوذ ہونے کی بھی حدود قیود ہیں، یہ توقع رکھنا کہ افغان طالبان جو افغانستان کے وسیع تر علاقے پر قابض ہیں رضا کارانہ طور پر ایسی افغان حکومت میں کیونکر شامل ہونگے جہاں ان کا گہرا اثر ورسوخ نہ ہو۔
اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ امریکہ کے یورپی حلیف بھی ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد افغانستان پرامریکی حملے پر برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر اتنے بڑے امریکہ کے پٹھو بن گئے تھے کہ انھیں امریکہ کا پوڈل، کہا جاتا تھا اور اب بورس جانسن کو گلہ یہ ہے کہ امریکہ نے ایرانی کمانڈر کو اڑانے سے پہلے انھیں اعتماد میں نہیں لیا کیونکہ صدر ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ برطانیہ ویسے ہی کورنش بجا لائے گا۔ یہی حال یورپی ودیگرحلیفوں کا بھی ہے جونیم دروں نیم بروں کی کیفیت میں ہیں۔ جہاں تک اس حملے کے محرکات کا تعلق ہے بجائے اس کے کہ امریکی شہری زیادہ محفوظ ہوتے دنیا بھر میں امریکی شہریوں کو غیر ضروری طور پر سفر کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔ دوسری طرف ایران نے برملا کہہ دیا ہے کہ ایران اب اس ایٹمی معاہدے کا پابند نہیں ہے جسے ٹرمپ پہلے ہی یکطرفہ طور پر ختم کر چکے ہیں۔ پاکستان کیونکہ ایران کا ہمسایہ اور مشرق وسطیٰ کے دہانے پر بیٹھا ہے، صورتحال مزید بگڑنے سے اس پر وسیع تر اقتصادی و سٹرٹیجک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔