حقیقت کے مختلف رخ
برسوں پہلے ایک محفل میں سیاسی حالات پر بحث کرتے ہوئے ایک دانا نے کہا تھا، " ہم ملٹی ریالٹی ورلڈ میں جی رہے ہیں، یہاں کئی بار ایک سادہ حقیقت نہیں، اس کے مختلف رخ ہوتے ہیں، اپنی اپنی جگہ پر لوگ اسے سچ اورحقیقت مان کر دوسرے تمام رخ نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک باقی سب باطل، غلط اور فیک یعنی جعلی ہے۔" لاہور کے سفید بالوں والے اس پروفیسر کی بات آج کل کے حالات میں بار بار یاد آتی ہے۔ ہمارے ہاں آئے روز نئے تنازعات اور مسائل جنم لے رہے ہیں، ایک دوسرے سے یکسر مختلف موقف اپنائے گروہ اپنی صداقت پر مصر ہیں۔ عمران خان کے مخالف اسے تاریخ انسانی کا سب سے ناپسندیدہ شخص گردانتے تو اس کے مداحوں کو خان میں ایک مسیحا نظر آتا ہے، جو عشروں سے چلے روایتی سیاسی پیٹرن توڑ پھوڑ کر تبدیلی لے آئے گا۔ ان کے نزدیک عمران خان کا ناکام ہونا بھی ناکامی کی دلیل نہیں کہ یہاں سٹرکچر اتنے ہیوی اور بڑے ہیں کہ دیانت داری سے انہیں ہٹانے کی کوششیں بھی ناکام ہوسکتی ہیں۔ دوسری طرف عمران خان بعض حوالوں سے ڈیلیور کرنے میں سنجیدہ نظر آتا ہے، اس پر کرپشن کے داغ نہیں اور اقتدار کے ابتدائی مہینوں میں کہیں سے اشارہ نہیں ملا کہ اس کی ترجیحی فہرست میں آخر تک کہیں پر" مال" بنانے کا ایجنڈا موجود ہے۔ اس نے نوازنے اور مال بنانے کا آسان ترین طریقہ یعنی صوابدیدی فنڈز واپس کر دئیے ہیں۔ عمران خان مگر اپنے مخالفین کے دل جینے میں ناکام رہاہے، ان کی رائے تبدیل ہونے کا کوئی معمولی امکان بھی نظر نہیں آتا۔ یہ صرف عمران خان کا معاملہ نہیں، ہمارے ہاں مختلف سیاسی، مذہبی، سماجی معاملات میں ایسی مثالیں عام ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا کے بہت سے ممالک میں اسی نوعیت کی بحثیں اور مکالمہ چل رہا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں دائیں بازو کے سیاستدان الیکشن جیت کر اقتدار میں آئے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ پاکستانی سٹائل کا دائیں بازو یعنی مذہبی سوچ والا معاملہ نہیں۔ انگلینڈ میں بریگزٹ کی کامیابی نے بہت سوں کو حیران کر دیا، فرانس میں اگرچہ انتہائی رائیٹ ونگ ناکام ہوا، مگر فرانسیسی سیاست میں ایک بھونچال ضرور آیا۔ فلپائن میں ڈٹرٹے کی کامیابی کو اسی ضمن میں لیا گیا۔ سب سے بڑا دھچکا امریکیوں اور دنیا بھر کو ڈونلڈ ٹرمپ کے جیت سے پہنچا۔ ابھی چند دن پہلے برازیل میں بھی ایک متنازع سیاستدان کامیاب ہوا، جسے ٹرمپ ثانی کہا جا رہا ہے۔ بعض لوگ تو بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی کامیابی بھی اسی فہرست میں شامل کرتے ہیں۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت سے سیاسی بحثوں اور تجزیوں میں ایک نیا موڑ آیا۔ وہاں پوسٹ ٹرتھ(Post Truth) کی بات ہو رہی ہے۔ سادہ الفاظ میں " پوسٹ ٹرتھ" سے مراد ایسا بیانیہ یا گفتگو ہے جو جذبات کواپیل کرے، اس میں دلائل کم ہوں، مگر ایسی جذباتی تندی اور روانی کہ سننے والا ہل کر رہ جائے، وہ اعدادوشمار تک نہ چیک کر پائے اور ان پر فوری ایمان لے آئے۔ جو سچ نہ ہو، مگر سچ لگے۔ جو جھوٹ ہو، مگر اس طرح کا جھوٹ جس میں سچ کی آمیزش بھی ہو اور سننے والے اسے آسانی سے رد نہ کر سکیں۔ ٹرمپ کے مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ میں پوسٹ ٹرتھ پالیٹیکس کا بانی ہے۔ کیا پاکستان میں بھی پوسٹ ٹروتھ پالیٹیکس چل رہی ہے یا پھر ہمارے کنفیوزڈ عوام ملٹی ریالٹی ورلڈ ہی میں پھنسے ہیں؟ میرے پاس اس کا واضح جواب نہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے ہاں یہ سب چیزیں گڈمڈ ہو کر چل رہی ہیں۔ اب آسیہ مسیح کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلہ، اس پر ہونے والے احتجاج اور معاہدہ کی صورت میں اس کے ڈراپ سین کو دیکھ لیجئے۔ یوں لگتا ہے ایک بڑا گلوب، جس پرچاروں طرف ایک دوسرے میں تحلیل ہوتی تصاویر نقش ہیں۔ یہ گلوب آہستہ آہستہ اپنی پوزیشن بدل رہا ہے، ہر سائیڈ میں بیٹھے لوگ حیرت سے منہ کھولے یہ سب دیکھ رہے اور بے یقینی کی کیفیت میں جو نظر آ رہا، اسے سچ مان رہے ہیں۔ صورتحال اتنی سادہ نہیں جتنی نظر آتی ہے۔ کوئی ایک پوزیشن لینا بھی اس قدر آسان نہیں، جیسا شائد دور سے لگ رہا ہو۔ یہ مکس ریالٹی، ملٹی ریالٹی اورالٹر نیٹو ریالٹی ورلڈ ہے۔ کچھ سمجھ میں آئے، بہت سا نہیں۔ کہنے کو تو بڑی سادہ پوزیشن ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے کئی برسوں سے زیرالتوا ایک کیس کا فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ یہی کام کرتی ہے، اس کے پاس مختلف ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ سے گزر کر یہ معاملہ جاتا ہے۔ ایسے کتنے کیس ہیں جن میں سیشن کورٹ، ہائی کورٹ کا فیصلہ کچھ اور ہو، مگر سپریم کورٹ نے اپنے نیچے کی تمام عدالتوں کے فیصلوں کو رد کرتے ہوئے مختلف فیصلہ سنایا۔ ایسا ہوتا رہتا ہے۔ صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر کا یہ طریقہ کار ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آخری ہوتا ہے، اسے تسلیم کرنا چاہیے۔ اس پر احتجاج کی کوئی تک یا جواز نہیں، سٹرکیں بلاک کرنے اور عوام الناس کو پریشان کرنے کا تو معمولی سا بھی جوازنہیں۔ جو ایسا کرتا ہے، ریاست کو اس کے ساتھ سختی سے ڈیل کرنا اور سرکشوں کو کچل دینا چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب ایک بیانیہ ہے، اس میں استدلال ہے، عقل وفہم جھلکتی ہے۔ میں اسے تسلیم کرنے کو تیار ہوں۔ فیصلہ آنے اور اسے پڑھنے کے بعد فوری ردعمل یہی تھا۔ ہمارے لبرل، سیکولر دوست کا اس پر اتفاق رائے اور اگر مذہبی اصطلاح استعمال کرنے پر وہ برا نہ مانیں تو کہوں کہ ان سب کا اس پر اجماع تھا۔ بلاول بھٹو نے اپنی تقریر میں یہی بات کی اور ریاست وحکومت کو آپریشن کرنے اور اس پر انہیں سپورٹ کرنے کا عندیہ ظاہر کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم زندگی کے دیگر معاملات میں ایسا ہی کرتے رہے ہیں؟ یہاں پر آ کر وہی ملٹی ریالٹی والا قصہ شروع ہوجاتا ہے۔ تب حقیقت بدل جاتی ہے۔ ارشاد احمد عارف صاحب کے ساتھ مختلف موضوعات پر ڈسکشن چلتی رہتی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی حمایت میں پیپلزپارٹی قیادت کے بیانات پر بات ہوئی تو انہوں نے نکتہ اٹھایا کہ پیپلزپارٹی نے خود تو سپریم کورٹ کے کئی فیصلے سرے سے تسلیم نہیں کئے بلکہ ان کے خلاف پرجوش عوامی احتجاج کی طرح ڈالی تو وہ اب کس طرح یہ بات کر سکتے ہیں۔ انہوں نے بھٹو صاحب کے خلاف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا، جسے محترمہ بے نظیر بھٹو اور دیگر پارٹی رہنما ہمیشہ جوڈیشل مرڈر کہتے رہے۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے میاں نواز شریف کی اسمبلی بحال کی تو محترمہ نے اس فیصلے کو چمک کا نتیجہ قرار دیا۔ کئی دیگر عدالتی فیصلوں پر پیپلزپارٹی اور بعض دوسری سیاسی جماعتیں معترض رہیں۔ شاہ صاحب نے سوال اٹھایا کہ انہی جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف کھوسہ کے بارے میں میاں نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے کارکنوں کا رائے کیا ہے؟ کیا وہ ان کے فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیا آسیہ مسیح والے کیس کا فیصلہ اس لئے مقدس تصور کیا جائے کہ یہ سیاسی امورسے متعلق نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ارشاد عارف صاحب کے اٹھائے نکتہ میں وزن محسوس ہوا۔ ہم نے چیزیں ٹھیک کرنا ہیں تو پھر ایک سائیڈ سے ایسا نہیں ہوگا، ہر طرف صفائی کرنا ہوگی۔ عدالتی فیصلے محترم ہیں تو ان کا اطلاق اپنی پسند کے کسی فیصلے پر نہیں ہوسکتا، پھر سپریم کورٹ کا ہر فیصلہ محترم اور غیر متنازع بنانا پڑے گا اور بنانا چاہیئے۔ اس سے ملتا جلتا معاملہ عوامی احتجاج، دھرنوں اور انتظامیہ کو بے بس کرنے کا ہے۔ تحریک انصاف اور عمران خان الیکشن دھاندلی کے خلاف کئی مہینوں تک بھرپور احتجاج کرتے رہے، اسلام آباد میں ان کا دھرنا غیر معمولی طول کھینچ گیا اور مقامی آباد ی کا جینا دوبھر ہوگیا تھا۔ تحریک انصاف کے حلقے ہمیشہ ا س احتجاج کا دفاع کرتے ہیں۔ اسلام آباد لاک ڈائون کا فیصلہ اور عوامی احتجاج کے نتیجے میں پاناما کیس عدالت نے سنا اور پھر اس ذریعے سے نواز شریف حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اس لاک ڈائون کو مگر کیسے جائز قرار دیا جا سکتا تھا؟ اپنے ادوار میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے کے خلاف کبھی تحریک نجات اور کبھی لانگ مارچ کے ذریعے عوامی احتجاج کرتے رہے۔ ہر بار انتظامیہ بے بس اور عوام ذلیل وخوار ہوتے رہے۔ سیاسی کارکن ہمیشہ ان تحریکوں کا دفاع کرتے اور اس کے لئے نت نئے استدلال تراشتے ہیں۔ آج ایسے ہی دلائل خادم رضوی کے حامیوں کے پاس ہیں۔ ذاتی طور پر میری رائے اور تاثر مولوی خادم رضوی کے خلاف ہے۔ میں ان کی دشنام طرازی، سخت بے لچک رویے اور پوری شہری زندگی مفلوج کردینے کے فلسفہ کا شدید مخالف ہوں۔ ریاست کو اپنی رٹ اور قوت تسلیم کرانی چاہیے۔ اس طریقہ سے ملک نہیں چل سکتا۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں، مگر اس کا اطلاق کسی ایک محدود دائرے میں نہیں بلکہ مجموعی طور پر کرنا ہوگا۔ جو ضابطہ کسی مولوی کے لئے ہے، اسی پر سیاسی کارکن کو بھی عمل کرنا پڑے گا۔ عدالتوں کو بھی اپنے فیصلوں کو قابل اعتماد اور قابل توقیر بنانا ہوگا۔ ہم سب اسی سماج کا حصہ ہیں، ہم میں سے بہت سے اسی عدالتی نظام کے متاثرہ ہیں۔ زمینی حقائق سے سب واقف ہیں۔ عدالتوں اور جج صاحبان کو اپنی فیصلوں میں وہ اخلاقی قوت لانی ہوگی، جس پر سماج کی نئی عمارت تعمیر ہوسکے۔ حالیہ ہنگاموں سے ہم بحیثیت قوم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اس کے لئے مگرہر ایک کو ذمہ داری لیناہوگی۔ دوسروں پر لیبل لگانے سے کام بگڑے گا، سنور نہیں سکتا۔