ذرا غور فرمائیے گا

کل محفل میں ذکر تھا حالات کا اوراس بات کا کہ "حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہوگئے"۔ سو، حاضرین میں سے کسی نے کہا: "کسی تکلیف کاحکومت سے شکوہ کیجیے تو جواب یہی ملتا ہے کہ یہ مسئلہ زیرِ غور ہے"۔
اس پر پروفیسر عنایت علی خان کی مقبول نظم یاد آگئی۔ وہاں پوری سنائی تھی، یہاں فقط چند اشعارکی گنجائش ہے۔ توچند ہی چن لیجے:
بہبودیِ عوام ابھی زیرِ غور ہے
یعنی ہر ایک کام ابھی زیرِ غور ہے
جو بورڈ کل ہتھیلی پہ سرسوں جمائے گا
اُس بورڈ کا قیام ابھی زیرِ غور ہے
نو سال قبل ہم نے کیا تھا اُنھیں سلام
وعلیکم السّلام ابھی زیرِ غور ہے
چھے ماہ سے مریض کی حالت تباہ ہے
نزلہ ہے یا زکام؟ ابھی زیرِ غور ہے
کہنے لگے عنایتِؔ عجلت پسند سے
بھیا تمھارا کام ابھی زیرِ غور ہے
نظم سن کرایک تباہ حال بولے: "حکومت تو بس غور ہی کرتی رہ جائے گی، بلکہ غور و خوض۔ اتنے میں چل چلاؤ کا وقت آجائے گا"۔
یہ کہہ کر خود چل دیے۔ اُن کے چل چلاؤ کے بعد دوسرے تباہ حال صاحب نے اپنی نزلہ زدہ ناک پونچھتے ہوئے ہم سے پوچھا: "کیوں صاحب! غور کے ساتھ خوض، کیوں بولا جاتا ہے؟ کبھی آپ نے اس پر بھی غور فرمایا؟"
عرض کیا: "صاحب ہم نے توکبھی غور، پر بھی غور نہیں فرمایا خوض پر کیا غور فرماتے مگر آپ فرماتے ہیں تو آج فرمائے دیتے ہیں"۔
تو سب سے پہلے غور، ہی پر کیوں نہ غور کر لیا جائے۔ غور، کے لفظی معنی ہیں گہرائی، عمق، قعر، پستی، تَہ اور نزول وغیرہ۔ غور کرنا، گویا کسی معاملے کی تَہ تک پہنچنا یا اُس کی گہرائی میں جانا ہے۔ اہلِ ایمان کے غور کرنے کے واسطے غار والوں کا واقعہ سورۃ الکہف میں بیان کیا گیا ہے، جس کی آج (جمعے) کے دن تلاوت کرنے کی تاکید آئی ہے۔ سورۃ الکہف ہی کی آیت نمبر 41 اورسورۃ المُلک کی آخری آیت (آیت نمبر 30) میں کنویں کا پانی نیچے اُتر جانے کے لیے لفظ "غورا" استعمال ہوا ہے۔ سورۃ المُلک میں فرمایا گیا ہے:
"ان سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگرکسی صبح تمھارے کنووں کا پانی گہرائی میں اُتر جائے توکون ہے جو اس پانی کی بہتی ہوئی سوتیں تمھیں نکال کر لادے؟"
غور سے دیکھنا، گہری نظر اور باریک بینی سے دیکھنا ہے، یعنی خوب اچھی طرح سے دیکھنا۔ روز مرہ معمولات میں کئی معاملات غور طلب یا قابلِ غور ہوتے ہیں مگر ہم انھیں سرسری انداز سے نمٹا دیتے ہیں۔ حالاں کہ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ہر پہلو پر اچھی طرح غور کرلینا چاہیے۔
غور، ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان کے 34 صوبوں میں سے ایک صوبے کا نام بھی ہے۔ یہاں کے لوگ پیدا ہوتے ہی غوری، ہو جاتے ہیں۔ وطن عزیز میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو وہاں پیدا ہوئے بغیر یہیں غوری، ہوگئے ہیں، وہ کیسے؟ یہ معاملہ بھی غور طلب ہے۔
ہمارے ہاں تو غور طلب باتوں پر غور کیا جاتا، ہے، مگر حضرتِ داغؔ کے ہاں غور کی جاتی، تھی:
کیا ناگہاں جفائیں تری یاد آگئیں
بھولے سے اپنے حال میں جب میں نے غور کی
یہ سُنتے ہی پُرسشِ حال کو آیا ہوا محبوب داغؔ صاحب کو کوس کر چلا گیا۔ اس کے باوجود اُنھوں نے اپنے شعر میں غور کی، ہی باندھا:
بہرِ عیادت آئے تو وہ کوس کر گئے
اچھا مرا علاج کیا، میری غور کی
داغؔ بھی کیا کرتے؟ یہ رسم تو میرؔ کے زمانے سے چلی آتی تھی:
زخمِ دل غائر ہو پہنچا تا جگر
تم لگے کرنے ہماری غور اب
غور، کا مطلب دیکھ بھال، بھی ہے۔ غائر بھی گہرے، ہی کو کہتے ہیں، اسم صفت ہے۔ بہ نظرِ غائردیکھیے تو غار، بھی گہراہوتا ہے، خواہ زمین کا غار ہو یا پہاڑ کی کھوہ۔ سنا ہے کہ سحرؔ کے سینے میں بھی غار ہوگیا تھا جو اُنھوں نے پاٹ دیا۔ مگر ذرا غور فرمائیے کہ کس مٹی سے پاٹا:
جن کا کہ پاس تھا مجھے، دل اُن سے ہٹ گیا
سینے کا غار گردِ کدورت سے پٹ گیا
غار کی جمع اغوار، ہے۔ ٹھوڑی کے گڑھے کو بھی غار کہا جاتا ہے۔ کسی چیز کو گڑھے میں ڈال دینا، دھنسا دینا، تباہ و برباد کر ڈالنا یا لُوٹ لینا اُسے غارَت، کردینا ہے۔ لیجے ہماری غارت گری، کا بھی کچھ نہ کچھ تعلق غور (یعنی پستی) اور غار سے نکل ہی آیا۔ عربی میں کمانڈو، کو غالباً اُس کی غارت گری ہی کی وجہ سے مِغوار، کہتے ہیں۔ لو صاحبو! اب ایک خبر اور سنو۔ غارت ہی کا نہیں غیرت کا تعلق بھی اسی خاندان سے ہے۔ غیرت مند شخص کو عربی ہی میں نہیں اُردو میں بھی غیور، کہا جاتا ہے۔ اقبالؔ فرماتے ہیں:
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں
جسور، کا مطلب ہے جسارت کرنے والا، نڈر اور دلیر۔
خوض، کے لفظی معنی ہیں داخل ہونا، گھسنا اور مشغول ہونا۔ محاورے میں خوض، کے معنی بات سے بات اور بال کی کھال نکالنے کے ہیں۔ یعنی کسی بات پر اعتراض، نکتہ چینی اور کٹھ حجتی کے نت نئے پہلو پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔ باطل کی حمایت اور حق کی مخالفت میں سخن سازی و دلیل بازی کے لیے قرآنِ مجید میں خوض اور یخوضون، کے الفاظ آئے ہیں۔ مثلاً سورۃ الانعام کی آیت نمبر 68 میں حکم دیا گیا:
"اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں میں کج بحثی کر رہے ہیں [یخوضون] تو اُن سے منہ موڑ لو(یعنی ان سے کنارہ کش ہو جاؤ) یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں مشغول ہو جائیں اور اگر شیطان تمھیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ان ظالموں کے پاس نہ بیٹھو"۔
اسی طرح سورۂ طور کی آیت نمبر 11 اور 12 میں فرمایا گیا: "پس تباہی ہے اُس روز اُن جھٹلانے والوں کے لیے جو آج کھیل کے طور پر اپنی حجت بازیوں [خوض] میں لگے ہوئے ہیں"۔
ہمارے ہاں خوض، کا لفظ غور، کے ساتھ ملا کر سوچ بچار اور تفکرکے معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ یوں غور و خوض، کا مطلب ہوا کسی بات کہ تَہ تک پہنچنا، اُس کی گہرائی میں جانا، اس کا ناقدانہ جائزہ لینا، اس میں مِین میکھ نکالنا، نکتہ چینی کرنا، حجت یا دلیل بازی کرنا اور بال کی کھال نکالنا۔ بالکل اسی طرح جیسے آج ہم نے غور و خوض، کے موضوع پر فرمائشی غور و خوض فرمایا۔