وہ جو منتظر ہیں
کورونا وبا کے اثرات ملک کے ہر شعبے پر پڑے ہیں اور اس قدر گہرے کہ ان کا حقیقی اندازہ اگلے چند ماہ میں ہوگا۔ پاکستان میں بہت سی اچھی تنظیمیں سماجی خدمت کا کام کر رہی ہیں۔ لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں انہوں نے آسانی پیدا کی۔ کورونا وبا کے باعث ان تنظیموں پر دبائو بڑھا ہے اور ان کے کارکنوں نے خود کو خطرے میں ڈال کر بے شمار متاثرین کی مدد کی۔ مسئلہ یہ ہے کہ پورا ملک متاثر ہوا بلکہ اوورسیز پاکستانی جو ہمیشہ سماجی خدمت کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، وہ بھی کورونا کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوگئے۔ رمضان میں بیشتر سماجی تنظیمیں اپنی فنڈ ریزنگ کمپین چلاتی ہیں اور جو فنڈز جمع ہوں، ان سے سال بھر ریلیف ورک چلتا رہتا ہے۔ اس بار کورونا کے باعث رمضان سے پہلے ہی مشکل آئی اور اہل خیر نے دل کھول کر مدد کر ڈالی۔ اصل مشکل یہ ہے کہ رمضان میں اب یہ سماجی تنظیمیں فنڈ جمع نہیں کر پا رہیں، اس کے اثرات سال بھر مستحق افراد کو بھگتنے پڑیں گے۔ اخوت، الخدمت، غزالی ٹرسٹ سکولز، پی او بی اور دیگر تنظیموں کا یہی مسئلہ ہے۔ الخدمت کے دوستوں کی طرف سے یوم یتامیٰ کے حوالے سے واٹس ایپ میسجز آ رہے ہیں۔ الخدمت ہر سال پندرہ رمضان کو یوم یتامیٰ کے طور پر مناتی ہے، اس نے یتیموں کے لئے کئی ادارے کھول رکھے ہیں، ان سب کی مدد کے لئے ایک بڑی کمپین لانچ کی جاتی ہے۔ غزالی ٹرسٹ سکولز والے خود پریشان ہیں کہ ان کے سینکڑوں سکولوں کے لاکھوں طلبہ جو زیادہ تر پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان سب کے لئے فنڈز جمع کرنا مشکل ہوگیا۔ بیشتر سکولوں کی عمارتیں کرایے پر ہیں، اساتذہ کی تنخواہیں، مفت کتابیں وغیرہ، لمبا چوڑا ہدف ہر سال حاصل کرنا پڑتا ہے۔ اس سال بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آرہی، اللہ کی رحمت ہی سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔ بینائی کے حوالے سوشل ورک کرنے والی تنظیم POB کے ڈاکٹر انتظار بٹ نہایت درویش منش انسان ہیں، میں نے اپنی زندگی میں اتنے توکل والا، بے داغ اجلا شخص نہیں دیکھا۔ ڈاکٹر انتظار بٹ کا عجب مزاج ہے، فنڈ ریزنگ کرنا انہیں ہمیشہ مشکل لگتا ہے، وہ کھل کر بات بھی نہیں کرپاتے، بس ایک دو سلائیڈ یا پاور پوائنٹ پر بنی ہوئی دستاویزی فلم دکھانے پر اکتفا کرتے ہیں، کوئی ان کی تنظیم پی او بی پر لکھ دے (جو پاکستان میں سوا لاکھ آنکھوں کے مفت آپریشن کر چکی ہے)، ڈاکٹر صاحب ایسے لوگوں کے لئے دعا گو تو ہوتے ہیں، مگر انہیں رسمی شکریہ ادا کرنا عجیب لگتا ہے۔ کہتے ہیں اللہ انہیں اجر دے گا، ہم کیا دے سکتے ہیں۔ ڈاکٹر انتظار بٹ سے رابطہ نہیں ہوپایا، مگر اندازہ ہے کہ پی او بی فنڈز کی دقت کا سامنا کر رہی ہے۔
اخوت کے ڈاکٹر امجد ثاقب کے لئے مشکل زیادہ بڑی ہے کہ اخوت کا سرکل ماشااللہ سے بہت وسیع ہوچکا ہے، پھر ڈاکٹر امجد اپنے لئے ہمیشہ بڑے اہداف مقرر کرتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں کہ کورونا کے متاثرین کے لئے اخوت نے تین ملین سفید پوش افراد کی مدد کا بیڑا اٹھایا ہے۔ تیس لاکھ لوگوں کی مدد کا خواب ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے دیوانے ہی دیکھ سکتے ہیں۔ ویسے تو اخوت نے اب تک جو کچھ حاصل کیا ہے وہ بھی دیوانے کے خواب سے کم نہیں، ایسا خواب جسے رب کریم نے اپنی خاص رحمت سے پورا کر دکھایا۔ اخوت کورونا فنڈ کے لئے ہمارے کئی دوست متحرک ہیں۔ برادرم عارف انیس ملک نے پندرہ ٹاپ پاکستانی موٹوییشنل سپیکراور ٹرینرز کو ساتھ لے کرتین گھنٹوں کا ویب لائیوپروگرام کیا۔ ایسے ٹرینرز جو لاکھوں رواپے فی گھنٹہ معاوضہ لیتے ہیں، ان سب نے فری پروگرام میں حصہ لیا۔ عارف انیس اب ڈاکٹر امجد کے ساتھ مل کر ایک اور سلسلہ شروع کر رہے ہیں جس میں مولانا طارق جمیل، پروفیسر احمد رفیق اختر، سید سرفراز شاہ صاحب جیسے لوگ بھی شریک ہوں گے۔ مقصد اخوت کورونا فنڈز کے لئے عطیات جمع کرنا ہے۔ اللہ ان سب کو کامیاب کرے۔ عارف انیس ملک نے اپنی تمام تر انرجی ان عطیات کے فراہمی کے پروگراموں میں صرف کر رکھی ہے، اللہ انہیں اس کا اجر دے، وہ اپنے عمل سے میرے جیسے صرف باتیں کرنے والوں کو مہمیز لگاتے ہیں۔
سائز میں نسبتاً چھوٹی مگراتنی ہی اہم سماجی خدمت کی تنظیموں کے لئے مسائل زیادہ گمبھیر ہوچکے ہیں۔ ملک میں جاری خراب معیشت کے باعث پچھلے سال بھی فنڈز کے اہداف مکمل نہیں ہو پائے تھے۔ اس سال بحران شدید تر ہے۔ اگلے روز کاروان علم فائونڈیشن کے ڈائریکٹر خالد ارشاد صوفی سے بات ہوئی۔ خالد ارشاد ہمارے دوست اور اچھا لکھنے والے ہیں۔ بنیادی طور پر وہ صحافی ہیں، میگزین جرنلزم سے متعلق رہے، ان کے ایک فیچر کو اے پی این ایس نے بہترین فیچر کا ایوارڈ دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ان ایوارڈز کی توقیر ابھی باقی تھی۔ اب تو ان مقابلوں میں کوئی شامل ہی نہیں ہوتا، ان میں تسلسل بھی نہیں رہا۔ خالد ارشاد صوفی کا وہ فیچر اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوا تھا۔ میں ان دنوں اردو ڈائجسٹ تو چھوڑ چکا تھا، مگر رابطہ برقرار تھا۔ ایک آدھ بارنوجوان خالد ارشاد کو ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی سے فیچر کے لوازمات پر سیر حاصل لیکچر لیتے دیکھا۔ خیر ان دنوں تو ہماری طرف بھی آتش جوان بلکہ نوجوان ہی تھا۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کے ایسے بہت سے لیکچرز سے ہم بھی مستفید ہوتے رہے تھے، مگر شائد مٹی کا فرق تھا۔ صحرائی مٹی میں پانی کی بوندیں فوری جذب ہوجاتی ہیں اور نمی کے لئے ٹھیک ٹھاک بارشیں درکار ہوتی ہیں۔ خالد ارشاد کے ہاں نمی زیادہ تھی یا پھر سوز دروں بلاخیز۔ وہ ڈاکٹر اعجاز قریشی سے ایسے مسخر ہوئے کہ اپنا جرنلزم کا کیرئر چھوڑ چھاڑ کر ڈاکٹر صاحب کی بنائی سماجی تنظیم کاروان علم فائونڈیشن کا حصہ بن گئے۔ وہ دن اور آج کا دن، خالد ارشاد صوفی کو ہم نے جب بھی دیکھا ملک بھر کے مستحق طلبہ کے بھیجے خطوط، انکے جوابات اور ان کے لئے فنڈز حاصل کرنے کی سعی میں مصروف ہی پایا۔ ڈاکٹر اعجاز قریشی کی زیرسرپرستی کاروان علم فائونڈیشن جس کا آغاز صرف دس ہزار روپے کے فنڈز سے ہوا تھا، آج وہی تنظیم ہزاروں طلبہ کو کئی ملین کے وظائف دے چکی ہے، بے شمار طلبہ اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کر کے ملازمت حاصل کر چکے ہیں، یہ تنظیم سالانہ لاکھوں کے وظائف جاری کرتی ہے۔ یہ ابھی کی بات لگتی ہے مگر سترہ سال بیت گئے ہیں۔
کاروان علم فائونڈیشن کیوں قائم کی گئی۔ یہ بھی بڑی دلچسپ داستان ہے اور ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی صاحب نے مجھے خود بتائی۔ کہنے لگے: یہ 2002 کے موسم گرما کی ایک صبح کا ذکر ہے۔ میری نظر اخبا ر پڑھتے ہوئے ایک خبر پر رک گئی۔ خبر کچھ یوں تھی کہ لاہور بورڈ کے میٹرک کے امتحانات میں 850 میں سے 810 نمبر لے کر پورے پاکستان کے تعلیمی بورڈوں میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کا ریکارڈ قائم کرنے والی طالبہ سعدیہ مغل کو لاہور کے ایک تعلیمی ادارے میں داخلے کے سلسلے میں مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس خبر نے مجھے رنجیدہ کر دیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اندر سے ہلا کر رکھ دیا، تبھی میں نے فیصلہ کر لیا کہ ایک ایسا ادارہ بنائوں گاجو ایسے لائق طالب علموں کو مالی امداد فراہم کرے گا۔" ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی آہنی اعصاب کے مالک ہیں، پیرانہ سالی میں اتنے بڑے پراجیکٹ کا سوچنا، اس میں ہاتھ ڈالنا اور پھر احباب کو اکٹھا کر کے اس میں جت جانا بذات خود غیر معمولی کارنامہ ہے۔ ایس ایم ظفر، مجیب الرحمن شامی صاحب اور دیگر زعما کا ساتھ انہیں حاصل رہا۔ خالد ارشاد صوفی ابتدائی دنوں سے کاروان علم فائونڈیشن کا حصہ ہیں۔ انہوں نے طلبہ کے کوائف کی تصدیق کے لئے دوردراز شہروں کا سفر کیا، بہت سے ایسے مستحق مگر ٹیلنٹیڈ کردار کھوجے جن کی کہانیاں حیران کن عزیمت اور ایثار سے معمور ہیں۔ ان سچی کہانیوں پر مشتمل ان کی ایک کتاب "جوہر قابل "بھی شائع ہوچکی ہے۔
کاروان علم فائونڈیشن کے اغراض و مقاصد بڑے واضح ہیں۔ میٹرک سطح کے امتحانات میں 75 فیصد سے زائد نمبر حاصل کرنے والے کم وسیلہ معذور، یتیم اور مستحق طلبا و طالبات کو اعلیٰ اور بامقصد تعلیم کے لیے حتی الامکان مالی وسائل فراہم کرنا۔ زیر کفالت طلبہ کے ضعیف بیمار اور تنگ دست والدین کو علاج معالجے کی سہولیات اور بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کے لیے مالی اعانت فراہم کرنا۔ تعلیمی بورڈز کے میٹرک کے امتحانات میں سائنس اور آرٹس کے شعبوں میں پہلی تین پوزیشنیں حاصل کرنے والے طلبا و طالبات کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کے اعزاز میں قومی سطح پر سالانہ تقریبات کا اہتمام کرنا۔ یہ بات پورے یقین کے ساتھ کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کی کوئی یونیورسٹی، کالج، میڈیکل کالج، انجینئرنگ یونیورسٹی ایسی نہیں جہاں اس ادارے کے تعاون سے طلبہ تعلیم حاصل نہ کر رہے ہوں۔ کاروان علم فائونڈیشن کے حوالے سے معلومات کے لیے ویب سائٹ "www.kif.com.pk" ملاحظہ کیجئے یا ای میل "[email protected]" پر رابطہ کیجئے۔
مجھے اندازہ ہے کہ اہل خیر خود دبائو کا شکار ہیں، اوورسیز پاکستانیوں کے لئے بھی اب کشادہ دستی آسان نہیں، یہ مگر سوچنا چاہیے کہ اپنے حصے کی روٹی میں سے آدھی کا ایثارنجانے کتنے مستحق لوگوں کی بھوک مٹا سکتا ہے، ان کے لئے جینا ممکن ہوجائے گا۔ یہ سب منتظر ہیں۔ ان کی امیدیں قائم رہنی چاہئیں۔