قدم رومن کے بڑھتے ہیں

گلشن اقبال، کراچی سے محترم محمد محمود احمد عثمانی لکھتے ہیں: "سب کچھ رومن رسم الخط میں لکھا جارہا ہے۔ سیاسی، سماجی، ادبی تنظیموں کے تشہیری اعلانات اور تجارتی اداروں کے اشتہارات، حتیٰ کہ موبائل فون پر بھیجے جانے والے ذاتی پیغامات بھی ہمیں اسی ہڑبونگی زبان میں وصول ہورہے ہیں۔ اس پر بھی کچھ لکھیے"۔
صاحب! بارہا لکھ چکے ہیں اور بار بار لکھنے پر تیار ہیں۔ تذکیر، یاددہانی اور دُہرائی کا عمل تحفیظ ہی کے لیے تو ہوتا ہے۔ قوم کی ہر قیمتی چیز کی حفاظت ہم پر فرض ہے۔ فرد پر بھی، اداروں پر بھی۔ ہمارا رسم الخط ہمارا قیمتی اثاثہ ہے۔ اس اثاثے کی حفاظت ہم اور آپ کریں گے۔
رسم الخط کا زبان سے تعلق، جسم سے جان کا تعلق ہے۔ زبان سیکھنے کے لیے رسم الخط سیکھنا اولین شرط ہے۔ اُردو میں بہت سی آوازیں ایسی ہیں جو کئی دوسری زبانوں میں نہیں۔ مثلاً ذ، ز، ض، ظ، غ اور ق، کی آوازیں ہندی زبان میں نہیں۔ پ، ٹ، چ، گ، وغیرہ کی آوازیں عربی زبان میں نہیں۔ بھ، پھ، گھ، وغیرہ کی آوازیں عربی و فارسی دونوں زبانوں میں نہیں۔ اسی طرح چ، خ، ش، غ اور ق، وغیرہ کے لیے رومن رسم الخط میں الگ حروف نہیں۔ اُردو نے اپنی تمام آوازوں کے لیے مخصوص حروفِ تہجی مختص کررکھے ہیں۔
خطِ نسخ یا خطِ نستعلیق میں دو، تین، چار یا پانچ حروف ملا کر الفاظ لکھ لیے جاتے ہیں اور کم جگہ گھیرتے ہیں۔ حروف کی حرکات کو اِعراب (زیر، زبر، پیش وغیرہ) سے ظاہر کردیا جاتا ہے۔ جب کہ اُردو الفاظ کو رومن حروف میں لکھتے وقت لفظ کا ہر حرف الگ الگ اور حرکات کے اظہار کے لیے ایک الگ حرف لکھنا پڑتا ہے۔ مثلاً اگر رومن میں غلافِ کعبہ، لکھنا ہو تو" Ghilaaf-e-Kaaba" لکھنا پڑے گا۔ اب یہ پڑھنے والے کی صوابدید پرہے کہ وہ "Gh"کو غ، پڑھتا ہے یا گھ۔ کھانا اور خانہ یا دانت اور ڈانٹ کے لیے رومن میں ایک ہی ہجے ہے۔ الغرض رومن اُردو خاصی مبہم ہوتی ہے۔ روانی سے پڑھی جاسکتی ہے نہ آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے۔ بالخصوص اُس صورت میں جب تحریر طویل ہو۔
ہر زبان اپنا تہذیبی پس منظر رکھتی ہے۔ ہمارا رسم الخط بھی ہماری اعلیٰ و ارفع تہذیب کا حصہ ہے۔ ہماری قومی و ملّی یکجہتی اور ہماری لسانی ہم آہنگی کا محافظ۔ اُردو، عربی اور فارسی ہی نہیں، سندھی، بلوچی، پنجابی، ہندکو اور پشتو سمیت تقریباً تمام پاکستانی زبانیں دائیں سے بائیں کو لکھی جاتی ہیں اور خطِ نسخ یا خطِ نستعلیق میں رقم کی جاتی ہیں۔ رومن الفاظ ہماری اِن زبانوں کے برعکس بائیں سے دائیں کو تحریر کیے جاتے ہیں۔
ہم دائیں ہاتھ والے ہیں اور وہ بائیں ہاتھ والے۔ عربی، فارسی، اُردو اور دیگر پاکستانی زبانوں کے اکثر حروفِ تہجی مشترک ہیں۔ جب کہ رومن حروفِ تہجی ہمارے خطے کی زبانوں کے لیے اجنبی ہیں۔ اگر ہمارے مطبوعہ اور برقی ذرائع ابلاغ رومن حروف تحریر کرنے کو رواج دیں گے تو ہماری آیندہ نسلوں کے لیے ہماری زبانیں اجنبی ہوجائیں گی۔ اپنی ہم شیر زبانوں سے ان کا ناتا ٹوٹ جائے گا۔ ہماری نئی نسل میں اپنی تاریخ اور اپنی تہذیب سے متعلق کتابوں کے اصل نسخوں کو پڑھنے کی صلاحیت نہیں رہے گی۔ ہمارے دینی علوم کا سارا سرمایہ رائگاں ہوجائے گا۔ رومن رسم الخط کو رواج دینے والوں کو احساس دلانا ضروری ہے کہ وہ جان بُوجھ کر یا بے جانے بُوجھے پاکستانی قوم کے عقاید، تہذیب، تمدن اور ثقافت کو کتنا دُوررَس نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ اس نقصان کا سبق اپنے برادر ملک ترکیہ سے لیجے۔
تُرکانِ عثمانی کا رسم الخط بھی تقریباً وہی تھا جواُردو نستعلیق کا ہے۔ 1928ء میں جناب مصطفیٰ کمال پاشا نے اسے تبدیل کرکے ترکی زبان رومن رسم الخط میں لکھنے کا حکم دیا اور ذاتی دلچسپی لی۔ تصور فرمائیے کہ اگر کسی روز پاکستان میں یہ حکم جاری ہوجائے کہ آج کے بعد کوئی شخص سوائے رومن حروف کے، کسی رسم الخط میں اُردو نہیں لکھ سکتا تو وطن عزیز کی کتنی بڑی تعداد اَن پڑھ ہوجائے گی۔ ایک نسل کے بعد کتنا بڑا ذخیرۂ کتب آثارِ قدیمہ بن کر رہ جائے گا۔ ان کتابوں کو پڑھنا اجنبی زبان پڑھنے جیسا ہوگا۔ یہی تُرکوں کے ساتھ ہوا۔ ترکی زبان کے الفاظ کا تلفظ بدل گیا۔
محمد کا تلفظ مَہمَت اور احمد کا تلفظ اَہمت ہوگیا۔ مُراد مُرات بن گیا۔ سعدالدین کو "سَعات تین" کہا گیا (اعلیٰ،)۔ طغریٰ تورا، ہوا اور ارطغرل اَرتُرل۔ ہمارے عزیز دوست اور "یارِ من تُرکی" کے مصنف جناب عبید اللہ کیہر نے کچھ مزید الفاظ کا تلفظ بگڑنے کی نشان دہی کی ہے۔ بالخصوص ایسے الفاظ کا، جو اُردو میں بھی مستعمل ہیں۔ مثلاً حرف خ، کے لیے ترکوں نے رومن حرف، H منتخب کیا۔ نتیجہ یہ کہ خراب/ خرابی، خطا، خائن، خبر/خبردار، خاطر، خزانہ، خیرات، خاتون، خالہ، خدیجہ اور خیرالنساء وغیرہ کا تلفظ بالترتیب حراب/حرابی، حطا، حائن، حبر/حبردار، حاطر، حزانہ، حیرات، حاتون، حالہ، حتیجہ اورحیرالنساء ہوگیا۔ حیران نہ ہوئیے، حیرالنساء بھی نہ ہوئیے۔ یہی ہونا تھا۔
رسم الخظ بدل جانے سے ترکوں کا تمام پرانا ذخیرۂ علوم ردّی کا ڈھیر بن گیا۔ اپنی کتابوں کو پڑھنے کے قابل نہ رہنے کی وجہ سے تُرک بھائیوں کی نئی نسل کا اپنے ماضی سے تعلق منقطع ہوگیا۔ حتیٰ کہ نژادِ نَو عربی میں قرآنِ مجید کی تلاوت کی سعادت سے بھی محروم ہوگئی۔ وہ توکہیے کہ بدیع الزماں سعید نُورسیؒ کی تحریک نے زیرِ زمیں قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ یوں پُرانے رسم الخط سے دینی مدارس کے لوگوں کی کچھ نہ کچھ آشنائی رہی۔ اِنھیں لوگوں میں سے موجودہ تبدیلیوں کے لیے افرادِ کار میسر آئے۔ اب صدر رجب طیب ایردوان (اردوغان) نے تعلیمی اداروں میں ترکانِ عثمانی کا رسم الخط پڑھانے کا حکم جاری کردیا ہے۔ حکم جاری کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا:
"دنیا میں ایسی کوئی قوم مجھے بتا دیں جو اپنی تاریخ اور تہذیب کے اصلی نسخوں ہی کو پڑھنے سے محروم ہو۔ کیا دنیا میں ایسی کوئی قوم ہے جو اپنے باپ دادا کی قبروں کے کتبوں کو پڑھنے کی صلاحیت ہی سے عاری ہو؟ کیا دنیا میں ایسی کوئی قوم ہے جو اپنے قابلِ فخر شعرا، ادیبوں، مصنفین، مفکرین اور علما کے تحریر کردہ شاہکاروں کو پڑھنے سے قاصر ہو؟ زبان انسانوں کے درمیان رابطے کا کام سر انجام دیتی ہے۔ اگر آپ کسی معاشرے سے اپنی زبان تحریر کرنے کا حق چھین لیں تو وہ معاشرہ اپنی زبان ہی سے نہیں، مذہب، فن اور ادب سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ ہماری تہذیب الفاظ، تحریر، کاغذوں اور کتابوں سے پھلی پھولی ہے۔ استنبول ہمیشہ ہی مختلف تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے۔ اس کے تمام گوشے تحریر اور خطاطی سے اَٹے پڑے ہیں، لیکن بدقسمتی سے خطاطی کے ان نمونوں کو قوم سمجھنے ہی سے قاصر ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی نئی نسل کو عثمانی ترکی زبان سیکھنے کا موقع فراہم کریں۔ ہمیں تو عثمانی ترکی زبان سیکھنے کا کوئی موقع ہی فراہم نہیں کیا گیا، لیکن اب ہماری نئی نسل کو اس حق سے محروم نہیں رکھا جانا چاہیے"۔
ترکانِ عثمانی کے رسم الخط کی بحالی کے بعد اُردوخواں لوگوں کے لیے ترکی سیکھنا سہل ہوجائے گا۔
خواتین و حضرات! ان معروضات کا مدعا یہ ہے کہ اُردو مطبوعات اور اُردو نشریات میں اُردو کے فقرے رومن حروف میں لکھنے کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔ سیاسی، سماجی، ادبی تنظیموں اور اشتہاری اداروں کی طرف سے اُردو میں وضع کیے گئے نعرے اور فقرے رومن حروف میں لکھنے کے رواج کی روک تھام ضروری ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اُردو رسم الخط ہی بے رواج ہوجائے۔
چین، فرانس، جرمنی اور جاپان سمیت متعدد ممالک میں ایسے سرکاری ادارے قائم ہیں جو اپنی زبان اور اس کے معیار کا تحفظ کرتے ہیں۔ ان اداروں کے احکام "نافذ"ہوتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کو ضابطے کا پابند بنانے والے سرکاری ادارے ہمارے ہاں بھی موجود ہیں۔ لیکن چند اخلاقی پابندیوں کے علاوہ اُن کا دائرۂ کار بیش تر سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پابندیاں لگانے تک محدود رہتا ہے۔ انھیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ مطبوعات و نشریات میں قومی زبان کا کیا حشر ہورہا ہے۔
اگر PEMRA اور وفاقی و صوبائی محکمہ ہائے اطلاعات و نشریات کو قومی زبان کے تحفظ کی توفیق مل جائے تو اخبارات و جرائد، نشریاتی اداروں اور اشتہاری ایجنسیوں کو کم ازکم اس بات کا پابند تو کر ہی سکتے ہیں کہ کوئی اُردو فقرہ رومن حروف میں نہیں تحریر کیا جائے گا۔ مطبوعہ اور برقی ذرائع ابلاغ کی انتظامیہ اپنی قومی ذمے داری محسوس کرتے ہوئے یہ پابندی اپنے اداروں پر ازخود بھی لگا سکتی ہے۔ ورنہ، اکبر الٰہ آبادی کی روح سے معذرت کے ساتھ، یہی کہنا پڑے گاکہ
قدم "رومن" کے بڑھتے ہیں، فتح انگلش کی ہوتی ہے

