Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Aftab Ahmad Khanzada
  3. Bad Duayen

Bad Duayen

بد دعائیں

دعائیں، بد دعائیں، آہیں، صدائیں مرنے کے بعد بھی پیچھا کرتی ہیں " تم نے اپنی حماقت کے لیے متاع دنیا کے انبار جمع کر رکھے ہیں اور ضرورت مندوں کو روٹی کا ایک ٹکڑا دینے میں تمہیں عار ہے مگر وہ دن قریب ہے جب تمہیں درد ناک شعلوں میں جلایا جائے گا اور تم ایک قطرہ آب کے لیے التجائیں کرو گے؟ "

Ship of Fools: sebastian Brant

آئیں ! پہلے عظیم فرانسیسی انا طول فرانس کی نوبل انعام یافتہ کہانی " سیاہ روٹیاں " سے چند اقتباس پڑھتے ہیں۔" یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب نکولس یزلی نامی ایک شخص فلورنس کے عالیشان شہر میں بینکار تھا صبح ہوتے ہی وہ اپنی میز کے سامنے جا بیٹھتا۔ سہ پہرکا گھڑیال بج اٹھتا مگر نکولس وہیں مورچہ لگائے پست کون میں درج اعداد و شمار سے الجھتا رہتا۔ شہنشاہ سے لے پوپ تک سب ہی اس کے مقروض تھے اسے رقم ڈوبنے کا خدشہ نہ ہوتا تو وہ شیطان کو بھی قرض دیتا۔

دوسروں کی جمع جتھا پر ہاتھ صاف کرکے اس نے بے اندازہ دولت سمیٹ لی تھی، اس کا گھر ایک بڑے محل کی صورت میں وسیع و عریض قطعہ اراضی پر پھیلا ہوا تھا جہاں دن کے وقت بھی سورج کی روشنی صرف تنگ کھڑکیوں کے ذریعے ہی پہنچ پاتی تھی۔

یہ بھی اس کی عقل مندی کی دلیل تھی کیونکہ امیر آدمی کا گھر ایک قلعہ ہونا چاہیے تاکہ مکاری سے ہتھیائی ہوئی دولت کی حفاظت طاقت سے کی جا سکے۔ سردیوں کی ایک شام وہ گھر کو لوٹ رہا تھا اسے معمول سے کچھ دیر ہوچکی تھی گھرکی دہلیز پر نیم عریاں درویشوں کے ایک ہجوم نے اسے گھیر لیا اور ہاتھ پھیلائے بھیک مانگنے لگے اس نے سخت سست کہہ کر اپنی جان چھڑانا چاہی مگر وہ مارے بھوک کے بھیڑیوں کی طرح نڈر ہو رہے تھے انھوں نے اس کے گرد دائرہ بنا لیا اور اپنی پھٹی ہوئی قابل رحم آوازوں میں روٹی کا مطالبہ کرنے لگے وہ جھک کر انھیں مارنے کے لیے پتھر اٹھانا چاہتا تھا۔ اچانک اس کی نظر اپنے ملازم پر پڑی جو روٹیوں کی ٹوکری سر پر اٹھائے گھر سے نکل رہا تھا یہ روٹیاں اصطبل کے سائیوں، خانساموں اور مالیوں کے لیے جارہی تھی اس نے ہاتھ کے اشارے سے ملازم کو بلایا اور دونوں ہاتھ ٹوکری میں ڈال کرکچھ روٹیاں نکالیں اور بھوکوں کی طرف اچھال دیں۔

گھر میں داخل ہوکر وہ بسترکی طرف گیا، رات کے وقت اس پر مرگی کا حملہ ہوا، اس کی موت اس سرعت سے حملہ آور ہوئی کہ وہ اپنے خیال میں ابھی بستر پر ہی تھا کہ اس نے خود کو کال کوٹھری جیسی جگہ پر پایا جہاں فرشتہ مائیکل اپنے وجود سے نکلتی روشنی میں نہایا بڑے انہماک سے ترازو ہاتھ میں تھامے پلڑوں میں کچھ رکھ رہا تھا۔ نکولس نے دیکھا کہ نیچے جھکے پلڑے میں کچھ جواہرات تھے جو بیوہ عورتوں نے اس کے پاس رہن رکھوائے تھے، سونے کے وہ ٹکڑے تھے جو وہ گاہکوں کے زیورات سے چھیل لیا کرتا تھا سونے کے سکے تھے جو اس نے سود یا دھوکا دہی سے کمائے تھے۔

نکولس کو یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ خود اس کی زندگی کا مال تھا جس کی منصفی اس کی آنکھوں کے سامنے ہو رہی تھی۔ جناب عالی اس نے کہا کہ اگر آپ پلڑے میں میرے افعال بد رکھ رہے ہیں تو دوسرے پلڑے میں میری وہ نیکیاں نہ بھولیں جن کاایک عالم میں شہرہ تھا۔

سانٹا میر یا کے گرجا گھر کو مت بھولیے جس کی تعمیر کے ایک تہائی اخراجات میں نے برداشت کیے تھے اور پھر شہر پناہ سے باہر وہ سرائے جسے میں نے اپنی جیب سے تعمیر کروایا " فکر مت کرو نکولس " مجھے بھولنے کی عادت نہیں۔ یہ کہتے ہوئے فرشتے نے یہ چیزیں دوسرے پلڑے میں ڈال دی مگر پلڑے میں کوئی جھکاؤ پیدا نہ ہوا۔ نکولس پریشان ہوگیا " محترم دوبارہ توجہ فرمایے آپ نے پلڑے میں مقدس پانی کا فوارہ جو میں نے گرجا گھر میں بنوایا تھا اور سینٹ اینڈ ریا کا وہ منبر بھی مجھے نظر نہیں آرہا جس پر یسوع مسیح کے بپ تسمہ کی قد آدم عکاسی تھی۔

فرشتے نے منبر اور فوارہ اٹھا کر سرائے کے اوپر رکھ دیے مگر میزان میں کوئی جنبش نہ ہوئی۔ نکولس نے کہا " محترم کیا آپ کو یقین ہے کہ میزان میں کوئی خرابی نہیں ہے؟ " فرشتے نے کہا " اس کے درست ہونے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔۔ گویا گر جا، فوارہ منبر اور سرائے کا وزن کسی پرندے کے پرکے برابر بھی نہیں ہے تم خود دیکھ لو۔ پھر تو مجھے جہنم میں جانا ہوگا " نکولس تقریبا رودیا۔ دہشت کے مارے اس کے دانت بجنا شروع ہوگئے۔

" صبر نکولس صبر ابھی ہمار اکام ختم نہیں ہوا " یہ کہتے ہوئے اس نے وہ سیاہ روٹیاں اٹھائیں جو نکولس نے درویشوں میں بانٹی تھیں اور نیکیوں والے پلڑے میں ڈال دیں یکایک میزان میں حرکت پیدا ہوئی اور دونوں پلڑے متوازن ہوگئے مہربان فرشتہ بولا " سنو نکولس تمہار ے اعمال ظاہر کرتے ہیں کہ تم ابھی جنت اور جہنم میں کسی کے بھی حقدار نہیں ہو۔ فلورنس واپس چلے جاؤ اور شہر والوں میں وہی روٹیاں بانٹو جو تم نے پچھلی رات گدا گروں کو دی تھیں جب تمہیں کوئی دیکھنے والا نہیں تھا تمہاری نجات ہوجائے گی۔"

میرے ملک کے امیروں، با اختیاروں تم نے چند یا ہزار، یا لاکھ نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں کو بھوکا مار ڈالا ہے اپنے محلوں سے باہر نکل کر دیکھو کروڑوں انسان ایک ایک روٹی کے لیے ترس رہے ہیں۔ ہاتھ اٹھائے تم سے بھیک مانگ رہے ہیں جلد یا بدیر تم نے بھی وہیں چلے جانا ہے جہاں تمہاری ہر ہر حرکت کا حساب ہونا ہے بس یہ بات یاد رکھنا کہ بد دعائیں، صدائیں اور آہیں تمہارا مرنے کے بعد بھی پیچھا نہیں چھوڑیں گی۔ یہ محلات، ہیرے جواہرات کا ڈھیر، روپوں پیسوں کے خزانے تمہارے کچھ کام نہیں آئیں گے۔ ابھی تمہارے پاس وقت ہے اس لیے جتنی نیکیاں کما سکتے ہوکما لو، ورنہ تمہارے پاس حساب کے وقت رونے اور کانپنے کے علاوہ اورکچھ نہ ہوگا۔

Check Also

Raston Ki Bandish

By Adeel Ilyas