تری نظروں کے نذرانے زمانے

روایات کیسے بنتی ہیں، کیسے بدلتی ہیں، کیسے بگڑتی ہیں، ایک عہد کس طرح گزر جاتا ہے، زمانہ کیسے تبدیل ہو جاتا ہے، معاشرے کی وضع قطع اور تراش خراش میں تبدیلیاں کن غیر محسوس دریچوں سے در آتی ہیں؟ کوئی محسوس کرے تو پتا چلے۔ چلیے جی آج یادِ ماضی ہی سہی۔
یہ بہت پرانی بات نہیں کہ ہمارے برقی ذرائع ابلاغ سے پیش کیے جانے والے تفریحی نشریے بھی تعلیمی ہوتے تھے۔ ان سمعی و بصری نشریات کو پیش کرنے والوں میں پروفیسر حشمت اللہ لودھی، عظیم سرور، فائق بدایونی، قریش پُور، عبیداللہ بیگ، افتخار عارف، ضیاء محی الدین اور طارق عزیز جیسے شائستہ اور سلجھے ہوئے لوگ ہوتے تھے۔ دیگر لائق، فائق لوگ بھی ذرائع ابلاغ سے سنائی اور دکھائی دیتے تھے۔ دل اب بھی چاہتا ہے کہ ویسے ہی دل کش، دل نشین اور فرحت بخش پروگرام سننے اور دیکھنے کو ملا کریں۔ نیلام گھر، کسوٹی اور شیشے کا گھر، جیسے شفاف پرگرام۔ پر جو خدا دکھائے سو ناچار دیکھنا۔ تفریح کے نام پر کیسے کیسے تماشے دکھائے جا رہے ہیں۔ کیا کہیے؟ اور کس سے کہیے؟
وہ زمانہ خوب یاد ہے اور خواب کی طرح یاد ہے، جب نومبر1967ء میں پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کی نشریات کا آغاز ہوا تھا۔ اس وقت ہم اپنے آپ کو متعلم جماعت ہفتم، کہا کرتے تھے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اِس بات کو اُس دور کے راہ چلتے لوگ بھی سمجھ لیا کرتے تھے۔ وہ عجیب دور تھا۔ آج تو شاید خود متعلم جماعت ہفتم، بھی یہ الفاظ سمجھ نہ پائیں۔ یہ عجیب دور ہے۔
شروع ہونے کو تو کراچی میں ٹیلی وژن اسٹیشن بھی شروع ہوگیا اور ٹیلی وژن کی نشریات بھی۔ مگر ابھی گھرگھر ٹیلی وژن سیٹ عام نہ تھے۔ اِس صنعتی و تجارتی شہر کے تقریباً ہر شہری کو کسی نہ کسی قسم کا، کوئی نہ کوئی روزگار میسر تھا، پھر بھی عوام کی قوتِ خرید اتنی نہ تھی کہ تین، ساڑھے تین ہزار سے، چار ہزار روپے تک کی قیمت رکھنے والا اور سفید و سیاہ تصاویر دکھانے والا، ٹی وی سیٹ خرید سکیں۔ ریڈیو بھی، جوفقط ڈیڑھ دو سو روپے کا مل جاتا تھا، ہر گھر میں نہیں تھا۔ لہٰذا جو لوگ ٹیلی وژن سیٹ خرید سکتے تھے وہ صاحبِ ثروت لوگ سمجھے جاتے تھے۔
اُس زمانے کے شریف، عزت دار اور دِین دار گھرانوں میں جوان جہان کالجییٹ لڑکوں، کا بھی سنیما جانا اور فلم دیکھنا ایک طرح سے گناہِ کبیرہ، تصور کیا جاتا تھا تو بھلا جماعت ہفتم کے طالب علم کی بساط ہی کیا تھی۔ جو لڑکے سنیما جا کر فلم دیکھا کرتے تھے وہ آوارہ، کہے جاتے تھے۔ فلمیں دیکھنے والےآوارہ لڑکوں، نے بھی تو دُند مچا مچا کر اپنا تاثر خراب کر رکھا تھا۔ منہ میں اُنگلیاں ڈال ڈال کر سیٹیاں بجاتے اور راہ چلتی لڑکیوں پر آوازے کستے۔ اسکول یا کالج جانے والی لڑکیوں کا گھر کے دُوارے سے تعلیمی ادارے تک پیچھا کرتے۔ یہ سب کچھ اُن کی فلم بینی کا نتیجہ سمجھا جاتا تھا اور ان حرکتوں کو لوگ قہر کی نگاہوں سے دیکھتے۔ اُس زمانے کی معاشرتی اقدار ہی کچھ ایسی تھیں۔
اس پس منظر میں جب ایک روز متعلم جماعت ہفتم کو ایک ہم جماعت نے اُجرت دے کرٹی وی بینی، کے شغل کی دعوت دی تو خوف سے گھگھی بندھ گئی۔ کراچی کی مشہور بستی کھوکھرا پار کے ڈاک خانے سے جو سڑک ایف ایریا اور جی ایریا کے درمیان حد فاصل بناتی ہوئی "E" ایریا(تھانے) کی طرف چلی جاتی ہے، اُسی سڑک کے کنارے ایف ایریا میں چودھری کی دُکان تھی۔ چودھری کو دُکان پر چونّی تھما کر اُس سے پرچی لی جاتی اور دکان کے ساتھ ہی واقع گھر کے ڈرائنگ روم کا رُخ کیا جاتا۔ دروازے پر ایک دربان کھڑا ملتا جو پرچی وصول کرکے ناظر کو اندر جانے کی اجازت دیتا۔
اب آپ جتنی دیر تک جی چاہے ٹی وی دیکھتے رہیں۔ سننے میں آیا کہ بعضے بعضے دھتی ایسے بھی تھے کہ نشریات سے قبل نشر ہونے والی شناختی دُھن (Signature Tune) سے دیکھنا شروع کرتے تو قومی ترانہ ختم ہونے پر نکالے جاتے۔ ابتدا میں ٹی وی کی نشریات کا آغاز شام چار بجے پروگرام بصیرت، سے ہوتا تھا اور اختتام رات گیارہ بجے قومی ترانے پر۔ پیر کے دن نشریات کا ناغہ ہوتا تھا۔ جب پہلی بار چودھری کےتماش خانے، میں (دروازے دائیں بائیں سرکا کر کھلنے والے) ٹی وی کی تماش بینی، کی اور پہلی بار تصویروں کو حرکت کرتے دیکھا تو دنگ رہ گئے۔ تصویریں چل پھر بھی سکتی ہیں اور بول بَک بھی سکتی ہیں؟
حیرت ہے! مگر اُس روزحیرت زدہ طالب علم نے یہ حیرت انگیز نظارہ صرف پندرہ منٹ تک کیا۔ گھر والوں کو پتا چل جاتا توآوارہ گردی، کے جرم میں نہ جانے کتنی بھیانک سزا ملتی۔ تاہم چودھری کا کاروبار زیادہ عرصہ نہیں چل سکا۔ ایک دن محلے کے شریف اور عزت دار لوگوں نے اُس کی دُکان پر دھاوا بول دیا۔ اچھا خاصا ہنگامہ کھڑا کیا کہ تم نے محلے میں یہ کیا قحبہ خانہ، کھول رکھا ہے؟ بچے خراب ہو رہے ہیں اور تم کما رہے ہو؟ چودھری بچارا یہ بھی نہ کہہ سکا کہ تمھارے بچے خود آتے ہیں، روک سکو تو روک لو۔ ارے صاحب! اُس زمانے کی معاشرتی اقدار ہی کچھ ایسی تھیں۔
ٹیلی وژن چپکے چپکے کس طرح ہماری تہذیبی اور معاشرتی قدروں میں دخل انداز ہوا اور ہوتے ہوتے کیسے ہماری نجی مصروفیات میں خلل انداز ہوگیا، اس کی داستان بہت طویل ہے۔ ابتدا میں اِکّا دُکّا گھر تھے جہاں ٹیلی وژن آیا۔ پھر وہ زمانہ آن لگا کہ اِکّا دُکّا گھر ہوں گے جہاں ٹی وی موجود نہ ہو۔ آج بھی جن کٹّر مذہبی گھرانوں میں ٹی وی نہیں ہے، اُن میں ایک چھوڑ کئی کئی اسمارٹ فون موجود ہیں۔
طارق عزیز کا نیلام گھر، پاکستان ٹیلی وژن کے مقبول ترین پروگراموں میں سے ایک تھا۔ طویل عرصے تک چلا۔ بعد میں اس پروگرام کا نام بدل کر طارق عزیز شو، رکھ دیا گیا تھا۔ ابھی دو روز قبل ایک دوست نے بتایا کہ جب نیلام گھر شروع ہوتا تو وہ ڈائری لے کر ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتے۔ ہر سوال اور اُس کا درست جواب نوٹ کرتے جاتے۔ اس طرح انھوں نے دو ڈائریاں بھرلی تھیں۔
طارق عزیز کا چیختا چلّاتا فقرہ "جواب درست ہے!" آج بھی زباں زدِ خاص و عام ہے۔ "واٹر کُولر آپ کا ہوا" آج بھی کسی محاورے کی طرح بولا جاتا ہے۔ نیلام گھر، سے لڑکوں میں معلوماتِ عامہ کے حصول کا ذوق پیدا ہوا۔ موازنہ کیجیے تو موجودہ نسل کے مقابلے میں پچھلی نسل کی معلومات زیادہ تھیں۔ اب تو فرضی اور مصنوعی اطلاعات کی ایسی بھرمار ہے کہ صحیح اور غلط کی تمیز دشوار ہے۔ اُس زمانے کے تعلیمی اداروں میں بھی "نیلام گھر" کی نقل کی جاتی تھی۔ اسٹیج ہی پر نہیں، پنڈال میں بیٹھے ہوئے طلبہ و طالبات سے بھی معلوماتِ عامّہ کے سوالات کیے جاتے اور جھٹ انعامات دے دیے جاتے۔ طارق عزیز کے ایک اور فقرے کی تکرار اکثر کی جاتی ہے۔ اس فقرے کا پس منظر انھوں نے خود بیان کیا تھا۔ ہوا یوں کہ ایک بار طارق عزیز کی ملاقات ایک نابینا نوجوان سے ہوئی۔ اُس نے طارق عزیز کو بتایا: "میں آپ کا پروگرام بڑے شوق سے دیکھتا ہوں"۔
طارق عزیز کو حیرت ہوئی: "آپ کیسے دیکھتے ہیں؟"
جواب ملا: "کانوں سے!"
طارق عزیز کہتے ہیں کہ اس واقعے سے پہلے میں بھی معمول کے مطابق ناظرین، کو سلام کیا کرتا اور پروگرام کا آغاز کر دیتا۔ مگر اُس نوجوان نے مجھ سے گلہ کیا: "آپ سب کو سلام کرتے ہیں، مجھے نہیں کرتے"۔
تب طارق عزیز نے ناظرین، کے ساتھ ساتھ اپنے پروگرام کے سامعین، کو بھی مخاطب کرنا شروع کر دیا اور فقرہ یوں تشکیل دیا:
"دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے"۔
لو! ورق تمام ہوگیا۔ گئے زمانوں کی بہت سی یادیں ابھی باقی ہیں۔ اہلِ ابلاغ چاہیں تو یادگار زمانے پھر آسکتے ہیں۔ بقول مجید امجدؔ
مہکتے، میٹھے مستانے زمانے
کب آئیں گے وہ من مانے زمانے
جو میرے کُنجِ دل میں گونجتے ہیں
نہیں دیکھے وہ دُنیا نے زمانے
تری سانسوں کی سوغاتیں، بہاریں
تری نظروں کے نذرانے زمانے

