کیا تحریک انصاف، جماعت اسلامی اتحاد ہونا چاہیے؟
یہ تو طے ہے کہ تحریک انصاف کو آگے بڑھنے، اسمبلیوں میں اپنے ارکان اسمبلی کو منظم انداز سے چلانے اور ترغیب سے بچانے کے لئے کسی رجسٹرڈ سیاسی جماعت میں شامل ہونا پڑے گا۔ دو بڑی آپشنز جو سامنے ہیں، ان میں سے ایک جماعت اسلامی، دوسری آپشن مجلس وحدت مسلمین (MWM)ہے، ایک حلقہ مولانا محمد خان شیرانی کے گروپ جے یوآئی رابطہ کا نام بھی لے رہا ہے۔
یہ ماننا پڑے گا کہ مجلس وحدت مسلمین کی قیادت نے تحریک انصاف کو غیر مشروط تعاون کی پیش کش کی ہے۔ علامہ ناصر عباس راجہ کا تو یہ تک کہنا ہے " ہم نے تحریک انصاف کی قیادت کو کہہ دیا ہے کہ ہماری جماعت کو اپنی جماعت سمجھیں، جس طرح مرضی اس سے استفادہ کریں اور ہمارا یہ تعاون غیر مشروط ہے۔ " یہ بڑی کھلی اور مثبت پیش کش ہے، تحریک انصاف کو یقیناً اس پر خوشی ہوئی ہوگی۔ مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ مگر ایک گونہ حساسیت بھی جڑی ہے۔ اسی وجہ سے شائد تحریک انصاف اسے ثانوی آپشن کے طور پر دیکھ رہی ہے۔
جماعت اسلامی کے ساتھ مذاکرات کا ایک رائونڈ چل چکا ہے۔ ابتدا میں ایسا لگ رہا تھا کہ جماعت کے ساتھ بات بن جائے گی، مگر پھر جماعت کی قیادت نے اعتراض کیا کہ اگر تعاون کرنا ہے تو ملک گیر سطح پر کیا جائے، تحریک انصاف کا صرف خیبر پختون خوا میں جماعت اسلامی سے انضمام اور مرکز و پنجاب میں دوسری آپشن کی تلاش نامناسب ہے۔ جماعت اسلامی کے اعتراض پر تنقید تو ہوسکتی ہے، مگرانکے موقف کو کمزور یا ناجائز نہیں کہا جا سکتا۔ دراصل جماعت اسلامی کا اپنا ایک خاص سٹرکچر، مزاج اور کلچر ہے۔ بہت سے معاملات میں جماعت اسلامی کی اپروچ اور طرزعمل سنجیدہ، متین اور قدامت پسندانہ ہے، جس میں صالحیت کا خاص رنگ شامل ہے۔ جماعت اسلامی کے لئے تحریک انصاف کے ساتھ صرف خیبر پختون خوا میں انضمام اور علی امین گنڈاپور جیسے کسی حد تک متنازع اور منہ پھٹ شخص کو وزیراعلیٰ قبول کرنا قطعی آسا ن نہیں۔ سیاسی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معاملہ الگ ہے، انضمام کے بعد اپنا پلیٹ فارم استعمال کرنے دینا بہت سے جماعتیوں کے لئے کڑوا گھونٹ پینے کے برابر ہے۔ پنجاب، مرکز اور کے پی میں پلیٹ فارم دیناالبتہ جماعت کی شوریٰ کے اندر ناقدین کو بھی خاموش کرا سکتا ہے۔
گزشتہ روزپی ٹی آئی کے رہنما لطیف کھوسہ نے جماعت سے پھر رابطہ کیا اور اشارہ کیا کہ وہ عمران خان سے ملاقات میں اس ایشو کوپھر سے ڈسکس کریں گے۔ نہیں معلوم کہ اڈیالہ جیل میں اسیر عمران خان کیا فیصلہ کرتے ہیں؟ فیصلہ سازی میں بڑی رکاوٹ خان صاحب کا قید ہونا ہے۔ ان تک رسائی آسان نہیں۔ خبروں کی فراہمی بھی سست رفتا ر ہوگی۔ قید میں ہونے کے باعث وہ وسیع مشاورت بھی نہیں کر سکتے۔ خان صاحب کی عدم موجودگی میں تحریک انصاف کے اندر متعدد لیڈر پیدا ہوگئے ہیں۔ ان میں سے کئی میڈیا پر توجہ لینے کی خاطر کچھ بھی اناپ شناپ بول دیتے ہیں۔
تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنا چاہیے۔ یہ دونوں فطری اتحادی ہیں اور ان کے درمیان اشتراک کے حق میں کئی مضبوط دلائل موجود ہیں۔
سب سے اہم بات یہی ہے کہ جماعت اور تحریک انصاف سیاست میں حریف نہیں بلکہ پوٹینشل حلیف ہیں۔ تحریک انصاف کی اصل قوت پنجاب اور کے پی ہے۔ پنجاب میں جماعت اسلامی اس وقت نہ ہونے کے برابر ہے۔ حالیہ انتخابات میں ان کے امیدوار ڈیڈھ دو ہزار سے زیادہ ووٹ نہیں لے پائے۔ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف صوبے کے چاروں زونز(پشاور ویلی اور مردان چارسدہ وغیرہ، ڈیرہ بنوں ٹانک لکی مروت کوہاٹ کے جنوبی اضلاع، مالاکنڈسوات وغیرہ اور ہزارہ یعنی مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور، تورغر، کوہستان)میں طاقتور پوزیشن میں ہے۔ جماعت اسلامی اس کے لئے صوبے کے تین زونز میں خطرہ یا چیلنج نہیں۔ جماعت کی آج کل نسبتاً بہتر پوزیشن دیر خاص کر لوئر دیر کے دو حلقوں میں ہے۔ تھوڑا بہت بونیر یا چترال کو بھی شامل کر لیں۔ جماعت پچھلی بار چترال سے جیتی تھی، اس بار وہاں سے پانچویں نمبر پر رہی۔
تحریک انصا ف کے لئے زیادہ قربانی دئیے بغیر ہی جماعت اسلامی کو خیبر پختون خوا میں اکاموڈیٹ کرناممکن ہے۔ دیر کے دو تین قومی صوبائی حلقوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے وہ جماعت اسلامی کو خاصی سہولت فراہم کر سکتی ہے۔ جماعت کو سینیٹ کی ایک آدھ سیٹ بھی آرام سے دے سکتی ہے۔ کراچی میں بھی جماعت اسلامی اور تحریک انصاف فطری اتحادی ہیں۔ جنرل الیکشن یا بلدیاتی انتخابات میں یہ دونوں آپس میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے ایم کیو ایم اور پی پی کے خلاف اچھا مورچہ لگا سکتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے برعکس جے یوآئی کے ساتھ تحریک انصاف کو اتحاد کرتے ہوئے جینوئن مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جے یوآئی اور تحریک انصاف صوبہ خیبر پختون خوا میں ایک دوسرے سے ٹکرانے والی قوتیں ہیں۔ دونوں ہی وزارت اعلیٰ کی خواہش مند ہیں۔ تحریک انصاف کا پشاور کے علاوہ مردان، جنوبی اضلاع اور قبائلی علاقوں میں بھی جے یوآئی سے لازمی میچ پڑنا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے آبائی حلقہ ڈی آئی خان سے عمران خان کے قریبی ساتھ علی امین گنڈا پو رمولانا کے خلاف ہی الیکشن لڑتے ہیں۔ جے یوآئی البتہ ن لیگ کی فطری اتحادی ہے کہ مولانا کا پنجاب اور میاں صاحب کاپختون خوا سے زیادہ سروکار نہیں۔ مانسہرہ سے تو ویسے بھی میاں نواز شریف کا دل کھٹا ہوگیا ہوگا۔
آج کل تحریک انصاف اور جے یوآئی میں سیاسی اتحاد کی باتیں ہو رہی ہیں۔ دونوں پچھلے گیارہ بارہ برس سے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑنے والی حقیقی حریف جماعتیں ہیں۔ مولانا کا لب ولہجہ ہمیشہ عمران خان کے لئے بہت سخت رہا ہے۔ عمران خان نے بھی مولانا پر کئی بارسخت ذاتی حملے بھی کئے۔ آج حالات نے مولانا فضل الرحمن کو مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے دور کھڑا کر دیا ہے۔ مولانا اپنے گزشتہ دو تین ٹی وی انٹرویوز میں پھٹ پڑے ہیں۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ، ن لیگ اور پی پی پی کو سخت تنقید کا نشانہ بنا یا ہے۔ مولانا کے اس لاٹھی چارج نے تحریک انصاف کو اس درجہ متاثر کیا کہ ان کا وفد دوڑا دوڑا گیا اور مولانا سے ملاقات کر آیا۔
یہ ویسے یہ سمارٹ موو ہے۔ ن لیگ، پی پی اور مولانا کا کمبی نیشن موثر اور بھرپور تھا۔ مولانا کو اگر ان دونوں سے الگ کر دیا جاتا ہے تو اس کا فائدہ تحریک انصاف کو ہوگا۔ مولانا کاحالیہ موقف تحریک انصاف کی سوچ سے ہم آہنگ ہے کہ ہر ادارے کو اپنے حدود میں رہ کر دوسروں کے کام میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ مگر مولانا خیبر پختون خوا میں اپنی شکست کی ذمہ داری جس دھاندلی کو قرار دیتے ہیں، ان کے مطابق اس کی بینیفشری تحریک انصاف ہے۔ گویا وہ آخری تجزیے میں تحریک انصاف کے سامنے ہی کھڑے ہوں گے۔
تحریک انصاف کی مولانا سے ملاقات، مذاکرات وغیرہ بہرحال مثبت اور خوش آئند ہیں۔ اگر دونوں جماعتیں مل کر (پرامن جمہوری)حتجاج کا لائحہ عمل طے کرتی ہیں تو اس سے ن لیگ اور اس کے اتحادیوں کو ٹف ٹائم مل سکتا ہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہوگی کہ ایک دوسرے کے قائدین اور کارکنوں کے خلاف سخت زبان استعمال نہیں ہوگی۔ لب ولہجے میں شائستگی در آئے گی، غیر ضروری الزامات نہیں لگائے جائیں گے، جس سے مجموعی طور پر سیاسی کلچر بہتر ہوگا۔ تحریک انصاف کی فطری اتحادی مگر جماعت اسلامی ہی ہے۔ جماعت کے ساتھ یہ پہلے بھی کے پی حکومت چلانے کا خوشگوار تجربہ کر چکے ہیں۔ پانچ سال مکمل ہوئے تھے اور ایک آدھ مسئلے کے سوا کوئی سنگین صورتحال پیدا نہیں ہوئی۔ 2018میں بہتر ہوتا کہ تحریک انصاف کے پی کی حد تک جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معاملہ چلائے رکھتی۔ تب عمران خان کو بھاری اکثریت کے ساتھ مرکز اور صوبے میں حکومت نظر آ رہی تھی، انہوں نے جماعت اسلامی کو نظرانداز کر دیا۔ اس کا تحریک انصاف کو کیا فائدہ ہوا؟ جماعت تھوڑا بہت شیئر ہی مانگتی، مگر اس سے تحریک انصاف کی سیاسی تنہائی ختم ہوجاتی، جس کا وہ بعد میں شکار رہی۔
جماعت اسلامی کوچاہیے کہ اس مشکل وقت میں تحریک انصاف کا غیر مشروط ساتھ دے۔ جماعت پر ہمیشہ ٹف بارگین کرنے والی جماعت ہونے کا الزام لگتا رہا ہے۔ ان کی سابق اتحادی جماعتیں ہمیشہ یہی شکوہ کرتی ہیں۔ آج جب بھرپور عوامی مینڈیٹ تحریک انصاف کو ملا ہے، اس کے اراکین اسمبلی کو غیر مشروط طو رپر اپناپارلیمانی پلیٹ فارم پیش کرنا عوامی مینڈیٹ کی پزیرائی کرنا ہے۔ جماعت اسلامی کی مرکز میں کوئی سیٹ نہیں، اب تو ری کائونٹنگ وغیرہ کے بعد کے پی اسمبلی میں بھی سیٹ نہیں رہی۔ یہ خدشہ بھی نہیں کہ جماعتی اراکین اسمبلی تحریک انصاف کے اراکین کے ساتھ کیسے اکھٹے بیٹھیں؟
تحریک انصاف بھی اپنے رویے میں لچک لائے اور جماعت اسلامی کو بھی کشادگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے باہیں کھول دینی چاہئیں۔ تحریک انصاف کا مسئلہ حل ہوجائے گاجبکہ جماعت اسلامی کو فوری نہ سہی، بعد میں بہت سے ثمرات حاصل ہوں گے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے تاریخ کی درست سائیڈ پر کھڑی ہوگی۔ اگر تنگ دلی یا عاقبت نااندیشی کا مظاہرہ کیا گیا تو ایک اچھا موقعہ ضائع ہوجائے گا۔ دو" پروریفارم" جماعتیں ایک دوسرے سے پھر فاصلے پر چلی جائیں گی۔