دبوچنے کے لیے بے قرار ہیں
آپ سب کو بہت بہت مبارک ہوکہ ہمارے ملک کے کرپٹ، بے ایمان، دھوکے باز دولت کے پجاری، دولت کے ذخیرہ اندوز جن میں سیاست دانوں کی اکثریت، بیوروکریٹس، جاگیر دار، سرمایہ دار، ملا شامل ہیں سب کے سب اس راستے پر تیزی سے بھاگ رہے ہیں جو آگے چل کر اس دلدل پر ختم ہونے والا ہے جہاں بیماریاں، پریشانیاں، مصیبتیں، آفتیں ان کو دبوچنے کے لیے ایک ساتھ بیٹھی ہوئیں ان کا بے تابی کے ساتھ انتظار کررہی ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اس وقت وہ اپنے آپ کو دنیا کا سب سے سے بڑا شاطر، سمجھ دار، ذہین، موقع سے فائدہ اٹھانے والے خوش قسمت مانے بیٹھے ہیں آج آپ ان سے ایمانداروں، دیانت داروں کے متعلق سوال کر کے دیکھ لیں جیسے ہی آپ کا سوال ختم ہوگا، ویسے ہی آپ کو ان کے متعلق برا بھلا کہنے کے ساتھ یہ کلمات سننے کو نصیب ہونگے کہ وہ اول درجے کے احمق، بے وقوف ہیں اور ان میں عقل نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی ہے وہ زمین پر بوجھ ہیں۔ آج کے دور میں ایمانداری اور دیانتداری کو ٹین ڈبے والا بھی نہیں پوچھتا ہے نجانے وہ پیدا کیوں ہوئے ہیں ایسے لوگوں کو تو ڈوب کر مرجانا چاہیے تاکہ ملک پاک اور صاف ہو جائے۔
لندن کاآئینہ، بنی نوع انسان کی کیفیات کو سب سے زیادہ جاننے والا منصف چارلس ڈکنز جس کی رہائش گاہ کو میوزیم بنا دیا گیا۔ ہر جگہ ڈکنزسٹر قائم کیے گئے ہر سال ڈکنز کے نام پر فیسٹول ہوتا ہے جہاں جہاں ڈکنز رہا، ان مقامات کو محفوظ کرلیاگیا ہے۔ 76.500مر بع گز پر " ڈکنز دنیا " ہے جہاں ایک سنیما ہال، ہوٹل اور لائبر یری بنائی گئی ہے ڈکنز کے نام پر نوٹ چھپے ہیں جن پر اس کی تصویر اور" پک وک پیپرز " کے کرداروں کے عکس بنائے گئے ہیں نے 1843 میں اپنی شاہکارکتاب A Cristmas Carol لکھی جس میں وہ ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح ایک بد مزاج، کنجوس، دولت کا پجاری، نفرت انگیز شخص سکروج ایک با مروت، خوش دل اور پیار انسان بنتا ہے اورکس طرح ہماری قسمتیں ہمارے فیصلوں کے ذریعے متعین ہوتی ہیں۔
ڈکنزکے نزدیک ہمارے مقاصد ہماری شخصیت کا تعین کرتے ہیں۔ سکروج کی کہانی بہت ہی سادہ ہے اور اسے سمجھنا بھی بہت آسان ہے۔ آئیں ! ہم سکروج کی زندگی میں داخل ہوتے ہیں، اس کی زندگی کا واحد مقصد دولت ہوتا ہے وہ اپنے لوگوں کی نسبت دولت کی زیادہ پروا کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ دولت ہی اس کی زندگی کا مقصد ہے۔ اپنے اسی مقصدکو سامنے رکھتے ہوئے، اس کی ترجیح واضح ہے کہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ دولت کمائی جائے، اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اس کی عملی کارروائیوں کا ہدف محض دولت کا حصول ہے، جب وہ اپنے اس کام سے کچھ فارغ ہوتا ہے، محض تفریح کی خاطر وہ اس دولت کی گنتی کرتا ہے کمانا، منصوبے سازی، دولت مستعار دنیا، دولت حاصل کرنا، اسے گننا اس قسم کی سرگرمیاں ہی اس کے دن کا حصہ ہوتی ہیں کیونکہ وہ ایک لالچی اور خود غرض انسان ہے جو ان انسانوں سے قطعاً بے پروا ہے جو اس کے ارد گرد موجود ہیں۔ ایک دفعہ کرسمس کے تہوارکے موقع پر سکروج کے گھر متوفی جیکب مارلے کی روح آئی جو اس کا سابقہ کاروباری شراکت دار تھا۔
مارلے نے روتے ہوئے کہا " میں آج رات اس لیے تمہارے پاس آیاہوں تاکہ تمہیں خبردارکرسکوں کہ تمہارے پاس ابھی ایک موقع ہے اور جو کچھ مجھ پر گزری ہے تم اس سے بچ سکتے ہو تمہیں تین روحیں … ماضی، حال اور مستقبل کی روحیں خوفزدہ کریں گی۔ یاد کرو، ہمارے درمیان کیا طے پایا تھا پھر تینوں روحیں اس کے پاس آئیں تاکہ اسے حال، ماضی اورمستقل کا مشاہدہ کراسکیں اپنی ان ملاقاتوں کے دوران وہ یہ مشاہدہ کرتا ہے کہ کس طرح وہ اپنی موجودہ صورت میں ڈھل گیا اس کی موجود ہ زندگی کس طرح گزر رہی ہے اور بالاخر اس اور اس کے اردگرد موجود لوگوں کے ساتھ کیا بیتے گی۔
یہ ایک بہت ہی خوفناک تجربہ ہے جو بہت واضح طورپر لرزنے پرمجبور کردیتا ہے۔ جب وہ اگلی صبح بیدار ہوتا ہے، اس امر سے بے خبر کہ یہ حقیقت ہے یا خواب، اس وقت اس کا سر چکرانے لگتا ہے جب اسے معلوم ہوا کہ وقت تو ساکن تھا اور اب سکروج کو احساس ہوتا ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنی قسمت بدل سکتاہے اس کے بعد سکروج کے ساتھ کیا بیتی؟
ڈکنزکے کہنے کے مطابق اس کا مقصد تبدیل ہوگیا، جس نے اس کے عملی سرگرمیوں کا رخ بھی تبدیل کر دیا اب وہ دولت کا مرید نہیں بلکہ لوگوں کا ہمدرد بن چکا ہے۔ وہ دولت جمع کرنے کی نسبت لوگوں کی مدد کو کہیں زیادہ ترجیح دیتا ہے۔ اب وہ سمجھتا ہے کہ دولت اس وقت تک اچھی ہوتی ہے جب تک اس سے اچھے کام کیے جاسکیں۔ اب یہ ہمارے شاطر، دانشور اور سمجھ دار دولت کے ذخیرہ اندوزوں پر منحصر ہے کہ وہ آگے چل کر متوفی جیکب مارلے کی طرح اپنے پیاروں کے خواب میں آکر روتے ہوئے انھیں ڈراتے ہیں یا پھر سکروج کی طرح اپنی زندگی کی ترجیحات کو یکسر تبدیل کر دیتے ہیں، لیکن ماضی ہمیں یہ بات کان میں بتاتا ہے کہ ایسے لوگ ہمیشہ ہی اپنے پیاروں کو خواب میں روتے ہوئے انھیں ڈراتے آرہے ہیں۔ ان کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ کبھی تبدیل شدہ سکروج بننے کی کوشش نہیں کرتے ہیں اورکہانی یوں ہی آگے بڑھتی جارہی ہے۔
سقراط کو سزا دینے سے پہلے لوگوں نے اس سے پوچھا " تمہاری سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟" اس نے جواب دیا " میری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ میں شہر کی سب سے بلند عمارت پر کھڑے ہو کر لوگوں سے کہوں کہ اے لوگو! حر ص و طمع کی وجہ سے اپنی زندگی کا بہترین وقت مال و دولت جمع کرنے میں کیوں ضایع کررہے ہو اور یہ قیمتی وقت اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں کیوں نہیں لگاتے جب کہ تم ایک دن یہ ساری دولت ان بچوں کے درمیان چھوڑکر چلے جانے پر مجبور ہو۔ "