شمس الرحمن فاروقی
شمس الرحمن فاروقی بھائی کی تحریروں سے تعلق تو یونیورسٹی کے دنوں سے تھا مگر اُن سے پہلی بالمشافہ ملاقات شامِ بہار ٹرسٹ انبالہ والے راجندر ملہوترہ کے مشاعرے کے توسط سے 1981 میں ہوئی اُن دنوں وہ دہلی میں فیڈرل پوسٹل سروس کے ایک اعلیٰ افسر کے طور پر کام کر رہے تھے اور اُن کا جاری کردہ رسالہ "شبِ خون" اپنے پورے جوبن پر تھا اگرچہ وہ بہت خوش گفتار انسان تھے مگر اُن کا عمومی مزاج بظاہر قدرے خشک اور کم آمیزی کی طرف مائل تھا جسے پہلی نظر میں Snobbery پر بھی محمول کیا جاسکتاتھامگر اپنی پسند کے لوگوں یا محفل میں وہ بہت جلدRelaxہوجاتے تھے۔
البتہ جہالت کی کسی بات پر اُن کی طبیعت کی تیزی دیکھنے لائق ہوتی تھی وہ مروتاً بھی کسی جاہل شخص کو معاف کرنے کے قائل نہیں تھے، مجھے بہت سے ایسے مواقع یاد ہیں جب اُن کے علم وفضل کا دریا اپنے جوش اور بہاؤ میں کُشتوں کے پُشتے لگاتا چلا جارہا تھا اُن کا یہ مزاج ہمیں اُن کی بیشتر تحریروں میں بھی غالب نظر آتا ہے، اُردو ادب میں ایک سے زیادہ اصناف میں قابلِ قدر کام کرنے والوں کی فہرست خاصی طویل ہے مگر گنتی کے چند لوگ ہی فاروقی صاحب کی صف میں شمار کیے جاسکتے ہیں۔
وہ بیک وقت شاعر بھی تھے، ادیب بھی، ناقد بھی تھے ا ور محقق بھی، مدیر بھی تھے اور شارع بھی، مرّتب بھی تھے اور مفسّر بھی اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہزاروں صفحات اور چار جلدوں پر محیط اُن کی تصنیف "شعر شور انگیز" ہو یا سو ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل ادبی جریدہ "شب خون" ہر میدان میں وہ یکتا نظر آتے ہیں۔ چند ماہ قبل بُک کارنر جہلم کے دوستوں نے اُن کے شاہکار ناول "کئی چاند تھے سرِ آسماں " کا نیا اور خصوصی ایڈیشن بھجوایا تو ایک بار پھر اُس طلسماتی فضا میں سانس لینے کا موقع ملا جس کی تخلیق اپنی گُوناگوں خوبیوں کے باعث کسی معجزے سے کم نہیں، اُردو فکشن میں ایسی غضب کی کردار نگاری اور ایسی دلکش نثر نایاب ہونے کی حد تک کمیاب ہے۔
اُن کے تخلیقی کارناموں، ہمسفری اور ملاقاتوں کی یادوں کو سمیٹنے کے لیے شائد ایک ضخیم کتاب بھی کم پڑجائے کہ یہ اپنی جگہ پر ایک بحرِ بے کراں سے کم نہیں۔ اب گزشتہ پندرہ بیس برس سے (موبائل فون اور کمپیوٹر کے فروغ کے بعد) خط لکھنے کا رواج بہت کم رہ گیاہے البتہ اس سے پہلے کے لکھے ہوئے اُن کے کئی خطوط میرے پاس محفوظ ہیں جن سے اُن کی طبیعت کی گہرائی شگفتگی، علمیت، مطالعے اور فکری رجحانات کو کوزے میں سمندر بند کرنے کے مصداق دیکھا جاسکتا ہے، مثال کے طور پر 21اکتوبر1992 کا لکھنوء سے لکھا ہوا ایک خط اس وقت میرے سامنے ہے، لکھتے ہیں،
"پیارے امجد اسلام امجد، السلام علیکم، تمہاری نہائت خوب صورت کتابیں "نئے پرانے"، "خزاں کے آخری دن"(In the last days of autumn) ملی تھیں، بہت بہت شکریہ "نئے پرانے" نے میرا دل خاص طورپر موہ لیا کہ میں بھی گزشتہ کئی برسوں سے انھی لوگوں سے اُلجھتا رہا ہوں تم نے انتخابات عمدہ کیے ہیں اور مضامین خوب لکھے ہیں خاص کر مصحفی، غالب اور میرؔ پر تم نے بہت اچھا لکھا ہے کوئی جدید شاعر ہمارے کلاسیکی شعرا کو جی لگا کر پڑھے اور ان کو نکھار چمکا کر نئے انداز میں لائے یہ میری شدیدتمنا تھی اس تمنا کو تمہاری کتاب نے ایک حد تک پورا کیا ہے۔
بہت خوب، بہت ہی خوب، تمہاری شاعری کا میں پرانا مداح ہوں اس لیے اس ضخیم اورحسین کلیات کا تحفہ میرے لیے نہایت قیمتی ہے۔ میں نے جواب لکھنے میں یوں دیر کی کہ "شعرِ شور انگیز" کی جلد سوم کا انتظار تھا اب خدا خدا کرکے وہ آئی ہے تو تینوں جلدیں اکٹھی بھجوارہا ہوں دُعا کرو کہ چوتھی بھی آجائے اور میری مصیبت کٹے۔ گزشتہ دس پندرہ برس میں زیادہ تر اسی میں لگا رہا ہوں، میری طبیعت ابھی پوری طرح ٹھیک نہیں ہوئی، سفر سے اب گھبرانے لگا ہوں ورنہ لاہوربہت یاد آتاہے، کیا تم نے بھی اِدھر کے مشاعرے پڑھنا چھوڑ دیے؟
سب دوستوں کو سلام کہو، کتابوں کی رسید سے مطلع کرنا " شب خون" بھیجا تھا سلیم اختر کی معرفت ملا ہوگا
تمہارا۔۔۔ شمس الرحمن فاروقی
اُن کی نثر کی طاقت اور شور میں اُن کی شاعری بہت حد تک دب کر رہ گئی ہے اس میں کچھ ہاتھ اُن کے منفرد شعری مضامین اور اُس مخصوص طرز ادا کا بھی ہے جس میں اُن کی علمِ عروض پر دسترس اور طرز ادا کا دخل بھی ہے کہ وہ فطرتاً بنے بنائے اور آزمودہ راستوں پر چلنے سے گریزاں تھے ا ور اپنی بات کو اپنے رنگ میں کہنے پر زور دیتے تھے جو بیشتر سہل طلب قارئین کے لیے ایک طرح کی رکاوٹ کا کام کرتا تھا مگر اس میدان میں بھی اُن کی فتوحات اُن کے بیشترہم عصر مقبول شاعروں سے کسی طور کم نہیں۔
کالم کی محدود گنجائش کے پیش نظر میں اُن کے ایک شعری مجموعے"محراب آسمان"سے صرف ایک نظم اور غزل کے چند اشعار ہی درج کرسکوں گا تاکہ اُن کے فنی کمالات کا یہ منظر بھی ہم سب کے دھیان میں رہ سکے جو اس وقت ان کو شدّت اور محبت سے یاد کر رہے ہیں، نظم "آخری تماشائی" کا یہ منظر دیکھیے۔
اُٹھو کہ وقت ختم ہوگیا
تماش بینوں میں تم آخری ہی رہ گئے ہواَب چلو
یہاں سے آسمان تک، تمام شہر، چادریں لپیٹ
لی گئیں، زمین سنگ ریزہ سخت
دانت سی سفید ملگجیدکھائی دے رہی ہے ہر طرف
تمہیں جہاں گمانِ سبزہ تھا
وہاں جھلک رہی ہے کہنہ کاغذوں کی برف
وہ جو چلے گئے
انھیں تو اختتامیئے کے سب سیاہ منظروں کا علم تھا
وہ پہلے آئے تھے اسی لیے وہ عقل مند تھے
تمہیں تو صبح کا پتہ، نہ شام کی خبر، تمہیں تو
اتنا بھی پتہ نہیں کہ کھیل ختم ہو تو اس کو شام
کہتے ہیں اے ننھے شائقانِ رقص
اب گھروں کو جاؤ
اور اب آخر میں اُردو ادب کے دورِ حاضر کے اس معتبر ترین نمائندے کی غزلوں سے چند اشعار
اب رِیت ہوچکی ہے پچھلے برس کی بارش
بادل نے راہ بدلی پھر گھوم کر نہ دیکھا
اٹھی تھی قصرِ خرد سے جو احتساب کی لے
اُڑا کے لے گئی آکر فغانِ دل زدگاں
ابھی کتنوں سے لگ چلتی، نہ جانے کتنے گھر کرتی
ذرا کچھ اور بھی دن رنگِ دنیا دیکھ لینا تھا
صفحہ خاک تھا میں سات سمندر وہ شخص
ایک بھی لفظ نہ بولا، مجھے پڑھ کر وہ شخص
آگ نے دل کو دھو دیا آنکھ نے اشک پی لیے
لوگو چلواُٹھو بھی اب، حد سے زیادہ جی لیے