افراتفری
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی فرمائش پر پنجاب، سند ھ اور بلوچستان کی بیورو کریسی میں وسیع پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ حیران کن نہیں ہے۔ اس وقت تو لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کا فرمائشی پروگرام پورا کیا جا رہا ہے۔ تبادلوں کے اس جھکڑ میں پنجاب میں 34 سیکرٹریز، 9کمشنرز، 35 ڈپٹی کمشنر، 10آر پی اوز، 4 سی پی اوز، سمیت 113 ایس ایس پیز تبدیل ہو گئے ہیں جبکہ سندھ کے14سیکرٹریز، 6کمشنر، 33 ڈپٹی کمشنر، 2 اے آئی جیز، 14 ڈی آئی جیزاور بلوچستان میں 3سیکرٹریز، 6کمشنر، 33 ڈپٹی کمشنر تبدیل کیے گئے ہیں۔ آئی جیزاور چیف سیکرٹریز کا بھی تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ پنجاب میں کئی سینئر پولیس افسروں نے اپنے سے جونیئر افسرکی بطور آئی جی تعیناتی پر چھٹی پر جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وقتی طور پر اس ہسل بسل سے تینوں صوبوں میں انتظامیہ معطل ہو کر رہ گئی ہے۔ تبدیلی کے اس عمل جس میں صرف پنجاب سے 45افسر ادھر ادھر کیے گئے ہیں وقت اور سرمایہ دونوں درکار ہیں۔ یہ سب کچھ الیکشن کمیشن کی سفارش پر ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں جہاں گزشتہ 5سال تک پی ٹی آئی کی حکومت تھی وسیع پیمانے پر تطہیر کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی کیونکہ غالباً وہاں تو "سب اچھا ہے"۔ واضح رہے کہ عمران خان نے الزام عائد کیا تھا کہ پنجاب اور سندھ میں سرکاری ملازمین زرداری اور نواز شریف اینڈ کو کے ذاتی ملازموں کی طرح کورنش بجالاتے ہیں۔ 2008ء کے بعد اب تک وطن عزیز میں یہ تیسرے عام انتخابات ہیں اور دوسری مرتبہ نگران حکومت کے تحت ہو رہے ہیں۔ لیکن اس بار عجیب سی ہذیانی کیفیت ہے۔ عمران خان تمام ایسے سوراخ بند کرنے کے درپے ہیں جہاں سے انھیں ممکنہ طور پر ڈسا جا سکے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ان اقدامات پر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) اس طرح کا شوروغوغا نہیں کر رہیں جس طرح تحریک انصاف کرتی رہی ہے۔ جمہوری ملکوں میں بیوروکریسی کا ادارہ ہی انتظامی تسلسل کا ضامن ہوتا ہے۔ پاکستان کی بیورو کریسی کو بہت گالیاں دی جاتی ہیں لیکن تیسری دنیا سے موازنہ کیا جائے تو ہمارے ملک میں سول سروس ’ڈی ایم جی گروپ، پولیس، ایف بی آر، کسٹمز کی صورت میں گورننس کا ڈھانچہ موجود ہے لیکن لگتا ہے کہ سیاستدان، اعلیٰ عدالتیں، نیب اور مقتدر قوتیں انہی کے درپے رہتی ہیں۔ یہ اسی پکڑ دھکڑ کا نتیجہ ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد سے پہلے ہی بیوروکریسی عضو معطل بن چکی ہے اور اس نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے کہ کون روز روز کی پیشیاں بھگتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیوروکریسی کوئی معصوم ادارہ ہے، بہت سے سینئر بیوروکریٹس نے سیاستدانوں کے آگے کو رنش بجالا کر بڑی خوش دلی سے ان کے ہر جائزاور ناجائز کام کیے ہیں اور اپنی جیبیں بھی بھری ہیں۔ یقینا ایسے لوگوں کا قانون کے مطابق احتساب ہونا چاہیے لیکن یہ کہ نہانے والے پانی کے ساتھ نومولود بچے کو بھی پھینک دیا جائے، کہاں کی دانشمند ی ہے۔ اس وقت ملک میں عجیب نفسا نفسی ہے، ایسے لگتا ہے کہ کوئی پرسان حال ہی نہیں اور جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔ نگران حکومت ہر چند ہے کہ نہیں ہے کا دائرہ کار محض عام انتخابات کے منصفا نہ انعقاد تک محدود ہے لیکن اس کے باوجود اپنی ہی فرمائش پر بننے والی اس بے اختیا ر عبوری حکومت کو بھی گیدڑ بھبھکیوں کے ذریعے ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ ایک طرف تویہ حال ہے دوسری طرف حالات کا دھارا بہتاجا رہا ہے۔ روپیہ گرتے گرتے یہاں پہنچ گیا ہے کہ ڈالر قریباً 125رو پے سے تجا وز کر رہا ہے اور اس پر کوئی بریک لگانے والا نہیں ہے۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ ا ب سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار اور ان کے جانشین مفتاح اسماعیل کو بھی مورد الزام ٹھہرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہمارے صنعت وتجارت کے حلقوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے کہ ڈالر اور رو پے کا معاملہ کہاں جا کر رکے گا۔ اس حو الے سے مہنگائی کا اژدھا بھی پھن پھیلائے کھڑا ہے۔ یقینا اس سے عمران خان، زرداری، نواز شریف اور شہباز شریف سمیت سیاستدانوں کے اربوں روپے کے منقولہ وغیر منقولہ اثاثے او ر ان کے خاندان متاثر نہیں ہوئے ہونگے لیکن مڈل کلاس اور غریب کا بھر کس نکل گیا ہے۔ اس پر مستزادیہ کہ بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈی نے پاکستان کی معیشت کی ریٹنگ مستحکم سے منفی قرار دے دی ہے اگرچہ بی تھری ریٹنگ کو جوں کا توں رہنے دیا ہے۔ یقینا ان معاملات کو یہ کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا کہ جب منتخب حکومت آئے گی تودیکھا جائے گا۔ مصیبت یہ ہے کہ روزمرہ کا کام اور فیصلے بھی موجودہ صورتحال میں جمود کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ میں توذاتی طور پر گزشتہ وفاقی نگران حکومت کا رکن ہونے کے باوجود اس قسم کی غیر موثر نگرانی کے خلاف ہوں۔ جمہوری ملکوں میں الیکشن ہوتے ہیں اور برسر اقتدار جماعت کی حکومت کے اختیارات کو محدود کر کے ایک مضبوط الیکشن کمیشن اور عدالتیں منصفانہ انتخابات کو یقینی بناتی ہیں۔ لیکن جہاں ہر طرف چور چور کی آوازیں آ رہی ہوں اور جن باتوں پر اتفاق رائے بھی ہو انھیں بھی محض اقتدار کے حصول کے اندھے لالچ میں متنازعہ بنا دیا جائے وہاں تو کوئی سسٹم نہیں چلاسکتا۔ الیکشن ایکٹ 2017ء سب پارٹیوں نے اتفاق رائے سے قومی اسمبلی میں منظور کیا تھا لیکن یکدم تحریک انصاف کو پتہ نہیں کیا سوجھی کہ اس نے مطالبہ داغ دیا کہ خیبر پختونخوا کے گورنر کو تبدیل کیا جائے کیونکہ فاٹا ان کے تحت آتا ہے لہٰذا وہ اثر انداز ہونگے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اس مطالبے میں کوئی دم نہیں تو انھوں نے مطالبہ کردیا کہ تما م گورنروں کو تبدیل کر دیا جائے۔ اگلے ہفتے پیرس میں ہونے والے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس FATFکے اجلاس میں پاکستان کو بلیک لسٹ بھی کیا جاسکتا ہے لیکن لگتا ہے کہ اہم اپنے فروعی معاملات میں اتنا الجھے ہوئے ہیں کہ سر پر اس لٹکتی تلوار کا ادراک ہی نہیں کر پا رہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو وطن عزیز کے لیے پیدا ہونے والی مشکلات انتہائی کٹھن ہونگی۔ سنا ہے کہ عید سے عین قبل آئی ایم ایف کے کچھ حاضر اور ریٹائرڈ اہلکار ان گدھوں کی طرح جو کسی نیم مردہ پر پہلے سے منڈلانا شروع کر دیتی ہیں، نے لاہور کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں کچھ ماہرین اقتصادیات کے ساتھ میٹنگ کی کہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی درآمدات، گرتی ہو ئی برآمدات اور زرمبادلہ کے ذخائر میں واضح کمی، بچت اور کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کے خطرناک حدتک بڑھنے کی روشنی میں پاکستان کو کیاکرنا چاہیے۔ پاکستان کے یہ نام نہاد ماہرین اقتصادیات بھی ہمارے جید علماء کی طرح ہی ہیں کہ اسلامی نظام کے نفاذ کے دعوے تو کرتے ہیں لیکن ایک متحدہ مسجد بنانے پر تیار نہیں۔ اسی طرح اس میٹنگ میں ہر کوئی بھانت بھانت کی بولی بول رہا تھا۔ ایک اچھے خاصے چغادری ماہر کا تو کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنے قرضے اتارنے کے بجائے ڈیفالٹ کر دینا چا ہیے۔ لیکن اس بحث کے باوصف یہ بات واضح تھی کہ جلد یا بدیر وطن عزیز کو دوبارہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانا پڑے گا جس کی اب تک کوئی پیش بندی نہیں کی گئی۔ نگران وفاقی وزیر خزانہ محترمہ شمشاد اختر کو تمام بڑ ے سیاستدانوں کو اکٹھا کر کے بتانا چاہیے کہ ملک کس قسم کے بحران سے دوچار ہے اور اقتصادی ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے آئندہ حکمت عملی کے موٹے موٹے خدوخال کم سے کم اتفاق رائے سے تیارکر لینے چاہئیں لیکن یہاں توالیکشن ہیں اور ہر سیاسی جماعت اپنی دکان چمکانے کے لیے ہی سرگرم عمل ہے۔ لہٰذا ہم لڑتے لڑتے لہولہان ہو جائیں گے لیکن ہوش کے ناخن نہیں لیں گے۔