57برس
ارادہ تو یہی تھا کہ حسبِ وعدہ ڈاکٹر شاہدہ رسول کی کتاب "وارث سے بندگی تک" کے بارے میں بات کروں گا کہ اس عزیزہ نے اپنی ایک فطری محرومی کے باوجود جس طرح سے میرے ڈراموں اور اُن کے مختلف کرداروں کی نفسیات پر کام کیا ہے وہ اپنی نوعیت میں اچھوتا ہے بھی اور بے حد باکمال بھی مگر اس کا دوسرا حصہ جس میں مٔولفہ نے 57برس پر پھیلی ہوئی ٹی وی ڈرامے کی تاریخ کو بہت منضبط، مفصل اور تخلیقی انداز میں پیش کیا ہے۔
دونوں ہاتھ کھول کر آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے کھڑا ہوگیا کہ اتفاق سے اِکا دُکا گزارے لائق کتابوں اور مضامین سے قطع نظر پاکستان میں ٹی وی ڈرامے کے مختلف مراحل اس کی رفتار، موضوعات، مقبولیت اور پھر زوال آمادگی پر نہ صرف بہت کم لکھا گیا ہے بلکہ اس کی مدد سے سن وار ان 57برسوں کی تفصیلات کو جان سکنا ہی اپنی جگہ پر ایک مسئلہ ہے کہ پی ٹی وی جیسے باقاعدہ بڑے اور مضبوط ادارے کے پاس بھی نہ تو اپنے کام کا مکمل ریکارڈ محفوظ ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں مصدّقہ اعدادو شمار، ان کا زمانہ، خصوصیات، اسکرپٹ اور ان میں وقتاً فوقتاً کی جانے والی تبدیلیوں کا کوئی قابل اعتبار ڈیٹا موجود ہے۔
1964ء میں اس کے لاہور سے آغاز سے لے کر 1967تک کراچی اور اسلام آباد تک کا زمانہ چند بچے کھچے آدھے ادھورے پروگراموں کی ایسی یادداشتوں پر مشتمل ہے جن کا کوئی باقاعدہ ویڈیو آڈیو یا تحریری ریکارڈ کہیں بھی دستیاب نہیں ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ظلم اگلے نو برس یعنی 1976ء تک ہوا جب پی ٹی وی کی ریکارڈنگز رنگین ہونی شروع ہوئیں اس دور میں ڈرامے کے علاوہ موسیقی، اسپورٹس، بچوں کے پروگراموں، علمی اور معلوماتی پروگراموں، ٹی وی شوز، قوالی، کلاسیکل میوزک اور کئی بین الاقوامی پروگرامز کی اُردو ڈبنگ سمیت ایسے ایسے شاندار پروگرام اس قدر تفصیل اور ذمے داری سے پیش کیے گئے کہ جو اپنی مثال آپ ہیں مگر بعض نامعلوم وجوہات کی بنا پر نہ تو ان کے ریکارڈ کو محفوظ رکھا گیا اور نہ ہی انھیں نئی ٹیکنالوجی میں بروقت ٹرانسفرکیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق ہر طرح کی ٹیپس کو کاٹھ گودام کی طرح کسی ترتیب اور طریقے کے بغیرہزاروں نہیں تو سیکڑوں طرح طرح کی الماریوں میں ڈھیر کردیاگیا جن میں سے بیشتر بجلی کے بعض طویل تعطلات کے باعث ہمیشہ کے لیے راکھ اور کوڑے کا ڈھیر بن گئیں اور ایک محتاط اندازے کے مطابق اس دور کی اعلیٰ ترین اور نایاب ریکارڈنگز کا شائد 001 فیصد ہی کسی نہ کسی شکل میں محفوظ ہو۔
نویّ کی دہائی کے آغاز میں STN اور NTM ٹائپ کچھ متبادل سامنے آئے مگر اپنی مالی مجبوریوں، تحفظات اور بے ترتیب پالیسیوں کی وجہ سے ان کی موجودگی کسی باقاعدہ اور موثر شکل میں نہ ڈھل سکی اور پی ٹی وی کا ٹائٹینک کسی نہ کسی شکل میں "سُنجیاں ہو جان گلیاں وچ مرزا یار پھرے" کے مصداق اپنی اجارہ داری کو قائم رکھے رہا اور اس زمانے کا ریکارڈ بھی بوجوہ نسبتاً محفوظ رہا مگر اصل خرابی 2000کے بعد مشرف دور میں شروع ہونے والی اوپن پالیسی کی وجہ سے ہوئی کہ اس میں 95% ایسے لوگوں کو ٹی وی چلانے کے لائسنس مل گئے جن کو سرے سے اس کام کا کوئی تجربہ ہی نہیں تھا۔
اب ہوا یہ کہ ایک تو خود پی ٹی وی اس وقت بڑھاپے، تھکاوٹ اور اقربا پروری کا شکار ہو رہا تھا اور دوسرے ان نوواردانِ شوق کا فری فار آل اور غیر ذمے د ارانہ روّیہ تھا جس کی وجہ سے بالخصوص ڈرامے میں ایک انارکی سی پھیل گئی اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک قومی اور فیملی احوال سے باہر نکل کر ادب، کلچر، تاریخ، تہذیب، اخلاقیات، رشتوں اور عمومی سِفلی مگر شوخ روّیوں کا شکار ہوگیا کہ وہ ٹی وی جو چار نسلیں مل کر دیکھا کرتی تھیں اب کسی ایک نسل کے لیے بھی قابلِ قبول نہ رہا اور یوں ہمارا ڈرامہ بیشتر ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں چلا گیا جو اسے سنبھالنے کے اہل نہیں تھے اس دور میں ٹیکنالوجی میں بے حد ترقی ہوئی، اچھے اداکار اور کسی حد تک اچھے ہدائت کار اور دو چار باقاعدہ قسم کے پروڈیوسر موجود تو رہے مگر کھیل اُن کے ہاتھوں سے نکل گیا، سو یا تو وہ کچھ پرانے احباب سمیت ایک طرف ہوگئے اور یا روزگار کی مجبوری کی وجہ سے آہستہ آہستہ اس نظام کا حصہ بنتے چلے گئے۔
ڈرامے کا حجم اور تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت اور معاشرے کی خیر اور ترقی کے درمیان ایک نئے کلچر نے جگہ بنائی جس کا بیشتر حصہ ہماری عام اور مروّجہ اخلاقیات سے بالکل مختلف کچھ اور راستوں پر چل نکلا تھا، ڈرامے کی کثرت، بے ترتیبی اور سنجیدہ ناظرین کی اس سے بڑھتی ہوئی دُوری کے باعث اچھا اور بامقصد ڈرامہ کم سے کم ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ مجھ سمیت بہت سے لوگ غصے، مایوسی اور جھنجھلاہٹ کی وجہ سے ایک طرح کے بائیکاٹ پر اُتر آئے جس کا ایک منفی نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں نے بُرے اور کمزور ڈراموں کے ساتھ ساتھ اُن چند اچھے بامعنی، سنجیدہ اور تخلیقی ڈراموں کو دیکھنا بھی چھوڑ دیا جو یقیناً اس پورے عمل میں ایک پُل کا کام کر سکتے تھے۔
ڈاکٹر شاہدہ رسول کی اس تحقیق کا ایک بہت اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اُس نے گزشتہ 20 برس میں ڈرامے کے ضمن میں ہونے والے ہر طرح کے کام کو نہ صرف رجسٹر کیا ہے بلکہ ان اچھائیوں کی نشاندہی بھی کی ہے جن کی وجہ سے اس سارے منظر نامے میں ایک طرح کا توازن اور تاریخی اور تخلیقی گہرائی اور وسعت بھی پیدا ہوگئی ہے اس میں شک نہیں کہ ان بیس برسوں میں زیادہ تر کام چالو، سرسری، بے مقصد، گمراہ کُن اور کم معیار والا ہُوا ہے لیکن اِکا دُکا سیریل یا سیریز ایسے بھی پیش کیے گئے ہیں جن میں بہت سی باتیں اچھی اور قابلِ تعریف بھی تھیں۔
ڈاکٹر شاہدہ رسول نے اس دورکے جن ڈراموں کا خاص طور پر ذکر کیا ہے ان میں انڈین سوپ، بھارتی ڈراموں، ڈائجسٹوں کے لیے لکھنے والی خواتین سمیت ہر طرح کے ڈرامے اور لکھاری کو موضوع بنایا گیا ہے جن میں سے کچھ کے نام اس طرح ہیں "نور پور کی رانی"، "میری ذات ذرہّ بے نشاں "، "قیدِ تنہائی"، "ہم سفر"، "خالی ہاتھ"، "ذرا یاد کر"، "میرے پاس تم ہو"، "یقین کا سفر"، "اُڈاری"، "چیخ"، "رسوائی"، "خانی"، "بلا"، "رانجھا رانجھا کردی"، "آنگن"، تڑپ"، "کشف"، "زیبائش"، "مشک"، "ڈنک" وغیرہ وغیرہ۔
اب اگر دیکھا جائے تو بشریٰ رحمن اور عمیرہ احمد کے ناولوں پر مبنی ڈراموں اور فائزہ افتخار اور فرحت اشتیاق جیسی باہنر لکھنے والیوں کی تخلیقات بعض اور ڈراموں سمیت بلاشبہ اس تصویرمیں ایک توازن اورحسن پیدا کر رہی ہیں جس کا ذکر ضروری تھا اب انشاء اللہ اس سلسلے کی آخری قسط میں "وارث سے بندگی تک"۔