انتخابی بساط پر پہلی چال
پاکستان تحریک انصاف نے اپنے بیشتر امیدواروں کا اعلان کر کے سیاسی بساط پر پہلی چال چل دی ہے۔ ن لیگ اب اس کے جواب میں اپنے مہرے آگے بڑھائے گی۔ پی ٹی آئی کے امیدواروں کے ہجوم میں بہت سے مایوس ہوئے۔ احتجاج کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ پی ٹی آئی کے "نظریاتی کارکنوں "کا احتجاج بھی جلد سامنے آئے گا۔ روحانیت سے ہمارا دور کا تعلق نہیں، اس کے باوجود نہایت اطمینان اور یقین کے ساتھ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ ایسے ہر "نظریاتی"احتجاج کو "ایک "قومی چینل پر بھرپور کوریج ملے گی، بعض ن لیگی لکھاریوں کے سینے میں اچانک ان کے لئے ہمدردی کا سیلاب امنڈ آئے گا۔
سوشل میڈیا پر تو یہ مہم شروع ہوچکی۔ جو لوگ سال بھر تحریک انصاف اور عمران خان پر تبریٰ کرتے ہیں، وہ اس تنقید میں پیش پیش ہیں۔ خیر یہ تو ہوتا ہے سیاست میں۔ غیر جذباتی انداز میں تجزیہ کیا جائے تو پی ٹی آئی کی ٹکٹوں کی تقسیم زمینی حقائق کے حساب سے نوے فیصد تک درست ہے۔ اچھے، مضبوط امیدواروں کو ٹکٹ دئیے گئے، جنہیں مقامی حمایت بھی حاصل ہے اور الیکشن لڑنے کا تجربہ بھی کم نہیں۔
پچھلے الیکشن میں تحریک انصاف کے پاس نوے فیصد حلقوں میں مضبوط امیدوار نہیں تھے۔ جنہوں نے الیکشن لڑا، انہیں الیکشن ڈے کی سائنس کا علم ہی نہیں تھا، بہت سے پولنگ سٹیشنوں پر پولنگ ایجنٹ تک نہ پہنچا پائے۔ جو نتائج سامنے آئے، وہ غیر متوقع نہیں تھے۔ مجھے اس لئے کبھی عمران خان کی اس تھیوری سے اتفاق نہیں رہا کہ مئی تیرہ کے الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی۔
پی ٹی آئی اپنی شکست کی خود ذمہ دار تھی۔ ہاں چند ایک حلقے ایسے تھے، جن میں ان کی جیت یقینی نظر آ رہی تھی، وہاں پراسرار انداز میں رزلٹ بدلا گیا۔ اس بار معاملہ الٹ ہے۔ نوے فیصد سے زیادہ حلقوں میں مضبوط اور بااثر لوگ ہیں، جنہیں الیکشن لڑنے اور جیتنے کا بھرپور تجربہ ہے۔ مسلم لیگ ن کو طویل عرصے بعد پنجاب میں پی ٹی آئی کے امیدواروں سے سخت مقابلہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اٹھاسی او ر ترانوے کے انتخابات میں ایسا ہوا تھا۔
جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف پچھلی بار بہت کمزور تھی۔ اس بار جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف بیشتر نشستیں جیت سکتی ہے۔ کھوسے، مزاری، دریشک سرداروں اور جعفرلغاری گروپ کے آجانے سے راجن پور، ڈیرہ غازی خان اضلاع میں ان کی پوزیشن بہت مضبوط ہوگئی ہے۔ تونسہ میں خواجہ شیراز کی پوزیشن بھی اچھی ہے۔ ڈی جی خان شہر میں سینیٹر حافظ عبدالکریم کا گروپ ن لیگ میں ہونے کے باوجود سردار فاروق لغاری کے صاحبزادوں کے مخالف ہے، وہاں سے تحریک انصاف کی خاتون امیدوار زرتاج گل کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ مظفر گڑھ میں الیکٹ ایبلز کے آجانے سے پی ٹی آئی بہت مضبوط ہوگئی ہے۔
جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے ادغام سے ضلع رحیم یار خان کیصورتحال بھی ان کے حق میں چلی گئی، مخدوم احمد عالم انور پہلے سے شامل ہوچکے ہیں۔ بہاولپور میں عامر یار وارن کی اہلیہ کو ٹکٹ ملا ہے، وہ ایک بار پہلے جیت چکی ہیں، پچھلی بار ہار گئی تھیں، اس بار پی ٹی آئی کا ٹکٹ ہے تو پوزیشن بہت بہتر ہے۔ بہاولپور کے دو حلقوں میں ٹکٹ کاشائد ابھی فیصلہ نہیں ہوا، ان میں میرا آبائی شہر احمد پورشرقیہ بھی شامل ہے۔ وہاں سابق تحصیل ناظم سمیع گیلانی امیدوار ہیں۔ نواب آف بہاولپور صلاح الدین عباسی کے پارٹی میں شامل ہونے سے شائد امیدواروں میں ردوبدل ہوا ہے۔ بہاولنگر میں طاہر بشیر چیمہ غالباً نااہلی کے ڈر سے خود نہیں لڑ رہے۔ ان کی طرف سے آنے والی خاتون امیدوار کی پوزیشن ویسے بری نہیں۔
ملتان میں مخدوم شاہ محمود قریشی کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دینے کے بعد ان کے بیٹے کو قومی کا ٹکٹ دینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، نوجوان قریشی کو صوبائی پر لڑانا چاہیے تھا۔ ملتان سے ویسے تحریک انصاف اہم سیٹیں جیت لے گی۔ مخدوم جاوید ہاشمی کا سیاسی مستقبل خطرے سے دوچار ہے۔ لودھراں کا الیکشن بنیادی طور پر جہانگیر ترین بمقابلہ عبدالرحمن کانجو ہے۔ ضمنی انتخاب میں ترین خاندان کو شکست ہوئی، اس بار وہ محتاط اور یکسو ہیں، ان کے مخالف بھی اپنی اپنی جنگ لڑ رہے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ کون لودھراں کا معرکہ مارتا ہے، جیت کسی کے لئے آسان نہیں۔ خانیوال میں ہراج خاندان کے شامل ہونے سے تحریک انصاف کو دو سیٹوں پر ایڈوانٹیج ملا ہے۔
وہاڑی میں عائشہ نذیر جٹ کو ٹکٹ ملا ہے، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، پرجوش خاتون ہیں، ان کے والد کا گہراسیاسی اثرورسوخ ہے۔ وہاڑی سے طاہر اقبال اور اسحاق خاکوانی بھی اچھے امیدوار ہیں۔ جنوبی پنجاب میں اگر عمران نے اچھی تحریک چلائی تو انہیں بڑی کامیابی مل سکتی ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم میں بعض فیصلے غلط ہوئے۔ اسلام آباد سے عمران خان کا الیکشن لڑنا غیر متوقع ہے، پچھلی بار وہ پنڈی سے لڑے تھے۔ ویسے تو ان کا پانچ حلقوں سے لڑنا بھی غیر ضروری ایڈونچر ہے۔ دو سے زیادہ نشستوں سے الیکشن پر ویسے پابندی لگنی چاہیے۔ اگرعمران تمام جیت گئے تو چار سیٹیں خالی ہوجائیں گی۔ ویسے تو ابھی یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان پانچ میں سے "محفوظ" نشست بھی کوئی ہے یا نہیں؟ مجھے تو لگتا ہے کہ خان کو میانوالی کے ووٹروں ہی سے اصل سہارا ملے گا، باقی ہر جگہ انہیں سخت مقابلہ کرنا پڑے گا، ممکن ہے اسلام آباد میں بھی صورتحال موافق نکلے۔
تحریک انصاف نے کئی امیدواروں کو ایک سے زائد حلقوں پر ٹکٹ دئیے ہیں، یہ زیادہ اچھی حکمت عملی نہیں۔ شیخ رشید کو دو ٹکٹ دینا تو مجبوری تھی کہ شیخ پتر ہے، اس سے کم پر ماننا ہی نہیں تھا۔ اٹک سے میجر طاہر صادق کو دونوں سیٹوں سے ٹکٹ دینے کا عجیب وغریب فیصلہ کیا گیا۔ وہ تگڑے امیدوار ہیں اور ممکن ہے کہ دونوں سیٹیں ہی جیت لیں، مگر وہاں ایک حلقے سے تحریک انصاف کے اچھے پرانے امیدوارملک امین تھے۔ طاہر صادق گروپ کی حمایت مل جانے سے وہ سیٹ جیتی جا سکتی تھی اور ایک پرانا ساتھی بھی اکاموڈیٹ ہوجاتا۔ ٹکٹوں کی تقسیم میں بعض اور فیصلے بھی غلط ہوئے۔ چند ایک جگہوں پر پارٹی کے اپنے سروے کے مطابق جو امیدوار تیسرے چوتھے پر آیا، اسے نجانے کس کے کہنے پر ٹکٹ دے دیا گیا۔
پنڈی میں عامر کیانی کے ٹکٹ پر اعتراض کئے جا رہے ہیں۔ اسی طرح ایک حلقے میں مبینہ طور پر چودھری سرور کے کہنے پر پچھلے الیکشن میں صرف پانچ ہزار ووٹ لینے والے نووارد کو ٹکٹ دے دیا گیا جبکہ پینتیس ہزار لینے والا پراناساتھی محروم رہ گیا۔ تحریک انصاف کا مشکل وقت میں ساتھ دینے والے کچھ ساتھی محروم رہ گئے ہیں۔ کے پی میں علی محمد خان کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ میڈیا پر وہ بڑے سلجھے ہوئے انداز میں مسلسل اپنی پارٹی کا دفاع کرتے رہے، لاہور میں حافظ فرحت، محمد مدنی جیسے پرجوش نوجوان رہنمائوں کو اس بار ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ ولید اقبال کو بھی محروم رکھا گیا۔
عمران خان کو چاہیے کہ اپنے پرانے ساتھیوں کو ذاتی طور پر فون کر کے یا ملاقات کر کے اعتماد میں لیں اور مستقبل میں انہیں کسی ضمنی الیکشن یا جیت کی صورت میں اگلے سینٹ الیکشن میں اکاموڈیٹ کرنے کا وعدہ کریں۔ انتخابی سیاست میں مضبوط امیدواروں کو ٹکٹ دینا سیاسی جماعتوں کی مجبوری بن گئی ہے، اپنے پرانے ساتھیوں کی خدمات اور قربانیوں کو مگر کسی صورت میں نہیں بھولنا چاہیے۔ الیکٹ ایبل محدود مدت کے لئے مفید ثابت ہوسکتے ہیں، مشکل وقت میں نظریاتی پرانے ساتھیوں ہی نے کام آنا ہے۔
عمران خان الیکشن مہم کے لئے نکلنے سے پہلے اپنے پرانے، نظریاتی ساتھیوں کو مطمئن کرنے پر کچھ وقت ضرور صرف کریں، اس سے نقصان نہیں، انہیں فائدہ ہی ہوگا۔ عمران خان کی جانب سے اس بار الیکٹ ایبلز کو ترجیح دینے سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ہمارے الیکشن سسٹم میں غیر معمولی اصلاحات لانے کا وقت آ گیا ہے۔ (اس پر ایک الگ کالم میں تفصیل سے بات بھی کروں گا۔) عمران خان وہ آخری شخص ہوسکتے تھے جو الیکٹ ایبلز پر بھروسہ کئے بغیر کوئی سیاسی چمتکار (کرشمہ) دکھا پاتے۔ وہ ایسا نہیں کر پائے، مجبوراً مضبوط امیدواروں کی آپشن پر جانا پڑا اور ایسا کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھا کہ امیدوار کتنے دن پہلے پارٹی میں آیا۔ صرف یہ دیکھا کہ مقامی سطح پر عوامی تائید اسے حاصل ہے یا نہیں۔
عمران خان کا یہ فیصلہ اخلاقی، اصولی، نظریاتی اعتبار سے درست ہے یا غلط، اس پر الگ سے بحث ہوسکتی ہے، بطور ایک پریکٹیکل سیاستدا ن کے اس کے علاوہ اور کیا فیصلہ کیا جا سکتا تھا؟ کیا کوئی اور آپشن موجود تھی؟ اس کا جواب ہر کوئی اپنی سوچ کے مطابق دے سکتا ہے۔ خاکسار کے خیال میں اور کوئی راستہ بچا ہی نہیں تھا۔ مئی تیرہ کے تجربے نے ثابت کر دیا کہ پاکستان کا سیاسی نظام جن ہاتھوں نے ہائی جیک کیا ہے، انہوں نے کھیلنے کے قاعدے قانون ہی بدل دئیے ہیں۔ کراچی، لاہور جیسے شہر چھوڑ کرپنجاب اور سندھ میں اب یہ الیکٹ ایبلز کا الیکشن بن گیا ہے۔ اگر سیاسی میدان میں کھیلنا اور جیتنا ہے تو انہی رولز کے مطابق ہی کھیلنا پڑے گا۔
یہ نہیں ہوسکتا کہ ٹی ٹوئنٹی کھیلا جائے اور بلے باز وکٹ پر پانچ اوور سیٹ ہونے میں لگا دے۔ ایسا کھلاڑی ٹی ٹوئنٹی ٹیم سے آئوٹ ہوجائے گا، چاہے محمد یوسف جیسا ورلڈ کلاس بلے بازاور یونس خان جیسا ریکارڈ بریکر ہی کیوں نہ ہو۔ جو دوست عمران خان کو صرف"نظریاتی کارکنوں " کو ٹکٹ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہ دراصل چاہتے ہیں کہ جماعت اسلامی اور تحریک استقلال کی صف میں ایک اور جماعت کا اضافہ ہو۔ کسی کو اچھا لگے یا برا، سچ یہی ہے۔ انتخابی بساط