کرونا: گھر میں مقید افراد کیا کر سکتے ہیں؟
کرونا کی وجہ سے گھروں میں دن گزارنے والے لوگوں کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کس طرح وقت گزارا جائے۔ میرا مشورہ ہے کہ ہر ایک کو اپنے مزاج، افتاد طبع اور حالات کے اعتبار سے خود پلان بنانا چاہیے۔ آپ کو گوگل سے مدد مل سکتی ہے،۔ میں نے چند منٹ کی ریسرچ کے بعد ایسے کئی آرٹیکل ڈھونڈ لئے جن میں بیس، تیس سے لے کر سومختلف آئیڈیاز دئیے گئے۔ یہ سب کرونا کے باعث گھروں میں یا قرنطینہ میں مقیم افراد کے لئے لکھے گئے۔ بیشترقابل عمل ہیں۔ آپ کو صرف فہرست بنانے کی ضرورت ہے۔ چند ایک مشورے خاکسار بھی دینا چاہتا ہے، کیونکہ ہم نے بھی کچھ غور فرمایا اور چند گھنٹے نیٹ پر اس نیت سے گزارے۔ یاد رہے کہ صحافیوں کو چھٹیاں نہیں ہیں اور ہم ہر روز معمول کے مطابق دفتر جایا کریں گے، اس کے باوجود میں نے چند ایک آئیڈیا اپنے لئے بھی ڈھونڈ لئے ہیں۔
میرے نزدیک سب سے اہم مذہب اور روحانی پہلو ہے، اس لئے اسے ترجیح میں رکھنا چاہیے۔ ان دنوں میں ایک منفرد، اچھوتا روحانی تجربہ کی تجویز دینا چاہ رہا ہوں، جس کے عملی فوائد بھی ہیں، مگر اس پر ان شااللہ الگ سے کالم میں بات ہوگی۔ ہر مشکل، آفت یا پریشانی انسان کو رب سے قریب کر دیتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم آسودگی اور سکون کے دنوں میں اللہ کے ساتھ تعلق زیادہ مضبوط بنائیں، مگر افسوس دنیا کا تیز رفتار سفر اور جھمیلے میرے جیسے دنیا داروں کو سب کچھ بھلا دیتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی افتاد سر پر آ پڑی، تب رب یاد آیا۔ نمازیں، نوافل، صلواتہ الحاجت بھی یاد آجاتی ہے اور تسبیح بھی پکڑ لیتے ہیں۔ خیر کمزور ترین درجہ ہی سہی، مگر یہ بھی اپنے خالق کے ساتھ جڑے رہنے کا سلسلہ ہے۔ بچے پر بھی جب کوئی مشکل پڑے تو سیدھا ماں کی طرف بھاگتا ہے۔ ہم نالائق، کمزور، پھسڈی غلام سہی، مگر ہیں تو اپنے خالق کی تخلیق، اس کے حبیب ﷺ کی امت سے ہیں، رب کریم کی رحمت، شان اور عظمت سے یہی توقع ہے کہ وہ اپنے بندوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کر دے گا، مشکل سے نکال لے گا۔ رجوع مگر ہمیں ہی کرنا ہوگا۔ مانگیں گے تو نوازے جائیں گے۔ ہمارے مولا، ہمارے خالق کی سخاوت بے مثال ہے اور رحمت کی چادر بھی کل دنیا، کائنات کے گناہوں سے زیادہ بڑی۔ مشکل کے ان دنوں میں اپنے رب کے ساتھ تعلق کو مضبوط بنائیں۔ اشفاق صاحب کہا کرتے تھے کہ گھر میں یا مسجد میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ جائو اور اپنی تمام پریشانیوں کی گٹھری بنا کر رب تعالیٰ کے حوالے کر دو، اسے کہو کہ مولا ہماری بس ہوگئی ہے، اب مزید ہمت نہیں اٹھانے کی، آپ مدد کریں، بوجھ اٹھائیں، مشکل دور کریں۔ اللہ مغفرت کرے اشفاق صاحب کی بہت سی باتیں آج بھی مشعل راہ ہیں۔ ان کی اس بات کو عملی تجربے کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھیں۔ صرف سوچنے ہی سے انسان ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگتا ہے۔ سارا خوف، پریشانی، پینک ذہن سے نکل جائے گا۔ رب کریم کی محبت، رحمت، ٹھنڈک دل میں سرائیت کرنے لگے گی۔
وقت گزارنے کا بہترین طریقہ ہمارے نزدیک مطالعہ ہے۔ آپ بھی کتابیں پڑھنے کی کوئی ترتیب بنائیں۔ چند ایک ایسی ضخیم کتابیں پڑھ ڈالیں جنہیں پہلے پڑھنے کا وقت نہیں مل رہا تھا۔ مطالعہ میں کچھ وقت قرآن پاک کو ترجمہ سے پڑھنے اور سیرت مبارکہ کے مطالعہ کے لئے وقف کریں۔ انٹرنیٹ پر قرآن کے تقریباً تمام ہی مشہور ترجمے، تفاسیر موجود ہیں، تفہیم القرآن سمیت ان تفاسیر کو فری پڑھاجا سکتا ہے۔ 360islamایک بہت مشہور موبائل ایپ ہے، اسے انسٹال کر کے بیش بہا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ سیرت کی مشہور کتابیں بھی کہیں نہ کہیں سے مل ہی جائیں گی۔ سیرت ابن ہشام، طبقات ابن سعدشمائل رسولؐ، الرحیق المختوم، النبی خاتم وغیرہ مشہور کتب ہیں۔ سینئر سیاسی کارکن، دانشور اور لکھاری محترم قیوم نظامی نے معاملات رسول ﷺ کے نام سے ایک شاندار کتاب لکھی ہے، جہانگیر بکس نے شائع کی، ویسے تو ان کی پوری سیریز ہے، معاملات قرآن، معاملات حضرت عمر ؓ وغیرہ۔ دیگر اہم اسلامی کتب بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔ میں ذاتی طور پر نئی کتابوں کی پی ڈی ایف پسند نہیں کرتا کہ اس طرح سے ناشروں کا نقصان ہے اور یہ طریقہ چلتا رہا تو نئی کتابیں کوئی نہیں چھاپے گا، مگر ایسی کتابیں جو آئوٹ آف پرنٹ ہو چکی ہیں، ان کے رائٹر انتقال کر گئے اور اب رائٹس کا معاملہ نہیں رہا، اس کی پی ڈی ایف کہیں سے ملے تو ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ایک اچھی کوشش بھارت میں مشہور ویب سائٹ ریختہ (https://www.rekhta.org/)نے کی ہے، انہوں نے باقاعدہ رائٹس لے کر کتابیں سکین کر کے مفت پڑھنے کے لئے ڈالی ہیں۔ وہاں سے بہت کچھ پڑھا جا سکتا ہے۔
ادب خاص کر فکشن کے خواہش مند قارئین اگر چاہیں تو ان چھٹیوں میں چند ایک بڑے ناول پڑھ سکتے ہیں۔ اردو کے دس یا بیس بہترین ناولوں کی فہرست ہر ایک مختلف انداز سے بنائے گا، میری طالب علمانہ رائے میں قرۃ العین حیدر کا آگ کا دریا، آخر شب کے ہم سفر، عبداللہ حسین (اداس نسلیں، نادار لوگ)، شمس الرحمن فاروقی(کئی چاند تھے سرآسماں )، مستنصر حسین تارڑ(راکھ، بہائو، خس وخاشاک زمانے، ڈاکیہ اور جولاہا)، شوکت صدیقی (خدا کی بستی، جانگلوس)جمیلہ ہاشمی(دشت سوس، تلاش بہاراں )، بانو قدسیہ(راجہ گدھ)، خدیجہ مستور(آنگن)، ممتاز مفتی(علی پور کا ایلی)، سید محمد اشرف(نمبردار کا نیلا، آخری سواریاں )، انتظار حسین (بستی)، شکیل عادل زادہ (بازی گر)مرزا اطہر بیگ(غلام باغ)، اختر رضا سلیمی(جندر)، عاصم بٹ (دائرہ، بھید)، علی اکبر ناطق(نولکھی کوٹھی )وغیرہ شامل ہیں۔ بعض نام رہ گئے ہوں گے، مگر اصل نکتہ یہ ہے کہ اردو کے چند بہترین ناولوں میں سے جس قدر پڑھے جا سکیں، پڑھ لیں۔ کہیں سے آغاز تو کریں۔ تارڑ صاحب کا پیا ر کا پہلا شہر بڑا سویٹ سا، دلگداز ناول ہے، اسے ہی پڑھ لیں۔ عالمی ادب کے بڑے ناولوں کو بھی اپنی فہرست میں رکھیں۔ وقت کی کمی کے باعث میں تو اب تراجم پر اکتفا کرتا ہوں۔ ان چھٹیوں میں ارادہ ہے کہ وکٹر ہیوگو کے مشہور ناول Les Misérables کے اردو ترجمہ مضراب کوپڑھا جائے، دوضخیم جلدوں میں اس کا ترجمہ باقر نقوی مرحوم نے کیا ہے، جبکہ گنتر گراس کا شاہکار ناول The Tin Drum کا اردو ترجمہ بھی نقوی صاحب ہی نے نقارہ کے نام سے کیا ہے۔ یہ آٹھ سو صفحات پر محیط ہے۔ میں ٹالسٹائی کا شاہکار وار اینڈ پیس دو تین بار پڑھ چکا ہوں، اگر کچھ ہمت کی جائے توتاریخ انسانی کے اس عظیم ترین ناول کو آپ بھی ان دنوں میں پڑھ سکتے ہیں۔ اس کا اصل ترجمہ تو شاہد حمید نے کیا تھا، مگر بدقسمتی سے وہ آج کل آئوٹ آف پرنٹ ہے، اس کی پی ڈی ایف بھی نہیں دیکھی، البتہ فیصل اعوان کا ترجمہ شدہ ناول مارکیٹ میں بھی دستیاب ہے اور اس کی پی ڈی ایف بھی کہیں دیکھی تھی۔ کچھ عرصہ قبل میں نے بالزاک کے ایک بہت مشہور ناول" بڈھا گوریو" کامحمد حسن عسکری صاحب والا ترجمہ پڑھا، کیا بات ہے، زندگی بھر نہیں بھلا سکتا۔
مطالعہ کے ساتھ اگر آپ میں تخلیقی صلاحیت ہے تو اس بار اپنے ہنر کو آزمائیں۔ کچھ لکھنے کی کوشش کریں، شاعری کی سوئی ہوئی صلاحیت جگائیں، کہانی لکھنے کی کوشش کریں۔ سب سے آسان کام اپنی یاداشتوں کو مرتب کرنا ہے۔ لمباچوڑا پراجیکٹ بنانے کی ضرورت نہیں، اپنے بچپن کی یادیں ہی لکھ ڈالیں۔ اپنے والدین، بزرگوں کے اہم واقعات، ان کی کہی سبق آمیز باتیں ہی اپنی نئی نسل کے لئے تحریر میں لے آئیں۔ ڈائری لکھنے کی کوشش کریں، یہ نسبتاً آسان کام ہے۔ اگر آپ کو مطالعے سے دلچسپی نہیں، لکھنا بھی نہیں چاہتے تب اپنی گفتگو ریکارڈ کریں، ان کی ویڈیوز بنائیں۔ بچوں کے ساتھ مل کر اپنی زندگی کے اہم واقعات کی ویڈیوز ریکارڈ کرا ڈالیں۔ آپ کا بچپن، والدین، لڑکپن، کالج، یونیورسٹی کی یادیں، آپ کی شادی، پہلے بچے اور دوسرے بچوں کی پیدائش پر کیا تاثرات تھے، سب کچھ ریکارڈ کرا لیں۔ ہر گھر میں موبائل ہیں، بچوں کو کہیں کہ وہ ریکارڈ کر لیں۔ ایک دن یہی آپ کے بچوں کا اثاثہ بنے گی۔ بچوں کو ترغیب دیں کہ مناسب اور محفوظ فاصلے سے بزرگوں (دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ) کے انٹرویوز لیں۔ سوالنامہ بنانے میں آپ مدد کر سکتے ہیں۔ اگر بزرگ دور رہتے ہیں تو فون پر ہی انٹرویو کر لیں، ریکارڈ بھی ہوجائیں گے۔
ملازمت کرنے والی خواتین چونکہ روزانہ باہر جاتی ہیں، اس لئے اپنا خیال رکھتی ہیں۔ ان کے لئے ایک مشورہ کہ آپ کی اچھی ڈریسنگ، سلیقے سے کیا میک اپ اور خوشگوار مسکراہٹ کا سب سے بڑا حق دار آپ کا خاوند ہے۔ گھر میں سرجھاڑ منہ پہاڑ پھرنے کے بجائے گھر والے کے لئے ہی سجیں، سنوریں۔ باہر نہ جانا ہو تب بھی اپنا خیال رکھیں، بالوں کو ڈائی کرنے کی ضرورت ہے تو ضرور کریں۔ میاں بیوی آپس میں کچھ وقت گزاریں، تاہم طبی ہدایات کے مطابق اس رومانس کو پلاٹونک Platonic ہی رکھیں۔ محفوظ فاصلے سے گپ شپ کریں، شادی کے شروع کے ایام یاد کریں، بچوں کے حوالے سے حسین یادیں شیئر کریں۔ ہو سکے تو ایک دوسرے کو خط لکھیں۔ طویل خط۔ دل کھول کر رکھ دیں۔ شکوے شکایات کے ایک دو الگ سے سیشن بھی ہوسکتے ہیں، مگر ان میں الجھے رہنے کے بجائے آگے بڑھیں اور تعلقات میں گہرائی لائیں۔ بات پھر ادھوری رہ گئی، نیٹ فلیکس، ڈراموں، فلموں کی بات نہیں کر پائے۔ اللہ کو منظور ہو اتو اس پر اگلی کسی نشست میں بات کریں گے۔