کشمیریوں کی آخری امید!
آج کشمیر ڈے ہے، ریلیاں، واکس اور جلسے کرنے کا دن، اس دن ہماری کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ تقاریر کریں، کشمیریوں کے دکھاوے کااظہار یکجہتی کریں اور پھر پورا سال خاموشی سے گزار دیں، پھر اگلے سال ایسا ہی کریں اور پھر اسی Soliderityکو دہرائیں اور آگے بڑھتے چلے جائیں۔
یہ پریکٹس گزشتہ 3دہائیوں سے چلی آرہی ہے جب مرحوم قاضی حسین احمد نے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے 5جنوری 1989 میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا اور پاکستان سمیت پوری دنیا میں مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے لیے ایک ماہ کا وقفہ دیکر 5فروری 1989کو ہڑتال کی اپیل کر کے یوم کشمیر منانے کا فیصلہ کیا۔ پہلے پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں محمد نواز شریف اور بعد میں وزیر اعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس کی تائید کی۔
1989کو یوم یکجہتی کشمیر پہلی مرتبہ اور1990کو تمام تر سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر پوری قوم نے منایا۔ اس کے بعد گزشتہ 31برسوں سے 5فروری کو آزاد و مقبوضہ کشمیر، پاکستان اور دنیا بھر میں موجود 15لاکھ کشمیر ی تارکین وطن ہر سال یوم یکجہتی کشمیر اس عزم کے ساتھ مناتے ہیں کہ آزادی کے حصول تک یہ سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ مسئلہ کشمیر تقسیم بر صغیر کے نا مکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ جب کہ کشمیری عوام 8لاکھ بھارتی فوج کے ظلم و ستم کا مسلسل شکار ہو رہے ہیں اوراب 5اگست 2019سے کشمیر میں مسلسل کرفیو نافذ ہے، لوگ بند کمروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہے، کشمیر ی عوام اس صدی کے سب سے بڑے ظلم کا شکار ہیں۔
جب کہ ہم محض مذمتوں سے ہی کام چلا رہے ہیں، ویسے ہم کچھ کر بھی نہیں سکتے، ایسا کیوں ہیں؟ شاید میرے خیال میں اس کی دو وجوہات ہے، ایک یہ کہ دنیا بھر میں بھارت کی لابنگ ہم سے زیادہ مضبوط ہونے کی وجہ ہم کئی فورمز میں مسئلہ اُٹھانے سے قاصر رہتے ہیں اور دوسرا ہمارے ہاں آواز اُٹھانے والا فورم یعنی قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے کشمیر (کشمیر کمیٹی) بھی سیاست کی نذر رہی۔ اس کمیٹی کی تاریخ پر اگر نظر دوڑائیں تو اس کا قیام 1993میں عمل میں آیا، جس کا مقصد مسئلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنااور حل کے لیے اپنی شفارشات پیش کرنا تھا، اس کمیٹی کے پہلے چیئر مین نوابزادہ نصراللہ خان مقرر کیے گئے، پھر1997 میں چوہدری محمد سرور خان بنائے گئے، 2008میں مو لانا فضل الرحمان کو 36ممبران پر مشتمل کمیٹی کا چیئر مین بنایا گیا۔
مولانا دس سال اس عہدے پر رہے۔ قارئین! پاکستان نے کشمیریوں کے لیے آواز اُٹھانے کا اسے بنیادی فورم قرار دیا ہے، اس کے باوجود اگر کشمیر کمیٹی کے فرائض کی بات کریں تو اس کمیٹی کا پہلا فریضہ ہی یہ ہے کہ وہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں حقوق انسانی کے خلاف ورزیوں اور مظالم کو مانیٹر کرے گی اور ان کو سامنے لائے گی۔ دنیا میں رائے عامہ کو کشمیر کے لیے ہموار کرنا بھی اس کی بنیادی ذمے داریوں میں سے ایک ہے اور بیرونی دورے اسی عنوان کے تحت کیے جاتے ہیں۔ ناسازگار لمحے قوموں کی زندگی میں آتے رہتے ہیں۔
ان مشکل لمحوں میں پیش قدمی نہ ہو سکے تو اس بات کو ضرور یقینی بنایا جاتا ہے کہ پسپائی بھی نہ ہونے پائے، بھلے چیزیں منجمد ہو جائیں۔ حد تو یہ ہے کہ اس کمیٹی کا بنیادی کام یہ ہوتا ہے کہ آپ مسئلہ کشمیر کو دنیا بھر کے فورمز میں پیش کریں، اپنا لوہا منوائیں اور پاکستان کے موقف کو ہر بڑے ملک کے سامنے رکھیں۔
لیکن یہ کمیٹی برائے نام کام کر تی رہی ہے، اس لیے کشمیر کمیٹی اور وزارت کشمیر امور کی افادیت نہ ہونے کے برابر لیکن ان پر قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے تو اس کمیٹی میں کوئی غیر سنجیدہ شخص لگا دیا جاتا ہے۔ پہلے فخر امام مقرر ہوئے، اُن سے بھی کام نہ چلا تو ایک وزیر شہریار خان آفریدی جن کے پاس کوئی وزارت نہیں بچی تھی، انھیں اس کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ یہ کمیٹی بھی بس برائے نام کام کر رہی ہے۔ سوائے مذمتوں کے اس کے پاس کوئی کام نہیں ہے۔
جب کہ دوسری جانب کشمیری پاکستانیوں کے سچے جھوٹے دعوؤں پر اعتبار کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں؟ جب کہ اس وقت کشمیریوں کا جینا دوبھر ہوچکاہے۔ مشکل یہ ہے کہ کشمیری جائیں بھی تو جائیں کہاں؟ ی فی الحال تو انھیں ہر سال پانچ فروری کو یوم کشمیر کا منایا جانا ہی غنیمت لگتا ہوگا۔
میں خود کو اگر سری نگر کے کسی کرفیو زدہ علاقے میں بیٹھے ہوئے سوچوں اور یہ بھی سوچوں کہ میرا بھائی بھارتی فوج کی حراست میں ہے اور یہ بھی سوچوں کہ بھارتی فوج کشمیری خواتین کے استحصال کو بطور ہتھیار کسی بھی وقت استعمال کرسکتی ہے تو میں خود کو کشمیر میں نہیں وحشی درندوں کے کسی جنگل میں تنہا پاؤں گا۔ ایسے میں کہیں کسی ایل او سی کے پار سے اٹھتی کشمیر، کشمیر کی صدا کیا مجھے وحشت سے آزادی دلا سکتی ہے؟ کیا کوئی واک، کوئی سیمینار یا کوئی ریلی کشمیریوں کو اُن کے حقوق دلا سکتی ہے؟
میرے خیال میں اگر کوئی چیز کشمیریوں کے لیے کارگر ثابت ہو سکتی ہے تو وہ ہے حکومتی سنجیدگی! وزیر اعظم عمران خان نے حلف اُٹھاتے ہی کشمیریوں کی آزادی کی بات کی تھی، جس سے دنیا بھر میں مثبت پیغام گیا تھا، پھر انھوں نے اقوام متحدہ کے فورم پر آواز اُٹھائی تھی جس سے کشمیرکی آزادی کی تحریک میں جان پڑ گئی تھی، مگر اب حالات مزید بگڑتے نظر آرہے ہیں، لہٰذاوزیر اعظم عمران خان اگر کشمیریوں کے ساتھ مخلص ہیں تو فوراً کشمیر کمیٹی کو متحرک کریں کیونکہ یہ معاملہ انٹرنیشنل فورم پراُٹھانے اور لابنگ کرنے کا متقاضی ہے۔
حکومت پاکستان کو چاہیے کہ کشمیر کمیٹی کو اس کی اصل روح کے مطابق فعال کرے تاکہ کمیٹی کا مقصد پورا ہو اور عالمی برادری کو باور کروایا جاسکے کہ خطے میں مسئلہ کشمیرکے حل کے بغیر دیر پا امن ممکن نہیں۔ قارئین کی یاددہانی کے لیے بتاتا چلوں کہ بے نظیر بھٹو کے دور میں ہم نے دیکھا کہ سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر کو اپنے ایجنڈے سے خارج کرنے کا فیصلہ سنا دیا تھا۔
بے نظیر نے اس فیصلے کی مزاحمت کی اور ایسی مزاحمت کی کہ نہ صرف کشمیر آج سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے بلکہ یہ اصول بھی طے ہو چکا ہے کہ فریقین کی رضامندی کے بغیر اسے ایجنڈے سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال وہ ممالک یا وہ شخصیات جو اپنی قوت و صلاحیت سے مکمل طور پر فائدہ نہیں اٹھاتیں وہ ہمیشہ غالب، طاقت ور اور بے مہر عالمی سیاسی اور معاشی (ڈس) آرڈر کے شکنجے میں جکڑی رہتی ہیں۔ ہمیں ہرگز یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ راہنماؤں کا مائنڈ سیٹ ہی قوموں کی تقدیر کا تعین کرتا ہے! اس لیے خان صاحب کشمیریوں کی آخری اُمید ہی سمجھے جاتے ہیں!