Saturday, 21 June 2025
  1.  Home
  2. Abu Nasr
  3. Na Kare Hai Na Dare Hai

Na Kare Hai Na Dare Hai

نہ کرے ہے نہ ڈرے ہے

حیدر آباد دکن کے محترم ابراہیم علی حسن صاحب اِن کالموں کے مستقل قاری ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: "السلام علیکم محترم احمد حاطب صدیقی صاحب۔ امید ہے بفضلہٖ تعالیٰ بخیر ہوں گے۔ آج کل پاکستان کے اہلِ قلم میں ہم کو، کی جگہ ہم نے اور تم کو، کی جگہ تم نے، کا استعمال بہت نظر آ رہا ہے۔ قدما میں تو نہیں تھا ایسا۔ امید ہے آپ اپنا قیمتی وقت نکال کر اس موضوع پر کچھ لکھیں گے۔ یہ اگر مغالطہ ہے تو رفع ہو۔ اگر نہیں تو ہمارے علم میں اضافہ ہوگا، اِ ن شاء اللہ۔ ابراہیم علی حسن (حیدر آباد دکن۔ انڈیا)"۔

جناب ابراہیم علی حسن نے پاکستانی شاعررحمٰن فارسؔ کی ایک غزل بھی ثبوت کے طور پر ارسال فرمائی ہے، جس میں اُنھوں نے جا بجا تم کو اور ہم کو، کی جگہ تم نے اورہم نے، استعمال کیا ہے۔ ہم یہاں پوری غزل دینے کی بجائے صرف متعلقہ اشعار نقل کررہے ہیں:

تم بھی ہو بیتے وقت کے مانند ہوبہو
تم نے بھی یاد آنا ہے، آنا تو ہے نہیں

عہدِ وفا سے کس لیے خائف ہو میری جان
کر لو کہ تم نے عہد نبھانا تو ہے نہیں

وہ جو ہمیں عزیز ہے، کیسا ہے، کون ہے
کیوں پوچھتے ہو؟ ہم نے بتانا تو ہے نہیں

دنیا ہم اہلِ عشق پہ کیوں پھینکتی ہے جال؟
ہم نے ترے فریب میں آنا تو ہے نہیں

اگر ملک میں اس طرح کی شاعری کی پزیرائی ہوتی رہی تو شاید آگے چل کر رحمٰن فارسؔ صاحب ہی پاکستان کے نمائندہ شاعر کہلائیں گے۔ فی الحال تو انھیں یہ مقام حاصل نہیں۔ ہاں اگر مزید ہم نے، تم نے، کریں تو ممکن ہے کہ اُنھیں کو یہ منصب عطا کر دیا جائے۔ مگر اے حضرت! یہ ہم نے، تم نے، فقط پاکستان کے اہلِ قلم کے ساتھ مخصوص نہیں۔ بقولِ شیخ سعدیؔ علیہ الرحمہ:

ایں گناہیست کہ در شہر شما نیز کنند

(یہ وہ خطا ہے جو تمھارے شہر والے بھی کرتے ہیں)

مشہور نقادآں جہانی پروفیسر ڈاکٹر گیان چند جین، جو بھارت کی مختلف جامعات میں اُردو کے پروفیسر بھی رہے ہیں، لکھتے ہیں:

"میں نے جانا ہے" اس جملے کو پنجابیوں کا انداز اور اسلوب سمجھ کر اسے غلط قرار دیا جاتا ہے۔ یوپی والے "مجھے جانا ہے" یا "مجھ کو جانا ہے" کو صحیح سمجھتے ہیں۔ در اصل "میں" فاعلی حالت ہے، اس لیے "میں نے جانا ہے" ہی قواعد کے اعتبار سے صحیح ہے۔ ضمیر "مجھے" میں مفعولی حالت ہے مثلاً اس نے مجھے مارا اور "کو" فاعل کا حرف نہیں بلکہ مفعول کا ہے۔ مثلاً اُس نے مجھ کو مارا۔ لہٰذا "مجھے جانا ہے" کے بجائے "میں نے جانا ہے" ہی درست ہے۔ یوپی والے اگر اسے غلط بولتے ہیں تو وہ اپنی یہ غلطی اہلِ پنجاب پر نہیں لاد سکتے"۔ ("عام لسانیات" از ڈاکٹر گیان چند جین، شائع کردہ: انڈیا قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان، نئی دہلی، سنہ اشاعت 1985ء، ص: 20)

مگر ڈاکٹر گیان چند چین کے اس نقطۂ نظر کو ماہرین زبان میں مقبولیت حاصل نہیں ہوئی۔ ہمارے ہاں پاکستان میں بھی چند افراد (مثلاً پروفیسر غازی علم الدین مرحوم) اسی نقطۂ نظر کے حامی تھے۔ بلکہ مشہور ماہر نصابیات پروفیسر محمد اسحٰق جلالپوری مرحوم تو اس نقطۂ نظر کے حق میں ایک دلچسپ مثال بھی دیا کرتے تھے۔ کہتے تھے: "اگر آپ یہ فرمائیں گے کہ آپ کو 100 روپے دینے ہیں۔ تو یہ واضح نہیں ہوتا کہ روپے کون دے گا؟ میں دوں گا؟ یا آپ دیں گے؟ لیکن اگر یوں کہا جائے کہ میں نے 100روپے دینے ہیں، یا آپ نے 100 روپے دینے ہیں، تو کوئی ابہام باقی نہیں ر ہے گا، بات بالکل واضح ہو جائے گی۔ "

گویا "میں نے، تم نے" کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ 100 روپے ڈوب جانے کا ڈر نہیں رے گا۔ لیکن ہمیں ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ڈرے تو وہ جس نے 100روپے ہڑپ کر رکھے ہوں۔ مُلا نوریؔ فرماتے ہیں کہ "ہر وہ شخص جو خیانت کرتا ہے، ضرور ڈرتا ہے":

ہر کس کہ خیانت کُند البتہ بِترسد
بے چارۂ نوریؔ نہ کرے ہے نہ ڈرے ہے

نوری کے ذکر پر ضیائی یاد آگئے۔ پروفیسر آسیؔ ضیائی نے اپنی کتاب "درست اُردو" میں میں نے، تم نے، استعمال کیے بغیر ہی 100 روپے ڈوب جانے کا ڈر دل سے نکال دیا ہے۔ آسیؔ صاحب کی یہی کتاب"مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی" نے بھی "اچھی اُردو" کے نام سے شائع کر دی ہے۔ (یہ کتاب ڈاکٹر تابشؔ مہدی مرحوم نے کالم نگار کو ہندوستان سے ہدیتہً بھیجی تھی۔ اللہ اُن کے حسنات کو شرفِ قبولیت بخشے۔ آمین) کتاب کے پہلے باب میں "نے" کے غلط استعمال کی مثالیں دیتے ہوئے پروفیسر آسی ضیائی لکھتے ہیں:

"میں نے تم سے کچھ کہنا ہے"، "آپ نے ایسا نہ کرنا تھا"، "اُس نے تو لاہور جانا ہی ہوا"، "اب ہم نے تم سے بھلا کیا لینا ہے؟"یہ اور اس طرح کے دوسرے جملے جن میں نے، کے ساتھ فعلِ مصدری آتا ہے، پنجابی روز مرہ میں داخل ہیں۔ بلکہ پنجانی زبان کے قواعد کی رُو سے بھی درست ہیں۔ البتہ اُردو قواعد اور روز مرہ دونوں کی رُو سے ان کو کسی طرح درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایسے تمام مواقع پر نے، کی بہ جائے کو، استعمال ہوتا ہے۔ ان جملوں کی صحیح شکل یہ ہوگی: "مجھ کو (مجھے) تم سے کچھ کہنا ہے"، "آپ کو ایسا نہ کرنا تھا"، "اُس کو تو لاہورتو جانا ہی ہے"(ہوا، خلافِ محاورہ ہے)، "اب ہم کو (یا ہمیں) تم سے بھلا کیا لینا ہے؟"آخری جملے کو اس طرح بھی لکھ سکتے ہیں: "اب ہم بھلا تم سے کیا لیں؟"بلکہ ایسے جملوں میں فعل کو مضارع یا مستقبل بنا نا بہتر ہوتا ہے۔ مثلاً: پھر ہونا کیا تھا؟ ، کی بہ جائے پھر ہوتا کیا؟ ، فصیح ہے۔

مثلاََ گاڑی نے یہاں ٹھیرنا ہے، کی بجائے یہ دو جملے صحیح ہیں: گاڑی کو یہاں ٹھیرنا ہے، گاڑی یہاں ٹھیرے گی۔ بعض دفعہ کو، کے استعمال میں کسی قدر اُلجھن بھی پیش آ سکتی ہے۔ مثلاً میں نے تمھیں سو روپے دینے ہیں۔ اگرچہ اس کی صحیح صورت یہ ہوگی: مجھ کو تم کو سو روپے دینے ہیں۔ لیکن اس کو، کی تکرار کی وجہ سے یہ مشکل پڑ سکتی ہے کہ یہاں سو روپے دینے والا کون ہے اور لینے والا کون۔ لہٰذا ایسے موقعے پر اہلِ زبان کئی دوسری طرح کے جملے بولتے ہیں۔ مثلا: مجھ کو تمھارے سو روپے دینے ہیں۔ ، میں تمھیں سو روپے کا دین دار ہوں، مجھ پر تمھارے سو روپے آتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ ("درست اردو" از آسی ضیائی۔ پہلا باب)

بھارت سے شائع ہونے والی "اچھی اُردو" کا پیش لفظ لکھتے ہوئے پروفیسر نثار احمد فاروقی (دہلی یونیورسٹی) لکھتے ہیں:

"راقم الحروف نے اس کتاب کو دلچسپی سے پڑھاہے اوراس کی افادیت کا احساس کیاہے، البتہ بعض معمولی جزئیات میں کسی قدر اختلاف کی گنجایش بھی محسوس کی ہے۔ مثلاً پہلے باب میں مجھ کو اور مجھے، کی بحث کے ذیل میں فصیح تر مثال یہ ہوگی کہ "تمھارے سو روپے مجھے ادا کرنے ہیں"۔

لیجے سو روپے کا مسئلہ تو حل ہوگیا۔ مگر رحمٰن فارس صاحب کی غزل کا مسئلہ لا ینحل رہا۔ اُردو شاعری میں کسی مستند شاعر نے ایسی بے سند بولی اپنے محبوب سے نہیں بولی۔ اچھی زبان لکھنے والے ایسی زبان نہیں لکھتے۔ غازی علم الدین مرحوم یا اسحٰق جلالپوری مرحوم نے بھی میں نے آنا ہے اور تم نے جانا ہے، جیسے جملے اپنی علمی و ادبی نگارشات میں استعمال نہیں کیے۔ کالم نگار بھی، نہ کرے ہے نہ ڈرے ہے۔

Check Also

Mushtarka Khandan Aur Jadeed Samaj

By Javed Ayaz Khan