اللہ بچائے نادان دوستوں سے
شہ زوروں کے شہر میں جمعہ کو گھمسان کا رن پڑا۔ ایک دن پہلے وہ کچھ ہوا جس کی چند ہفتے پہلے توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ عمران خان کے حواریوں کو طوہاً وکرہاًحکومت کے خلاف اپوزیشن کے جلسے کو برداشت کرنا پڑا۔ مولانا فضل الرحمٰن سے لے کر بلاول بھٹو اور مریم نوازتک قریباً تمام اپوزیشن رہنمائوں نے شرکت کی اور دھواں دھار خطاب کیے۔ میاں نواز شریف لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کر رہے تھے، عام خیال یہی تھا کہ حکومت اپوزیشن کے اجتماع کو برداشت نہیں کرے گی لیکن انتظامی حربوں کے ذریعے اسے روکنے میں قطعاً ناکام رہی۔ حکومتی ترجمان مسلسل یہ گردان کرتے رہے کہ اپوزیشن کا جلسہ ناکام ہوگااور گوجرانوالہ کا جناح سٹیڈیم بھی نہیں بھر پائے گا لیکن شام ہونے سے پہلے ہی سٹیڈیم کھچا کھچ بھر چکا تھا اور عوام کا جم غفیر سٹیڈیم کے باہر بھی موجود تھا۔ شہباز گل اور فیاض چوہان طوطے کی طرح یہ راگ الاپتے رہے کہ اپوزیشن کا اجتماع ناکام ہو گیا ہے، حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔
اپوزیشن کے ترجمان دعویٰ کر رہے ہیں کہ جب تک ان کی احتجاجی تحریک منطقی انجام کو پہنچے گی۔ حکومت کی چھٹی ہو چکی ہوگی۔ یہ سیاسی مبالغہ آرائی ہے، ہو سکتا ہے کہ خان صاحب کی چھٹی نہ ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ خان صاحب کی حکومت کو اپوزیشن کی طرف سے یہ پہلا گھائو لگا ہے۔ قریباً ایک برس قبل جب مولانا فضل الرحمٰن نے "سومنات" پر پہلا حملہ کیا تھا تو ان کی تحریک ٹھس ہو گئی تھی۔ اس وقت مسلم لیگ(ن) اور نہ ہی پیپلزپارٹی نے ان کا ساتھ دیا تھا۔ یوں پھول بن کھلے ہی مرجھا گئے تھے۔
آخر ایک سال میں کیا ہوا ہے کہ وہی لوگ جو اپوزیشن کی احتجاجی تحریک چلانے سے ہچکچا رہے تھے اس بار کھل کر سامنے آگئے۔ اس کی بنیادی وجہ تو یہی ہے کہ حکومت کی انتظامی اور اقتصادی مس ہینڈلنگ، مہنگائی میں ہوشربا اضافے نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا۔ کوئی تصور کر سکتا تھا کہ انڈہ 16 روپے کا ملے گا، پیاز120 روپے، ٹماٹر 200، چینی 120، آٹا 90 روپے، بجلی کی قیمت آسمان کو چھونے لگے گی، گیس کا بھی یہی حال ہے۔ اب تو تحریک انصاف کے حامیوں کوبھی آٹے دال کا بھائومعلوم ہوگیاہے۔ عمران خان مصر ہیں کہ میں چوروں، ڈاکوئوں کو نہیں چھوڑوں گا اور نہ ہی انہیں این آر او دوں گا، تو ان کا روئے سخن اپوزیشن کی قریباً سبھی جماعتوں کی طرف ہوتا ہے۔ ان کے نادان مشیر ہر روز کسی پاپڑ والے، کسی آفس بوائے یا کسی اور فرنٹ مین کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں، اب چاہے کسی حد تک یہ حقیقت بھی ہو ان پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں۔ گویا کہ کرپشن پاکستان میں ایک مرتبہ پھر بلبل ہزار داستان کا قصہ بن کر رہ گئی ہے۔ اسی بنا پر لوگ خان صاحب کے بیانیے سے یکسر تنگ آچکے ہیں۔
جمعہ کے روز بہت سے واقعات ایسے ہوئے جن پر یقین نہیں آتا، حکومت نے یہ سب کچھ کیونکر قبول کیا یا انہیں مجبوراً عمل کرنا پڑا۔ مثال کے طور پر میاں نواز شریف کے ویڈیولنک کے ذریعے خطاب اور مریم نواز، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمٰن و دیگر مقررین کی تقریریں جن میں حکومت کو خوب رگڑا لگایا گیا۔ تحریک انصاف کے کھلاڑیوں نے جو پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتے کیونکر یہ سب کچھ ہونے دیا۔ خان صاحب کو اسے وارننگ سمجھ کر بلاتاخیر گورننس کے معاملات درست کرنا پڑیں گے۔ انہیں اپنے وزرا زیادہ تر معاونین خصوصی اور مشیروں کی چھٹی کرانا پڑے گی۔ تحریک انصاف کی حکومت اپنی نصف مدت پوری کر چکی ہے لیکن بلندو بانگ دعوئوں، نعرے بازی اور الزام تراشی کے سوا موجودہ حکومت کی کارکردگی قریباً صفر ہے۔ اگر حکومت نے اپنی سمت درست نہ کی تو عوام واقعی اسے فارغ کر دیں گے۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ گئے ہیں۔ عمران خان کو ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ ایک برس پہلے عوام جو کسی حکومت مخالف تحریک کا ساتھ نہیں دے پا رہے تھے اوروہ پی ٹی آئی کی نئی حکومت کو پورا موقع دینا چاہتے تھے، اتنے کم عرصے میں کیسے تبدیل ہو گئے، لیکن خان صاحب اپنی انا نیت کے نشے سے سرشار رہے اور نوشتہ دیوار نہ پڑھ سکے۔
گوجرانوالہ کے اجتماع میں شریک زیادہ تر غریب عوام تھے جن کے چولہے ٹھنڈے ہو چکے ہیں، دو وقت کی روٹی سے محروم ہو چکے ہیں، وہ تنگ آمد بجنگ آمد احتجاج کرتے ہوئے حکومت مخالف تحریک میں شرکت کے لیے سٹیڈیم پہنچنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ویسے صوبائی انتظامیہ کو بھی یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ سب کچھ کسی جانی و مالی نقصان کے بغیر پر امن انداز سے مکمل ہو گیا۔ اپوزیشن کے آئندہ اجتماعات میں بھی ان کی حاضری بھرپور ہوگی۔
مصیبت یہ ہے کہدوسال کی مسلسل بدانتظامی، نا اہلی کی چند ہفتوں میں اصلاح نہیں کی جا سکتی۔ دوسری طرف شیخ رشید جیسے نادان دوست نئے نئے شوشے چھوڑ کر اپنی دکان چمکاتے رہتے ہیں۔ فرماتے ہیں اب "بانی متحدہ ٹو" نواز شریف کہلاتے ہیں۔ انہوں نے استنبول کے ایک ہوٹل میں نواز شریف کی کسی خفیہ ملاقات کا، انکشاف کیا ہے۔ شیخ صاحب کی تانگہ پارٹی اس قسم کی درفطنیوں پر انحصار کرتی ہے۔ خدا بھلا کرے میڈیا کا، جنہوں نے شیخ صاحب کی فقرے بازی کے طفیل ان کی دکان چمکائی ہوئی ہے۔ اپنی پریس کانفرنس میں انہوں نے ایک اور شوشہ چھوڑا ہے کہ ملک دشمنوں سے ملی بھگت کے طفیل مسلم لیگ (ن) پر پابندی لگ سکتی ہے۔ اللہ خان صاحب کو اس قسم کے نادان مشیروں سے بچائے۔
حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے افواج پاکستان کو بلاوجہ سیاسی معاملات میں گھسیٹا جا رہا ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ افواج پاکستان حکومت کی ہے نہ اپوزیشن کی بلکہ وہ تو ریاست کی ہے۔ دونوں طرف سے بیانات کی وجہ سے ایک اہم ادارے کو کیوں متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔